میرے ایک دوست کا بیٹا ابلاغ عامہ کا طالبعلم تھا، وہ مستقبل میں صحافی بننا چاہتا تھا کچھ عرصے پہلے جب میں اس سے دوبارہ ملا تو اس نے بتایا کہ اس کا ارادہ تبدیل ہوگیا ہے۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہوا ،تو اس کا جواب تھا " صحافی کو یوم حشربہت سخت حساب دینا پڑے گا"
پاکستان میں آئیڈیا 2022 اختتام پزیر ہو گی۔ دفاعی صنعت کے شعبے میں اس کا 11 واں ایڈیشن تھا۔ گذشتہ دنوں اس سلسلے میں ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل محمد عارف ملک کی جانب سے ایک دعوت نامہ ملا جو آئیڈیاز 2022 کے حوالے سے ایک میڈیا بریفنگ کے سلسلے میں تھا میڈیا انڈسٹری سے چنیدہ لوگ ڈیفنس انڈسٹری کی اس دعوت پر پہنچے جہاں پہلے ڈی جی نے گفتگو کی اور پھر ایک پریزنٹیشن پیش کی گئی ،اس کے بعد مرحلہ آیا سوال جواب کا، ابھی چند سوالوں کے بعد راقم الحروف کی باری آئی ہی تھی کہ ایک آوازآئی کہ یہ آخری سوال ہے۔
ہم نے بھی سوال آخر کیا اور جواب آخر پاکر اٹھ گئے۔
جواب کے ایک حصے سے ہی اس تحریر کا آغاز کیا ہے، اپنا سوال بعد میں بتاوں گا، پہلے آئیڈیاز کے حوالے سے کچھ باتیں ہوجائیں۔
آئیڈیاز 2022 کا رواں سال انعقاد اس حوالے سے اہم ہے کہ لاکھوں جانوں کی قربانیوں، ہزاروں عصمتوں کی پامالی اور لاکھوں افراد کی ہجرت پر منتج ہونے والا ملک پاکستان اس سال برس75 کا ہوگیا ہے قوم سال 2022 کو اپنی 75 ویں سالگرہ کے طور پر منارہی ہے اور آئیڈیاز 2022 کو بھی اسی سے نسبت دی گئی ہے۔ یہ نمائش 15 تا 18 نومبر ایکسپو سینٹر کراچی میں ہوئی۔ نئی صدی کے آغاز پر ہونے والی پہلی نمائش کے بعد سے اب یہ پاکستان کی ایک شناخت بن چکی ہے دنیا بھر سے مختلف ممالک اس ایکسپو میں شرکت کرتے اور اپنی دفاعی مصنوعات کی نمائش کرتے ہیں۔
گذشتہ یعنی 10 ویں ایڈیشن میں ترکیہ، چین اور روس جیسے ممالک نے آئیڈیاز میں اپنے خصوصی پویلین قائم کیے تھے، کہا جارہا تھا کہ اس بار ایسے پویلینز کی تعداد میں مزید اضافہ ممکن ہے اور ایسا ہی ہوا یورپی ممالک رومانیہ اور آسٹریا سمیت 106 ممالک کی 345 سے زائد اہم شخصیات اور اعلیٰ سطح کے مندوبین کو بھی اس سال مدعو کیا گیاتھا۔خوش آ ٓند بات ہے کہ مندوبین و نمائش کنندگان کی شرکت کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گے۔
دفاعی سازوسامان کی اس نمائش میں پاکستان کے دوست ممالک بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اس سے ایک طرف وہ پاکستان کی دفاعی خود انحصاری میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں تو دوسری طرف انہیں اپنی دفاعی صلاحیت دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملتا ہے ،جبکہ پاکستان کے قومی ادارے ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ، پاکستان آرڈیننس فیکٹری، کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس، ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا، نیشنل ریڈیواینڈ ٹیلی کمیونی کیشن کارپوریشن، گلوبل انڈسٹریل ڈیفنس سلوشنز بھی اپنی مصنوعات کی نمائش کرکے عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہیں۔ اعداد و شمار تک تو رسائی نہیں لیکن بتایا یہی جاتا ہے کہ آئیڈیاز کے نتیجے میں دنیا بھر سے پاکستان کو اچھے آرڈرز موصول ہوتے ہیں ،جس سے پاکستانی معیشت کو بھی عمدہ سہارا ملتا ہے۔
اس نمائش سے پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کو بھی اپنی صلاحیتوں کےاظہار کا موقع ملتا ہے جس کے لیے وہ ناصرف نمائش میں اپنے خصوصی اسٹالز لگاتی ہیں بلکہ ہر نمائش کے دوران کراچی کے ساحل پر ایک ایئر شو کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جسے دیکھنے کے لیے کراچی کے شہریوں کی بڑی تعداد ساحل کا رخ کرتی ہے اس سال بھی یہ ایئر شو 17 نومبر کو ہوا۔
آئیڈیاز 2022 کی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ اپنی جانب متوجہ کیا،وہ ہے اس بار نمائش کے دوران ہونے والا دو روزہ سیمینار جس کا موضوع ہے "آرٹیفیشل انٹیلیجنس"۔ آئیڈیاز کے دوران ہونے والے اس سیمینار کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس میں ناصرف پاکستانی بلکہ عالمی ماہرین بھی "مصنوعی ذہانت " کے حوالے سے اپنے پیپرز پڑھیں گے اور پاکستانی طلبہ کو اس سیمینار میں شرکت کرکے اس فیوچر ورلڈ کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔
آرٹیفشل انٹیلیجنس آج ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنتا چلا جارہا ہے ہمارے اردگرد بہت کچھ ایسا ہورہا ہے جو اس مصنوعی ذہانت کے مرہون منت ہے لیکن مارچ 2018 میں انتقال کرجانے والے گذشتہ صدی کے آئن اسٹائن، مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ اس کے تھوڑے مخالف تھے۔ تھیوریٹیکل فزکس کے اس عظیم سائنسدان کا کہنا تھا کہ ،اس طرح کی ٹیکنالوجی خود میں بہتری لانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس طرح یہ انسانی ذہانت سے بازی لے جا سکتی ہے، ایسا کرنا انسانی نسل کے خاتمے پر منتج ہو سکتا ہے۔
اسٹیفن ہاکنگ سمجھتے تھے کہ انسان نے ایک بار مصنوعی ذہانت تشکیل دے لی تو پھر وہ خود بخود اپنے آپ میں بہتری لاتی جائے گی، خود کو زیادہ تیز رفتاری سے ری ڈیزائن کرے گی اور انسان کا آگے بڑھنے کا عمل چونکہ قدرتی طور پر سست ہے تو وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اسٹیفن ہاکنگ کی اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ دفاعی شعبے میں کتنا اہم ہے، اسے آج دنیا بخوبی ناصرف سمجھ چکی ہے بلکہ اس پر اتنا زیادہ کام ہورہا ہے کہ آنے والے کل میں شاید پوری دنیا کو ہی اپنی افواج کی افرادی قوت کے ساتھ مصنوعی ذہانت کے حامل دفاعی سازوسامان پربھی انحصار بڑھانا ہوگا۔ پاکستان بھی یقینا اس پر کام کررہا ہے اور جب اس حوالے سے ڈی جی ڈیپو سے جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا لیکن یہ بتانے سے گریز کیا کہ پاکستانی اسٹالز پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے متعلق کون سی نئی پراڈکٹس متعارف کرائی جانے والی ہیں۔
پاکستان میں ان دنوں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ایک حصے پر کافی کام ہورہا ہے اور وہ ہے ڈیپ فیک ٹیکنالوجی جس کی مدد سے جعلی تصاویر یا ویڈیوز تیار کی جاتی ہیں ڈیپ فیک کا لفظ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ڈیپ لرننگ پروگرام سے ہی لیا گیا ہے، جس کا مطلب ایک ایسی ٹیکنالوجی جو پوری طرح نقلی ہو لیکن اتنی ڈیپ ہو کہ اسے پہچانا نہ جاسکے یہ ٹیکنالوجی اتنی خطرناک ہے کہ جتنی دیر میں اس کی مدد سے تیار تصاویر یا ویڈیوز کے جعلی ہونے کا پتہ چلتا ہے کافی نقصان ہوچکا ہوتا ہے۔
آئیڈیاز سے ایک طرف ملکی زرمبادلہ میں اضافہ ممکن ہے تو دوسری طرف عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرنے میں بھی مدد ملتی ہے اور یہی آئیڈیاز 2022 کے بھی دو بڑے ٹارگٹ ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو تقریبا ہر شعبے میں ہی اپنی صلاحیتوں کے جوہر منوا رہا ہے اور دنیا ہماری معترف بھی ہے۔ پاکستان کا امیج ایک پروگریسیو، ترقی کی جانب گامزن اور برداشت کی پالیسی رکھنے والے ملک کی ہو گی تو یقینا دنیا ہم سے روابط بڑھانے میں زیادہ دلچسپی لے گی اور اس کا اثر ناصرف پاکستانی قوم بلکہ پوری دنیا پر بھی مثبت پڑے گا۔
اب واپس آتے ہیں اس جواب کی جانب جس سے اس تحریر کا آغاز کیا تھا لیکن اس سے پہلے راقم الحروف کا سوال ملاحظہ کریں،
ڈی جی ڈیپو میجر جنرل محمد عارف ملک سے پوچھاکہ، ایک ایسے وقت میں جب ملک میں سیاسی تناو ہے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی باتیں ہورہی ہیں ۔ جڑواں شہروں میں مسلسل احتجاج کیا جارہا ہے، ایسے میں آئیڈیاز 2022 میں شرکت کے لیے آنے والے غیرملکی مندوبین جب اسلام آباد اتریں گے تو ان پر اس کا کیا اثر ہوگا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ آئیڈیاز 2022 کے ذریعے پاکستان کے مثبت امیج کو پوری دنیا تک پہنچانے میں مدد ملنے کی بجائے الٹا نقصان ہوجائے؟
ڈی جی ڈیپو نے کافی مفصل جواب دیا لیکن اس کا نچوڑ یہی تھا کہ ،پاکستان کی ترقی میں میڈیا کا بہت اہم کردار ہے اور آئیڈیاز 2022 کے موقع پر اب یہ پاکستانی میڈیا پر ہے کہ وہ کیا دکھاتا ہے اور کیا نہیں دکھاتا ہے میڈیا چاہے تو چار دن کسی کو نہ دکھائے تو وہ خود ختم ہوجائے گا، انہوں نے اسی بیانیے پر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے دوست کے بیٹے کی مثال بھی دی جس کا کہنا تھا کہ صحافی کا یوم حشر بہت سخت حساب ہوگا اور اسی سخت حساب کے ڈر سے اس نے صحافت میں آنے کا فیصلہ تبدیل کرلیا۔
ڈی جی ڈیپو کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ بطور صحافی یقینا یوم حشر خدا ہم سے سخت حساب لے گا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم یہاں بھی کچھ کم سختی سے نہیں گزر رہے حساب تو ہمیں یہاں زمینی خداوں کو بھی سخت ہی دینا پڑ رہا ہے اور وہ بھی روزانہ کی بنیادوں پر۔۔۔۔۔تو اے نوجوانوں اپنے مستقبل کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں ،حساب تو دینا ہوگا۔