مغلوں نے دو سو برس تک بڑے طم طراق سے ہندوستان پر حکومت کی۔ چھٹے بادشاہ اورنگ زیب کے مرنے کے بعد مغلوں کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو گیا۔ اُمور ِمملکت چلانے کے لیے جس عزم، حوصلے اور تدبّر کی ضرورت ہوتی ہے ،وہ ختم ہوتا گیا۔ حکومت تاش کے پتّوں سے بنائے ہوئے گھروندےکی طرح بکھرنا شروع ہو گئی۔
1739 میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کر دیا، مغل فوج اس کا مقابلہ نہ کر سکی۔ نادر شاہ نے دِلّی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مغلوں کا خزانہ لوٹااور واپس ایران چلا گیا۔ مغلوں کا وقار خاک میں مل گیا۔ سیاسی ابتری سماجی ابتری میں، سماجی ابتری اخلاقی ابتری میں تبدیل ہو گئی۔
اسی زمانے میں یورپ میں علوم و فنون کا احیا ہو رہا تھا۔ بڑے بڑے فلسفی، سائنس داں اور سیاست داں اپنے افکار کی دولت لٹا رہے تھے۔ سمندروں کو کھنگالنا اہم ترین شوق بن گیا تھا۔ اسی شوق نے یورپی اقوام کو ہندوستان کے ساحلوں تک پہنچا دیا۔ ان اقوام میں انگریز سب سے زیادہ شاطر اور ہوش مند ثابت ہوئے۔ انہوں نے کلکتہ میں بہت مضبوطی سے قدم جمالیے۔ یورپی اقوام سمندروں میں نئی نئی دنیائیں کھوج رہی تھیں اور خدا ڈھونڈنے والوں کو نئی دنیائیں عطابھی کر رہا تھا۔
اٹھارہویں اور انیسوس صدی میں ابتری اپنی انتہا کو پہنچ گئی، سیکڑوں راجے، مہاراجے ،نواب اور رؤسا اپنی اپنی جگہ خود مختار ہو گئے۔ امن و امان کا نام و نشان مٹ گیا۔ امرا ٔانتہائی عیش و عشرت سے زندگی گزارتے اور غرباکیڑوں مکوڑوں کی طرح رہتے۔ شاہ راہوں پر ڈاکوؤں کا راج ہو گیا، شہروں میں بدمعاشوں کی بن آئی، کوئی مرکزی حکومت نہ رہی۔ ملک انارکی یا نراج کی دل دل بن گیا۔
کم سِن بچوں کو اغواکر کے فروخت کرنا، بدمعاشوں کا ذریعہ روزگار ٹھہرا۔1840کے لگ بھگ ایک بدمعاش نے نواحِ لکھنؤ سے ایک دس ،بارہ برس کی بچی اٹھائی اور اسے ایک ڈیرے دار طوالف کے ہاتھوں بیچ دیا۔ ڈیرے دارنی نے بچی کا نام امیرن سے بدل کر امراؤ جان رکھ دیا اور اس کی ناچ گانے کی تربیت شروع کر دی۔ لڑکی بڑی باصلاحیت ثابت ہوئی اور جلد اس فن میں طاق ہوگئی۔ شاعری بھی شروع کر دی اور ادا تخلص کیا۔
لکھنؤ میں اس زمانے میں ایک صاحب، مرزا محمد ہادی رُسوا رہتے تھے۔ وہ اُمرا وٗجان کے پاس آنے جانے لگے۔ دونوں ہی بہت بڑے فن کار تھے۔ مرزا ہادی کو شاعری، موسیقی، رقص، طبابت اور کئی علوم میں بڑی دسترس تھی۔ انہوں نے امراؤ جان کے حالاتِ زندگی میں گہری دل چسپی لی اور انہیں لکھ کر ایک کتابی شکل دے دی۔ 1898میں انہوں نےاس داستان کو امراؤ جان اداکے نام سے شائع کرا دیا۔ اس ناول میں اس زمانے کے معاشرے کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے۔ اردو زبان کے ماہرین نے کتاب کو اردو کا پہلا ناول قرار دیا…
ناول کی اشاعت کے پچاس ساٹھ برس بعد جب فلموں کا دور آیا تو اس ناول کو کئی بار اسی نام سے فلمایا گیا یعنی امراؤ جان ادا۔یہ فلمیں باکس آفس پر بہت کام یاب ثابت ہوئیں۔
دنیاکے سیاسی حالات میں بھی بہت بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ انگریز ہندوستان چھوڑ کرچلےگئے۔ ملک کا بٹوارہ ہو گیا۔ دو نئے ملک بھارت اور پاکستان کے نام سے بن گئے۔ بٹوارے کے بعد لکھنؤ کی تہذیب کو زوال آگیا۔ امراءنے اپنے رہنے کے لیے جو محلّات اور شان دار مکانات بنوائے تھے، ان میں ان کے پوتے، پڑ پوتے رہتے تھے۔
وہ مکانات کھنڈر ہو گئے تھے۔ ان کی چھتوں اور دروازوں پر جھاڑجھنکار اُگ آئے تھے، مکینوں کے پاس مرمت کروانے تک کے پیسے نہ تھے ۔ وہ زبان،وہ آداب، وہ معاشرت، طور طریقے، سب بدل گئے۔ معاشرہ زیر و زبر ہو گیا۔ پرانی تہذیب مٹ گئی۔
لکھنؤ کا ایک نوجوان ،بڑے بوڑھوں سے پرانے زمانے کی باتیں بڑے شوق سے سنا کرتا تھا۔ اس طرح اسے یہ معلوم ہو گیا کہ مرزا ہادی رسوأ نے امراؤ جان ادا کو دوبارہ لکھا تھا۔ پہلی بار جو قصہ لکھا تھا اسے شائع کرا دیا تھا، لیکن دوسری بار جو قصہ لکھا اسے شائع نہیں کروایا، کیوں کہ اس میں کچھ راز کی باتیں بھی تھیں۔
نوجوان علی حیدر کے دل میں اشتیاق پیدا ہوا کہ وہ اس غیر مطبوعہ مخطوطے کو تلاش کرے، تاکہ وہ راز جان سکے۔ اس تلاش میں وہ لکھنؤ کے پرانے خاندانوں کے پاس گیا۔ ان کے کتابوں کے ذخیروں کو کھنگالنا شروع کر دیا۔ اس تلاش میں اس پر ایک پوشیدہ دنیا منکشف ہوتی گئی۔ ہر بوڑھا یا بوڑھی اپنے سینے میں سیکڑوں راز دبائے بیٹھی تھی، یوں اُسے وہ راز معلوم ہوتے گئے۔
جن اُمراءاور نوابوں کا اس نے نام سنا تھا وہ اپنے زمانے میں نواب صاحب، میر صاحب، خاں صاحب اور رفعت پناہ کہلاتے تھے۔ اب ان کی تیسری اور چوتھی پیڑھیاں ان کھنڈارات میں سرچھپائے پڑی تھیں۔ پہلے زیورات بکے، پھر ظروف، فرنیچر، قیمتی لباس، غرض، سب چیزیں بک گئیں۔
ذریعہ آمدن کچھ نہ رہا…افلاس، غربت، بیماری، بے روزگاری، نا اُمیدی ، دیواروں پر بال بکھرائے سویا کرتیں ۔ ان کھنڈرات کے تہہ خانوں میں اب بھی ملفوظات، نوادرات، اور شجروں کے انبار لگے ہوئے تھے، جن کا خریدار اب کوئی نہ تھا۔ تسلی دینےکو ایک خام خیال باقی تھا کہ پدرم سلطان بود۔ مسجدیں بھی ویران ہو گئی تھیں۔ ان میں اب چراغ نہیں جلتے تھے۔
نوجوان علی حیدر کو بہت سے ایسے خاندانوں میں جانے اور ان کے حالات سن کر آنسو بہانے کا اتفاق ہوا۔ جن حویلیوں میں ہر رات چراغاں رہتا تھا، وہ اب اندھیرے میں ڈوبی پڑی تھیں۔ ہرخاندان کے حالات دوسرے خاندان سے زیادہ الم ناک تھے۔ان مایوس کن حالت میں نوجوان، اصل مسودے کو کھوجتا رہا ۔ تلاش بسیار کے بعد ایک روز گوہرِ مقصود اس کے ہاتھ لگ گیا ۔اس نے بڑے اشتیاق کے ساتھ اصل مسوّدے کو پڑھا۔
تلاش کے دوران اُسے لکھنؤ کی بہت سی نایاب چیزیں دیکھنے اور ماہرین فن سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ بڑے بڑے حاذق حکیم، موسیقی کے ماہرین، شاعر ، رقاص، طباخ، پرانی حویلیاں، امام باڑے، گلی کوچے، قبرستان، مجلسی آداب، سلام کرنےکے انداز، پکوان، غرض کہ حیرت کا ایک جہاں اس کی آنکھوں پروا ہوگیا۔
اس حیرت آباد کو زندہ کرنے کا کام کیاہے انیس اشفاق نے اپنی کتاب’’ خواب سراب‘‘ میں۔ ایک کتاب انیس اشفاق نے’’دکھیارے‘‘ کے نام سے بھی لکھی ہے۔ان دونوں کتب کو ادبی حلقوں میں بہت سراہا گیاہے۔
اس ناول کے نسوانی کردار ،صہبا، شہبا وغیرہ ہیں۔ یہ ان امیروں کی تیسری یا چوتھی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ ڈھنڈار حویلیوں میں پڑی ہوئی مفلسی اور بے بسی کی زندہ تصویریں۔ ان کی اس الم ناک زندگی کے ذمّے دار ان کے دادا پر دادا ہیں، جو انتہائی عیش و عشرت کی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔
ان کی زندگی کے مقاصد ہی یہ تھے، عمدہ پوشاک، لذیذ کھانے، تصنّع، بناوٹ، دکھلاوا، خواہشات نفسانی کا غلبہ، چالاکی، خود غرضی وغیرہ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ انہوں نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی تھی کہ زمین گول ہے یا چوکور۔ درخت سے پھل ٹوٹ کر زمین پر کیوں گرتا ہے…؟
اسی زمانے میں یورپ کا عظیم مفکر نیوٹن حرکت کے قوانین بنا چکا تھا۔ ایک استاد نے بتا دیا تھا کہ مادے کے چھوٹے سے چھوٹے زرّےکو ایٹم کہتے ہیں۔ نوّے سال کے بعد دوسرے استاد نے بتایاکہ ایٹم کے اندر بھی باریک ذرّات ہوتے ہیں، جن میں بجلی بھری ہوتی ہے۔ امراؤ جان ادا کے زمانے میں روشنی کی رفتار ناپ لی گئی تھی۔ ناول کی اشاعت کے چند برس بعد، آئن اسٹائن نامی نوجوان کے خیالات نے علمی دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا، مگر عیش و عشرت کے دل دادہ ان باتوں سے بے خبر تھے۔
ان سب باتوں کے باوجود اس زمانے کے مسلمان آمدِ صرصر سےبے نیاز ریت میں گردن دبائے آرام فرمارہے تھے۔ مسلمان معاشرے خود کشی کے راستے پر گام زن تھے، جب کہ ہوش مند اور خبردار کرنے والے لوگ موجود تھے اور اپنا کام کر رہے تھے۔مگر ان کی باتوں پر کان دھرنے والے نہ تھے۔
خدا آج بھی اتنا ہی رحمان اور رحیم ہے۔ مسلمانوں کی سرکشی کے باوجود اس نےانہیں ایک آزاد وطن دیا، اس میں پانی کے دریابہا دیے۔ سونےکےپہاڑ(سیندک) کھڑے کر دیے۔ہر نعمت اس وطن کو بخش دی۔ لیکن ان نعمتوں پربے رحم اور ناانصافی کرنے والے افراد نے قبضہ کر رکھا ہے۔ جدید دور کی ریاستیں آئین پر عمل کرنے اور منصفانہ الیکشن کرانے سے چلتی ہیں۔
پاکستان میں آج بھی امراء محلّات میں رہتے ہیں اور غربا جھونپڑیوں میں اور غرباکو چراغ جلانےکے لیے مٹی کا دیا بھی میسر نہیں۔ اگر حالات نہ بدلے تو ہماری اگلی اُداس نسلیں آگ کے دریا میں غوطے کھاتی رہیں گی۔جن اصحاب کو لکھنؤ کے کلچر سے کچھ دل چسپی ہے، وہ رسوا کا ناول امراوجان ادا یا انیس اشفاق کا ناول خواب سراب پڑھ سکتے ہیں یا فلم امراوجان ادااور شطرنج کے کھلاڑی دیکھ سکتے ہیں۔
آج بھی پاکستان کے اندر اور باہر ہزاروں اہل علم اوراہلِ دانش موجود ہیں، جو قوموں کی بربادی کے اسباب سمجھتے ہیں اور قوم کو تباہی سے بچا سکتے ہیں، مگر غاصب طبقات ان کی باتیں ماننے کو تیار نہیں۔ خدا نے اپنی رحمت سے پاکستان بنا دیا، اب یہ ہمارا فرض ہے کہ محنت اور دیانت سے اسے ایک باوقار ملک بنائیں یا آنے والی نسلوں کو ذلت و رسوائی، مجبوری و بیچارگی کی دل دل میں دھکیل کر اس جہاں سے رخصت ہو جائیں۔