• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افسانے ہوں یا ناول، فلمیں ہوں یا ڈرامے، ان کے ہر کردار اہمیت رکھتے ہیں۔ کچھ کردار عام زندگی میں ہوتے ہیں اور کچھ خوابوں کی دنیا میں، بسا اوقات فرضی کردار بھی اتنے مشہور ہو جاتے ہیں کہ اُن پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ 

اس ہفتے ہم ٹارزن سے حاتم طائی تک چند ایسے کرداروں سے آپ کا تعارف کرا رہے ہیں، جن سے آج کی نسل شاہد ہی واقف ہو، اُنہیں اس کا بھی علم نہیں ہوگا کہ یہ افسانوی کردار اور ان پر مبنی کہانیاں، ناول اتنے مشہور ہوئے کہ ان پر ڈرامے ہی نہیں ہالی وڈ سمیت دنیا بھر میں  فلمیں بھی بنائی گئیں، جو اپنے وقت میں تو مشہور ہوئیں لیکن آج بھی انہیں دیکھا جائے تو سارے کردار ریکارڈ توڑ شہرت حاصل کریں گے۔ 

دل چسپ بات یہ ہے کہ کردارتو مشہور ہوئے لیکن ان کے بیش تر تخلیق کاروں کو شاذو نادر ہی لوگ جانتے ہوں گے اور اگر جانتے بھی ہوں گے تو اُن کو وہ شہرت نہ ملی جو کرداروں کے حصّے میں آئی۔

مثلاً دنیا کے مشہور کرداروں میں  ٹارزن کا نام سر فہرست ہے لیکن اس کے خالق ایڈکرائس بروز ’’کو کون جانتا ہے۔ اسی طرح شرلاک ہومز کردار کے خالق سر آرتھر کانن ڈائل کو بھی شاذو نادر ہی کوئی جانتا ہوگا۔ ’’برام اسٹوکر‘‘ اپنی تحریر کردہ خوف ناک کہانیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ 

ڈریکولا ان کاشاہکار ناول ہے، جس پر لاتعداد فلمیں بنیں لیکن برام اسٹوکر کو اتنے لوگ نہیں جانتے جتنا ڈریکولا کے کردار سے واقف ہیں۔ اسی طرح الہ دین کا چراغ، سندباد جہازی اور حاتم طائی کے کرداروں کے تخلیق کاروں سے لوگ نابلد ہیں۔ اس ہفتے چند مغربی کرداروں کے بارے میں مختصرا ملاحظہ کریں۔

ٹارزن

دنیا کی مشہور کہانیوں کے کرداروں میں ٹٓارزن کا نام سرِ فہرست ہے جسے پہلی بار 1912 میں امریکی مصنف ایڈکررائس بورس نے ایک کہانی ’’بندروں کا ٹارزن‘‘ میں متعارف کرایا۔ اس کہانی کی اشاعت کے بعد ٹارزن فلموں، بچوں کی کہانیوں، ٹی وی اور ریڈیو پروگراموں، کھلونوں، کپڑوں، کھیلوں کے جوتوں تک میں نظر آیا۔ 1918ء سے 2014ء تک ٹارزن پر تقریباً 200فلمیں بنیں۔

ٹارزن کا اصل نام جان کلاسٹین ہے۔اس کی کہا نی کچھ یوں ہے کہ ،اس کے والدین افریقا کے ساحلوں کے قریب ایک بحری جہاز میں ہوتے ہیں۔ ایک دن جہاز میں لڑائی ہوتی ہے اور جہاز کا عملہ کپتان کے خلاف ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں جہاز ایک افریقی ساحل کے کنارے کھڑا کردیا جاتا ہے۔

جان کلاسٹین شیر خوار تھا کہ اس کے والدین مرجاتے ہیں۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تو مانجانی نسل کا ایک بندر اور اس کا خاندان بچے کا خیال رکھتا ہے۔ وہ بچے کا نام ٹارزن رکھتے ہیں، جس کا مطلب بندروں کی زبان میں سفید چمڑی ہے، جو بندر ٹارزن کو پالتے ہیں وہ ایک خیالی نسل کے بندر ہوتے ہیں۔

جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد ٹارزن جین نامی ایک امریکی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ کہانی میں کئی اُتار چڑھاؤ آتے ہیں بالآخر ٹارزن اپنی محبت پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے، یعنی ان کی شادی ہوجاتی ہے۔ ٹارزن کی شخصیت اپنی ایک خاص چیخ کی وجہ سے مشہور تھی، جو تمام وحشی جانوروں کو ڈرادیتی تھی۔ 

پھر یہ چیخ ٹارزن کا ٹریڈ مارک بن گئی۔ یہ چیخ پہلی بار ٹارزن کی اس فلم میں شامل کی گئی جس میں جونی ویزمل نے ٹارزن کا کردار ادا کیا تھا۔ جونی نے بارہ مختلف فلموں میں ٹارزن کا کردار ادا کیا۔

1912ء سے 1941ءتک ایڈکررائس بورس نے ٹارزن کی کہانیوں پر مبنی 20 سے زائد سلسلے لکھے۔ 18؍جون 1999ء کو والٹ ڈزنی نے ٹارزن پر ایک کارٹون فلم پیش کی، جس نے پوری دنیا میں 448 ملین ڈالر کا بزنس کیا۔ اس فلم کو بہترین گانے ’’تم میرے دل میں رہوگے‘‘۔ (You,Will be in my Heart) کو سن2000 میں آسکر ایوارڈ ملا، جب کہ اسی گانے کو اسی سال گولڈن گلوب ایوارڈ بھی ملا۔

شرلاک ہومز ،دنیا کے مشہور افسانوی کرداروں میں سے ایک ہے۔ اس کردار کے خالق، آرتھر کانن ڈائل کو برطانوی حکومت نے ’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ ان کے جاسوسی ناول اور کہانیاں پوری دنیا میں پڑھی جاتی ہیں۔ 

ڈائل کے ناولوں کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ اُس نے جب ایک ناول میں شرلاک ہومز کو ماردیا تو پورے یورپ میں کہرام مچ گیا ،بالآخر ناول نگار کو مجبوراً اسے دوبارہ زندہ کرنا پڑا۔

سپرمین

یہ ایک افسانوی ہیرو کا کردار ہے، جو امریکی کامکس میں پایا جاتا ہے۔ 1930ء میں جیری سیوگل اور جیوشسٹر نے  یہ کردار متعارف کروایا ، جو ایک سیارے سے زمین پر آیا۔ ایک شخص اسے اپنا بیٹا بناکر ایک گاؤں میں لے جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ، اس کہانی کو سترہ پبلشروں نے چھاپنے سے انکار کر دیا تھا لیکن جب یہ کردار مشہور ہوا تو ہر پبلشر جیری اور جیو شسٹر کی کہانیاں چھا پنے لگا۔

سپرمین کا کردار بچوں میں مقبول ہونے کی اہم وجہ یہ تھی کہ وہ مجرموں کو ڈراتا دھمکاتا تھا۔ اس کی خفیہ شناخت ’’کلارک جوزف کینٹ‘‘ ہے جو ایک رپورٹر ہے۔ اس کی ذمے داریوں میں سچ سامنے لانا اور مظلوم کے لئے لڑنا ہے۔ جیری اور جیوشسٹر نے ابتداء میں سپرمین نامی ایک غصیلا کردار متعارف کروایا جو مجرموں کو ڈراتا دھمکاتا تھا لیکن پھر اُسے ہیرو بنادیا گیا۔ 

کلارک سپرمین کاسٹوم اپنے عام کپڑوں کے نیچے پہنتا ہے، جس سے دونوں شخصیات یعنی کردار آسانی سے روپ دھار لیتے۔ اُس نے بنیادی طور پر ایک غیر فعال اور انتشار پسند شخصیت کو اپنایا، جس میں قدامت پسندانہ طرز عمل، اونچی، آواز اور ہلکا سا جھکاؤ ہوتا۔ اس کا اپنی قمیص کو چیرنے کا ڈرامائی اشارہ بڑوں سے زیادہ بچوں میں مقبول تھا۔ یعنی سپر مین کاسٹیوم۔

مکی ماؤس

نوجوان ہوں یا بچّے نانا نانی ہوں یا دادا دای، ہر ایک چلبلے کارٹون کریکٹر،’’مکی ماؤس‘‘ سے واقف ہوں گے۔ یہ کردار تخلیق کرنے وا لے ’’والٹ ڈزنی‘‘ ہیں ، جس نے مکی ماؤس‘‘ کو پہلی باراپنی شارٹ اینی میٹڈ فلم ’’اسٹیم بوٹ ویلی‘‘ میں پیش کیا، یہ فلم 18؍نومبر1928ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم سے قبل والٹ کے مالی حالات بہت خراب تھے وہ تقریباً تباہی کے دہانے پر تھا لیکن ان لمحات میں اس کے دماغ میں ایک خیال در آیا، جس سے اس کی زندگی بدل گئی۔ 

اس آئیڈیئے پر اُس نے اپنے آپ کو کام کرنے کے لئے تیار کیا، آییڈیا ایک ہم دردچوہا تھاجسے ایک غلط مہم جوئی کے ایک سلسلے میں مزاحیہ انداز میں اپنا راستہ تلاش کرنا ہے۔ 

ابتداء میں اس ماؤس کا نام ’’ مورٹیمر‘‘ رکھا، لیکن والٹ ڈزنی کی بیوی نے شوہر سے کہا اس نام میں خو د نمائی اور تکبر کا عنصر نمایاںہے۔اُ س نے نسبتاً دھیما اور نرم مزاج نام رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے ’’مکی ماؤس‘‘ رکھنے کا کہا اور پھر یہی نام رکھا گیا۔

ڈزنی کو جانوروں پر مبنی فلمیں بنانے کا شوق تھا۔ اس حوالے سے اس نے 1942ء میں ایک خصوصی کورس شروع کیا،جس میں اسٹوڈیو میں ہونے والی آرٹ کلاسوں میں جانوروں کو ٹریننگ دی جاتی۔ بعد ازاں ایک ڈسٹری بیوٹر کو دو مکی ماؤس کاٹون ریلیز کرنے کو دیئے جو بغیر آواز کے تھے لیکن ڈسٹری بیوٹر اُسے ریلیز کرنے پر آمادہ نہ ہواتو جانوروں کے آوازیں ریکارڈ کر کے اُن کو کرداروں میں سمویا۔ اور ایک کارٹون بنانے کا فیصلہ کیا جسے اسکرین پر دکھائے جانے والے ایکشن، موسیقی اور صوتی اثرات کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ اس کا نام ’’اسٹیم بوٹ ویلی‘‘ رکھا، جس کا پریمیئر ہوا۔ 

آوازوں کے ساتھ اس ایکشن کارٹون نے دھوم مچادی۔ کردار کی تیزی سے مقبولیت دیکھتے ہوئے ڈزنی نے مزید تجربات کئے اینیمیٹڈ شارٹ فلم نے نہ صرف عالمی سطح پر ایک نیا رجحان متعارف کروایا بلکہ اُس نے نئی راہوں کا تعین کیا۔ 

ڈزنی کا یہ اقدام سینما کی ترقی کا وہ اہم لمحہ تھا جس نے متحرک کارٹونوں کے ساتھ ان کی پہچان بن جانے والی آوازوں کو دنیا کے سامنے پیش کیا، گرچہ مکی ماؤس کی ریلیز کے وقت ڈزنی کو مالی پریشانیوں کا سامنا تھا۔ 

کمپنی کا زیادہ تر عملہ کارپوریٹ تنازعے کا شکار تھا۔ اس وقت ڈزنی نے اپنے آئیڈیا پر کام کرنے کے لئے خود کو تیار کیا، آج پوری دنیا میں ’’والٹ ڈزنی‘‘ مکی ماؤس سے مشہور ہے۔

سینڈریلا

1950ء میں ڈزنی ورلڈ کی جانب سے سنیڈریلا پر پہلی اینیمیٹڈ فلم بنائی گئی، جب کہ ڈزنی کی بارہویں متحرک فیچر فلم تھی۔ اس کے بعد مختلف کارٹون، فلموں اور کامکس میں سینڈریلا کو مرکزی کردار بناکر کہانیاں لکھی گئیں،جو لڑکیوں میں بہت مقبول ہوا۔

خوبصورت اور نرم دل مزاج سینڈریلا چھوٹی تھی تو اس کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ باپ نے ایک شادی شدہ عورت سے دوسری شادی کرلی، جس کی دو بیٹیاں تھیں۔ وہ سینڈریلا سے نفرت کرتی تھیں، کچھ عرصے بعدسینڈریلا کے والد کا بھی انتقال ہوگیا تو سوتیلی بہنوں اور اُن کی ماں نے سینڈریلا پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔ وہ بہت حسین و جمیل تھی۔ 

اس کا تعلّق ایک یونانی خاندان سے تھا۔ وہ لونڈی بن کر مصر گئی تو وہاں کا بادشاہ اُسے دیکھتے ہی دنگ رہ گیا۔ اُس نے سینڈریلا سے شادی کرلی، یوں اُس کی زندگی راتوں رات بدل گئی۔ مختلف ممالک نے اس کہانی کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا۔ لیکن ڈزنی ورلڈ نے سینڈریلا پر فلم بنائی، اُسے مرکزی کردار دیا گیا اور اُس کے حوالے سے کہانیاں بھی لکھی گئیں۔

رابن ہڈ

انگریزی لوک کہانیوں میںرابن جنگل کا ایک بہادر ڈاکو، ماہر تیر انداز اور تلوار باز تھا۔ وہ اور اس کے ساتھی امیروں کو لوٹنے اور غریبوں کی مدد کے لئے مشہور تھے۔ اسی لیے وہ امیروں کے لئے لٹیرا غریبوں کے لئے مسیحا مشہور تھا۔ رابن ہڈ اور اس کے ساتھی سبز کپڑوں میں ملبوس ہوتے تھے۔

رابن ہڈ کے ڈاکو بننے کا قصّہ کچھ یوں ہے کہ ،گرچہ وہ ایک عام شہری تھا لیکن جب نوٹنگھم کے ایک بدمعاش شیرف نے اس کی زمین زبردستی ہتھیالی تو اس سے بدلہ لینے کے لئے وہ ڈاکو بن گیا۔ رابن اور اُس کے ساتھی شیرووڈ جنگل میں کاروائیاں کرنے لگے، خوب شہرت سمیٹی بالکل اس کے مصداق کہ بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ 

رابن ہڈ اتنا مشہو ہوا کہ عام زندگی میں کئی لوگوں نے اُس کے طرز زندگی کو اپنایا۔ وہ قرون وسطی کی مشہور سشخصیت بن گیا۔ کہا جا تا ہے کہ، اس نام کا کوئی شخص نہیں ہے یہ صرف ایک افسانوی کردار ہے، جو فلموں اور ٹیلی ویژن سے مشہور ہوا۔

باربی ڈول

یہ گڑیا 1959 کو نیو یارک میں ایک میلے میں پیش کی گئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے میلے میں ہی مقبول ہوگئی۔ بابی ڈول نے دنیا بھر میں گڑیوں کا تاثر بدل دیا۔ اس گڑیا کا کردار یہ ہے کہ کم عمر لڑکیوں کو ایک ماں کی طرح عورت کے کردار کے بارے میں سمجھاتی، اُنہیں ہر اچھی بری بات کے بارے میں بتاتی بچیاں کچھ غلط کرتیں تو مائیں باربی ڈول کی مثال دیتیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ باربی ڈول دنیا بھر میں لڑکیوں کی ترجمان بن گئی۔