• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی میں پڑھے جانے والے اذکار و تلاوت کا ذخیرہ ٔ آخرت بننا

تفہیم المسائل

سوال: اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے لیے سوا لاکھ کلمہ ٔطیبہ، قرآن کریم پڑھ کر جمع کرے، تو کیا اُس کا ثواب اُسے مرنے کے بعد حاصل ہوگا ؟(وقار الحسن ، حیدرآباد )

جواب:جی ہاں! جو نیک عمل بندہ خالصاً لوجہ اللہ کرتا ہے، اس کا اجر از خود اُس بندے کے ذخیرۂ آخرت میں جمع ہوجاتا ہے اور یہ اُس کے مرنے کے بعدبھی اُسے فائدہ پہنچاتا ہے ، صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ دوسروں کو ایصال کیاجانے والا نیک عمل خود اس ایصال کرنے والے اور جسے ایصال کیا گیا ،سب کے لیے فائدہ مند ہے ۔ 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ ہرشخص اپنے عمل کے بدلے میں گروی ہے ،(سورۂ مدثر:38)اس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ ہرنفس نے اپنے آپ کو اللہ کے پاس اپنے عمل کے بدلے رہن اور گروی رکھاہوا ہے ،اس کے عمل کے مطابق اس سے معاملہ کیاجائے گا ،اگر اس کے اعمال نیک ہیں تو اس کے نیک وبد اعمال پر اُخروی جزا وسزا کا مدار ہوگا ، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے معاف فرمادے یا اسے شفاعت ِسیدالمرسلین ﷺ نصیب ہوجائے۔ 

ترجمہ:’’اللہ کسی شخص کواس کی طاقت سے زیادہ کا مُکلف نہیں کرتا ، جو اس (شخص )نے نیک کام کیے ہیں ،ان کا نفع (بھی) اس کے لیے ہے اور جو اس نے برے کام کیے ہیں، ان کا نقصان (بھی) اس کے لیے ہے، (سورۂ البقرہ:286) بندہ اپنی زندگی میں جو نیک عمل عبادات، اذکار و تسبیحات ودرود اور صدقات کی صورت میں کرتاہے ،وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے نظام جزا وسزا کے مطابق ذخیرہ ہوتے ہیں ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :’’ (قیامت کے دن) ہر شخص جان لے گا کہ اس نے (اپنی عاقبت کے لیے) کیا آگے بھیجا اور (صدقاتِ جاریہ کی صورت میں) کیا پیچھے چھوڑا ،(سورۃ الانفطار:5)‘‘۔نیز فرمایا:’’ اورہر شخص غور کرتا رہے کہ اس نے کل (قیامت کے لیے) کیا آگے بھیجا ہے، (سورۃ الحشر:18)‘‘۔

علامہ علاء الدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ حدیث پاک ہے : ’’کوئی کسی (دوسرے) کی طرف سے روزہ نہیں رکھ سکتا اورکوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا‘‘، (اگرکوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے روزہ رکھے یا نماز پڑھے تو جس کی طرف سے پڑھی گئی وہ اپنے اوپر عائد) فرض سے سبکدوش نہیں ہوسکتا ،(اس حدیث میں دوسرے کو) ایصالِ ثواب کی ممانعت نہیں ہے، پس اگرآدمی اپنے نفلی روزے یا نماز یا صدقے کا ثواب دوسرے زندہ یا مردہ لوگوں کو بخش دے ،تویہ جائز ہے اور اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک اُس کا ثواب اُنھیں ملے گا ،(بدائع الصنائع ، جلد2) لہٰذا اگر کوئی شخص اپنی نفل نمازیں، روزے، حج وعمرہ یا قرآنِ پاک کی تلاوت واذکار وتسبیحات ودرود اور صدقات وغیرہ کا ثواب اپنے مرحوم یا زندہ متعلقین کو پہنچانا چاہے تو یہ جائز ہے۔ 

بس شرط یہ ہے کہ یہ اعمال نفلی ہوں،خالص تقرُّبِ الٰہی کے لیے کیے گئے ہوں اور ان پر دنیا میں کوئی اجرت نہ لی گئی ہواور دوسرے کو ایصالِ ثواب کی صورت میں بھی وہ شخص خود بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے اعمال کا اجر پائے گا ،اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں آئے گی اوران عبادات کے اجر سے محروم نہیں رہے گا ۔جن اَذکار اور دعاؤں کے بارے میں اَحادیثِ مبارکہ میں صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ،اُن کے بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ،البتہ بزرگانِ دین کے معمولات اور وظائف کی اسناد مسلسل اور متواتر نہیں ملتیں ،اُن کے بارے میں صرف اباحت کافی ہے ،کلمۂ طیبہ کا ورد کرتے رہنا مستحسن عمل ہے اور علامہ علی القاری ؒ لکھتے ہیں :’’ شیخ محی الدین ابن عربی ؒ فرماتے ہیں :’’ یہ حدیث ہم تک پہنچی ہے کہ جو ستر ہزار مرتبہ’’ لَآ اِلٰہ اِلَّا اللہ‘‘ پڑھے یا پڑھ کر کسی کو بخش بھی دے، تو جس کو ثواب بخشا جائے گا، اس کی مغفرت ہوجائے گی اور پڑھنے والے کو بھی بخش دیا جائے گا۔ تو میں نے اس کے بہت سے مجموعہ اپنے پاس پڑھ کر رکھ لیے، ایک مرتبہ ایک دعوت میں بعض ساتھیوں کے ساتھ جمع ہوا تو وہاں دسترخوان پر ایک نوجوان آیا جس کا کشف مشہور تھا، کھانا کھاتے ہوئے وہ رونے لگا، تو میں نے اس سے رونے کا سبب پوچھا،اس نے کہا:میں اپنی ماں کو عذاب میں دیکھ رہاہوں، میں نے اس کی ماں کو ستر ہزارلااِلٰہ اِلَّا اللہ کا ثواب بخش دیا،تو وہ نوجوان زور سے ہنسا اور اس نے کہا:میں اب اپنی ماں کو جنت میں دیکھ رہا ہوں۔ شیخ فرماتے ہیں: اس کے کشف سے میرا اس حدیث کی صحت پر یقین اور بڑھ گیا اور حدیث کی صحت سے اس کے کشف پر یقین اور بڑھ گیا( کہ یہ واقعی صاحبِ کشف ہے)،(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح)

تاہم احادیثِ مبارکہ کے صحیح یا ضعیف ہونے کا مدار کسی کے کشف والہام پر نہیں ہوتا ، اس کے لیے علم جرح وتعدیل میں معیارات مُتعین ہیں، اسی طرح کسی کا الہام دوسروں پر حجّت نہیں ہوتا، البتہ وہ اسے حسنِ ظن پر اورنیک فال کے طورپر لے سکتا ہے،لیکن غیر ثابت شدہ روایات کورسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ کلمۂ طیبہ کے دیگر بہت سے فضائل احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہیں، اور احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ کلمہ ایک مرتبہ بھی اِخلاص کے ساتھ کہہ دیا جائے تو انسان کی اَبدی کامیابی اور کامل مغفرت کا ذریعہ بن جاتاہے۔