• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’عید کارڈ‘‘ کشمیر سے ایک مجاہد کا عید کارڈ، اپنی بیٹی کے نام

کہانیاں عام طور پر جھوٹی ہوتی ہیں، مگر ان کے سبق سچے ہوتے ہیں ۔ایسی کہانیاں کتنی ہی پرانی ہوں ،ہمیشہ نئی محسوس ہوتی ہیں ۔یہ بھی ایک پرانی کہانی ہے، اتنی پرانی کہ اس وقت نہ موبائل فون تھا،نہ انٹرنیٹ اور نہ گوگل ہا ں عید کارڈ ہوتے تھے، کچھ پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے ایک پرانا عید کارڈ نظر آیا تو جانے کیوں یہ سچی کہانی یاد آگئی۔ آج آپ کویہ پرانی کہانی سناتا ہوں۔

یہ ایک بچی کی کہانی ہے ۔نام اس کا ردا تھا۔ وہ تتلا تتلاکر بولتی تھی۔ اگرچہ بہت چھوٹی تھی، پھر بھی اسے احساس ہو گیا تھا کہ اُس کے ارد گرد ،گھر میں کسی چیز کی کمی ہے ۔کوئی رشتہ ،کوئی ایسا فرد،جسے ہونا چاہیے ،مگر نہیں ہے، جب اُس نے بولنا شروع کیا تو امی تو جیسے نہال ہی ہو گئیں ۔وہ سارا سار دِن اسے اپنے سینے سے چمٹائے خوب پیار کرتیں۔ اپنے ہاتھوں سے اس کے لیے نت نئی چیزیں پکاکر کھلاتیں ،سلائی مشین پر ،چھوٹے چھوٹے پھولوں والی فراکیں سی سی کر اُسے پہناتیں ،رات کو تھپک تھپک کر سلاتے وقت اُسے پریوں کی، شہزادیوں کی، بادشاہوں کی ، جنگوں اورجنگلوں کی کہانیاں سُناتیں۔

رداجیسے جیسےبڑی ہو رہی تھی ،یہ ساری کہانیاں ،اُن کے تمام کر دار ،ان کے رشتے ،سب کچھ سمجھ میں آتا جا رہا تھا اور پھر ایک دِن ، جب وہ اتنی بڑی ہو گئی کہ سوال پوچھنے لگی، خوب سوچ سمجھ کر باتیں کرنے لگی ،تب اس نے امی سے پوچھا۔

’’ امی ،کیا ساری شہزادیوں کے ابا اُن کے ساتھ اُن کے محل میں رہتے ہیں،؟

’’ ہاں بیٹی، محل تو ہوتا ہی اُن کے ابا کا ہے۔وہ بادشاہ ہوتا ہے، اپنی شہزادیوں کے ساتھ ہی رہتا ہے ، ‘‘ امی نے جواب دیا۔

’’ اورآپ کہتی ہیں کہ میں بھی شہزادی ہوں۔‘‘

’’ ہاں بیٹی تم میری ننھی سی پیاری سی شہزادی ہو۔"امی نے جواب تو دے دیا ،مگر اُن کا دل اچانک تیز دھڑک اُٹھا ۔

’’ تو پھر میرے اباجان کہاں ہیں، وہ اپنی شہزادی کے ساتھ کیوں نہیں رہتے۔‘‘

امی کا دل بلا وجہ نہیں دھڑکا تھا ۔وہ سمجھ گئی تھیں کہ ان کی شہزادی کو یہ تمہید باندھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے ۔جس وقت ننھی رِدا نے اپنی امی سے یہ سوال کیا تھا۔ اس وقت اس کے دادا جان باہر صحن میں چارپائی پر سو رہے تھےاور دادی جان برآمدے میں تخت پر بیٹھی سروتے سے چھالیہ کتر رہی تھیں۔

سوال تھا یا تازیانہ تھا ،ردا کی امی کو چپ لگ گئی ۔دادی نے چونک کر دیکھا اور جھٹ آگے بڑھ کر ردا کو سینے سے چمٹا لیا۔

’’ارے میری جان ، دیکھو تو بچی کو آج باپ یاد آگیا۔‘‘

’’ امی بتائیں نا ،میرےابو کہاں ہیں۔‘‘

امی کچھ بول ہی نہ پائیں،اُن کی آنکھوں میں اچانک پانی آگیا تھا ،جسے چھپانے کی کوشش کرنے لگیں ، مگر ناکام ہو گئیں۔

’’ بولو نا امی ، کہاں ہیں ابو۔؟‘‘

’’ بیٹا وہ کسی ضروری کام سے گئے ہیں ۔ ‘‘۔امی نے بڑی مشکل سے جواب دیا ،بولتے ہوئے اُن کا گلا رُندھ گیا۔

’’ کام سے گئے ہیں؟ ردا نے بے یقینی سے پوچھا ۔

’’ ہاں بہت ضروری کام سے گئے ہیں۔‘‘

’’ مگر میں نے تو اُنہیں کبھی دیکھا ہی نہیں۔‘‘

’’ کیوں کہ وہ بہت دنوں سے گئے ہوئے ہیں نا ، اس لیے ،‘‘

’’ اچھا،" ردا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

" کہاں گئے ہیں ، آتے کیوں نہیں ہیں؟ ‘‘

’’ کیوں کہ وہ بہت دور گئے ہیں نا، واپس آنے میں وقت تو لگتا ہے۔‘‘انہوں نے باتوں باتوں میں اپنی ہتھیلی کی پشت سے آنکھوں میں تیر نے والے پانی کو دوبارہ صاف کر لیا۔

’’ تو پھر وہ کب آئیں گے گھر ؟‘‘

’’ جب تم اللہ میاں سے دُعا مانگو گی ۔‘‘ یہ تو بہت آسان ہے۔ ردا نے کہا اور فوراً ہاتھ اٹھا کر دُعا مانگنے لگی ۔

……٭٭……

ردا کے ابو دین دار آدمی تھے ۔جذبہ ایمانی سے سر شار ، نماز پنج گانہ محلے کی مسجد میں ہی ادا کرتے تھے ۔اُن کی شادی کو ایک سال ہی ہوا تھا کہ ایک روز مسجد میں کچھ لوگ چندہ جمع کرنے آئے ۔وہ کشمیر کے بے سہارا، یتیم، اور زخمی بچوں کے لیے امداد جمع کررہے تھے۔ اُن کی باتیں اور کشمیر یوں پر ہونے والے مظالم کا سن کر اُن کا دل دہل گیا۔ انہوں نے چندہ جمع کرنے والوں سے کہا،میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔

’’ ضرور پوچھیں ، ان میں سے ایک بولا ۔

’’ کیا کشمیر میں اِتنا ہی ظلم ہو رہا ہے جیسا آپ بتا رہے ہیں؟‘‘

"جی بھائی ،کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔"

" اخبارات میں پڑھتا تو ہوں ،مگر آپ کی باتیں سن کردل دہل گیاہے ،کچھ اور بتاؤ،"

’’ بہت لمبی داستان ہے، بھائی، ظلم کی طویل داستان۔‘‘

’’ پھر بھی ، بتاؤ گے تو معلوم ہو گا نا‘‘ انہوں نے کہا ۔

’’ اِس کا مطلب ہے آپ کو واقعی کچھ نہیں معلوم۔‘‘

’’ اتنا ہی علم ہے جتنا خبروں میں بتایا جاتا ہے ، مگر کبھی کبھی اُس پر یقیں نہیں آتا،‘‘

’’ کیوں، یقین کیوں نہیں آتا ،؟‘‘

’’مجھے لگتا ہے، اُن خبروں میں سچائی کم اور فسانہ زیادہ ہے۔‘‘

اتنا کہنا تھا کہ اس شخص کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اس نے اپنی ٹانگ پر سے کپڑا اُٹھا یا،اُس کی ٹانگ لکڑی کی تھی۔

’’ یہ ٹانگ دیکھ رہے ہو‘‘ اُس نے پوچھا۔

’’ ہاں ، لکڑی کی ٹانگ ہے ،جن کی ٹانگ نہیں ہوتی وہ لکڑی کی لگا لیتے ہیں ،‘‘

’’ جب میں پیدا ہوا تھا اس وقت یہ لکڑی کی نہیں تھی، گوشت کی تھی، جوان ہوا ، تب بھی گوشت کی تھی اور جب میرے گاؤں میں فوج آئی تو مجھے اُٹھا کر لے گئی۔‘‘

’’ پھر، ‘‘ وہ حیرانی سے بولے ۔

’’ پھر میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر آری سے میری ٹانگ کاٹ دی۔‘‘

’’ کک ۔۔کیا مطلب ۔۔۔‘‘

وہ تھرا گئے۔ آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئیں ۔

’’ ہاں انہوں نے ، میری ٹانگ کاٹ دی ، جیسے اور بہت سوں کی ٹانگیں کاٹیں ، کسی کےبازو کاٹ دیے، کچھ کی آنکھیں نکال دیں ۔‘‘

ان کی آنکھوں کے سامنے یہ سب سن کر اندھیرا چھانے لگا۔’’ اوہ تو، تو کوئی روکنے والا نہیں ہے اُنہیں اس ظلم سے۔‘‘

اس نے اثبات میں سر ہلایا’’ ہاں بہت سے لوگ ہیں جو دن رات ان کا سامنا کرتے ہیں، انہیں ظلم کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔‘‘

’’ کون ہیں وہ لوگ؟‘‘

’’ مجاہدین"…’’ مجاہدین‘‘

ہاں ،مجاہدین ،کشمیری مجاہدین ،میرے اور آپ جیسے لوگ جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر مظلوموں کی مدد کے لیے اور ظالموں سے لڑنے کے لیے وہاں موجود ہیں، وہاں کے مظلوموں کے ساتھ مل کر،ظالموں کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ ‘‘

’’ کیا میں اس جہاد میں شامل ہو سکتا ہوں، میں بھی مجاہد بن سکتا ہوں، میں بھی جہاد پر جاکر اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کر سکتا ہوں؟‘‘

اُنہوں نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔

یہ وہ وقت تھا جب لوگ جوق در جوق جہاد کشمیر میں شریک ہو نے کے لیے جارہے تھے ۔ردا کے ابو بھی اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے جہاد پر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ اُنہوں نے اپنا ایک خالی پلاٹ فروخت کر کے ساری رقم اپنی بیوی کے اکاؤنٹ میں جمع کرادی،جو ان کی غیر موجودگی میں گھر کے اخراجات کے لیے تھی اور جہاد میں شریک ہونے کے لیے کشمیر چلے گئے۔

……٭٭……

اُن کو گئے ہوئے بہت عرصہ ہو گیا تھا۔ ان کی غیر موجودگی میں ردا پیدا ہوئی، اب وہ اتنی بڑی ہو گئی کہ باپ کے بارے میں سوال کر نے لگی۔

رمضان شروع ہونے والے تھے کہ ایک دن اچانک ردا کے ابو کا خط آیا،جس میں لکھا تھا کہ میں بہت جلدآرہا ہوں۔ گھر میں خوشی کی لہردوڑ گئی۔ردا کی امی نے اسے سینے سے چمٹاکر پیار کیا اور کہا’’ ردا بیٹی، تم ایک دن اپنے ابو کے بارے میں پوچھ رہی تھیں نا، دیکھو اب وہ آرہے ہیں۔‘‘

’’ سچ امی ؟‘‘ ردا نے بے یقینی سے کہا۔

’’ ہاں بیٹی ،تمہارے ابو آرہے ہیں، ‘‘

’’ کب تک آجائیں گے امی ،کس تاریخ کو،کون سے روزے کو۔‘‘

ردا نے بڑے اشتیاق سے پوچھا ۔

’’ ، جلد آجائیں گے، شاید عید تک آجائیں ،‘‘

’’ عید پر‘‘ ردا خوشی سے اُچھلتی ہوئی دادی کی طرف بھاگی ۔’’ دادی، دادی، میرے ابو عید پر آئیں گے، میرے ابو عید پر آئیں گے،‘‘

اُس کے بعد دن ایک ایک کرکے گزرنے لگے ۔رمضان شروع ہو گئے۔ ردا چھوٹی تھی۔ روزے نہیں رکھتی تھی، البتہ سحری اور افطاری کرتی تھی۔ افطار کے وقت سب گھر والوں کے ساتھ اپنے ننھے ننھے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتی۔

جوں جوں عید قریب آرہی تھی ،ردا کی بے چینی ، بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ اس نے اپنے ابو کے بارے میں طرح طرح کے سوال کرکر کے اپنی امی کاناک میں دم کر دیا تھا ۔وہ گھما پھرا کر اپنی ہر بات ابو کے تذکرے پر ختم کرتی ۔اِدھر تو یہ بے چینیاں اور اشتیاق عروج پر تھااور ادھر، کشمیر میں حالات ایک دم تبدیل ہو گئے۔

اس کے ابو اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک کیمپ میں تھے،واپس وطن آنے کی تیاری کر رہے تھے، کہ ان کی مخبری ہو گئی ۔بھارتی فوج کے ایک دستے نے رات کی تاریکی میں مجاہدین کے خفیہ ٹھکانے پر شب خون مارا۔مجاہدین گہری نیند سو رہے تھے کہ بھارتی فوجیوں نے ہلا بول دیا۔ 

بم باری کی،کئی مجاہدین دوران نیند ہی شہید ہو گئے۔ ان میں ردا کے ابو بھی تھے۔کچھ مجاہدین اپنی جان بچانے میں کام یاب ہوگئے، کچھ گرفتار ہوگئے۔بچ جانے والوں میں ،ردا کے ابو کا دوست احمد بھی تھا، جسے انہوں نے دو تین دن پہلے کشمیر کے بازار سے ایک عید کارڈ خرید اپنی بیٹی رِدا کے لیےدیا تھا،اس وقت تک ان کی واپسی کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔

’’ اس کا کیا کروں ،؟‘‘ احمد نے پوچھا۔

’’ تم جا رہے ہو، یہ عید کارڈ میرے گھر پہنچا دینا ۔‘‘ انہوں نے کہا۔

’’ مگر میں تو سرگودھا جاؤں گا اور تمہارا گھر کراچی میں ہے۔‘‘

’’تو تم ایسا کرنا ،یہ عید کارڈ لیٹر بکس میں ڈال دینا، عید سے پہلے میری بیٹی تک پہنچ جائے گا ۔‘‘

احمدنے وہ کارڈ لے لیااور مظفر آباد جانے کی تیاری کرنے لگا۔ اتفاق سے دو دن بعد ہی ان کی گھر واپسی کا ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ کارڈ واپس کر دو،میں عید سے پہلے خود ہی پہنچ جاؤں گا، مگر قسمت میں اُن کا گھر جانا نہیں تھا۔اسی رات شہید ہوگئے۔ احمد وہاں سے فرار ہو کر مجاہدین کے دوسرے ٹھکانے پر پہنچا اور سب کو بتایا کہ ہمارے ساتھی شہید ہو گئے۔

یہ ایک اَلم ناک واقعہ تھا ۔سب سناٹے میں تھے ۔دو تین دن بعد ردا کے ابو کا دوست پاکستان روانہ ہوا۔اس کے والدین سرگودھا میں رہتے تھے ۔ایک دو دن بعد جب اس نے اپنا سامان کھولاتو،ردا کے ابو کا لکھا ہوا عید کارڈ اس کے سامان سے نکلا ۔کارڈ دیکھ کر اس کا دل دہل گیا۔ اس نے سوچا کہ کارڈ پوسٹ کردے ، مگر عید میں چار دن رہ گئے تھے اور اتنے کم وقت میں کارڈ،عید سے پہلے اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا تھا۔

اسے اندازہ تھاکہ عید پر، گھروں سے دور رہنے والوں کے چاہنے والے کس شدت کے ساتھ ان کے خط یا پیغام کا انتظار کرتے ہیں۔ اسے ویسے بھی کراچی میں ایک کام تھا۔وہ عید کارڈ لے کر کراچی کے لیے روانہ ہو گیا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ یہ عید کارڈ خود اپنے مجاہد دوست کے گھر پہنچائے گا۔ نہ معلوم انہیں اپنے پیارے کی شہادت کی اطلاع ملی ہے یا نہیں۔

کراچی بہت بڑا شہر ہے ۔پورے ملک سے محنت کش پیسہ کمانے کے لیے اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں جرائم پیشہ لوگوں کی بھی اکثریت ہوتی ہے ۔جن دنوں وہ کراچی پہنچا ،یہاں دہشت گردی عروج پر تھی۔ وہ ردا کا گھر ڈھونڈ رہا تھا کہ کسی کونے کھدرے سے چلائی جانے والی اندھی گولی کا شکار ہوگیا۔کشمیر میں دشمنوں کے خلاف جہاد میں حصہ لے کر غازی بن کے آنے والا،اپنے ہی ملک میں مارا گیا۔

ردا کے ابو کا دیا ہوا عید کارڈ اس کے ہاتھ میں تھا۔ پولیس کو ابتدائی تفتیش میں ہی معلوم ہو گیا کہ مرنے والا، کشمیر سے آیا تھا۔ انسپکٹر سکندر اس کیس کی تفتیش کر رہے تھے۔ انہوں نے کارڈ کھول کر پڑھا ،تو ان کی آنکوں میں آنسو آگئے۔ یہ کارڈ میدان جہاد سے کسی مجاہد نے اپنی بیٹی کے نا م بھیجا تھا ۔دوسرے دن عید تھی ۔رات بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ انسپکٹر نے سوچا کہ کل عید کی نماز پڑھ کرخود اس کارڈ کو پہنچاؤں گا۔

……٭٭……

ردابڑی شدت سے اپنے ابو کا انتظار کر رہی تھی، اس کی امی ایک طرف دل گرفتہ بیٹھی تھیں۔ وہ سمجھ گئی تھیں کہ ردا کے ابو اب شاید ہی واپس آئیں گے، کیوں کہ وہ ٹی وی پر مجاہدین کے کیمپ پر ہونے والے بھارتی فوج کے حملے کی خبردیکھ چکی تھیں۔ خبروں میں کئی مجاہدین کے نام بتائے گئے تھے۔ ان کے نام بھی جو شہید ہوگئے تھے ،اور ان کے نام بھی جو قیدی بنا لیے گئے تھے۔ اس خبر میں چند مجاہدین کے لا پتا ہونے کا بھی بتایا گیا تھا،جن کے بارے میں حتمی طور پر کسی کو کچھ نہیں معلوم تھا ۔ لا پتا مجاہدین میں ان کے شوہر کا نام بھی تھا۔وہ تو اندر ہی اندر ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں۔

انہوں نے ردا کو دادی جان کے ساتھ جائے نماز پر ابو کے آنے کی دعا مانگتے دیکھا تو ان کا دل کٹ کر رہ گیا۔ وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھ پھیلائے دعا مانگ رہی تھی۔ گھر کی فضا مکمل سوگوار تھی۔ دادا ،دادی ، امی سب پر قیامت گزر رہی تھی۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم تھا کہ ردا کے ابو شہید ہو گئے ہیں یا زندہ ہیں۔ یہ رات بھی کسی نہ کسی طرح گزر گئی ۔ردا اس رات روتے روتے سو گئی۔

عید کے دن ردا سے زیادہ اس کی دادی ،دادا اور امی غم گین تھیں .سب اپنے اپنے کمروں میں دل گرفتہ پڑے تھے۔ ردا نے تو عید کے کپڑے پہننے اور تیار ہونے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی،سب چونک گئے ۔ردا خوشی سے اچھل پڑی اور کہا ، ابو آگئے، مگر اس کی امی نے اسے کمرے میں ہی روکا،د دروازہ کھولا،تو ایک انسپکٹر اور ایک سپاہی تھا۔ انسپکٹر کے ہاتھ میں عید کارڈ تھا ،انہوں نے اسے لے کر پڑھا، واپس انہیں دے کر دھیمی آواز میں کچھ کہااور گھر میں بلا لیا۔

ردا اپنے دادا جان کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔ پولیس انسپکٹر کو دیکھ کر سب چونک گئے۔ انسپکٹر نے ردا کو دیکھتے ہی کہا۔

’’ اوہو، تو آپ ہیں ردا یہ لیجیے ،آپ کے ابو جان نے آپ کے لیے عید کارڈ بھیجا ہے، یہ اگرچہ دیر سے پہنچا ہے، مگر مجھے لگتا ہے کہ ٹھیک وقت پر پہنچ گیا۔‘‘

ردا نے جلدی سے عید کارڈ کھول کر دیکھا ۔دادا جان نے کارڈ پڑھ کر سنایا،لکھا تھا۔

’’میری پیاری بیٹی ردا، میں اس عید پر لازمی طور پہ گھر پہنچنے کی کوشش کروں گا ،اگر کسی وجہ سے نہ پہنچ سکا تو عید کے بعد گھر ضرور آجاؤں گا، اور پھر اپنی پیاری ردا کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا، ٹھیک ہے ،اب مسکراؤ، اور ہنستے ہنستے عید مناؤ۔

میری طرف سے سب کو بہت بہت عید مبارک ۔‘‘