گذشتہ چند سالوں سے پاکستانی سلیکٹرز نے سلیکشن کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا ہوا ہے اس سے ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ کراچی کے کچھ کرکٹرز بدقسمت ہیں اور ان سے ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔ فواد عالم شاید سب سے بدقسمت ثابت ہوئے ہیں جنہیں ٹیسٹ ٹیم میں واپسی کے لئے گیارہ سال انتظار کرنا پڑا۔ پھر جب وہ پاکستان ٹیم میں واپس آئے تو چار سنچریوں کی مدد سے رنز پر رنز بناتے رہے لیکن پھر اچانک انہیں انگلینڈ کے خلاف تین ٹیسٹ کی سیریز سے ڈراپ کردیا گیا۔
سرفراز احمد جب کپتان تھے اس وقت بھی فواد عالم کو ٹیم میں جگہ نہ مل سکی پھر سرفراز احمد خود نا انصافی کا شکارہوگئے۔ فواد عالم اور سرفراز احمد کی طرح حالیہ سالوں میں ملک کے سب سے بڑے شہر کے کئی کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا گیا۔ میر حمزہ ،اسد شفیق ان جیسے کئی کھلاڑی انصاف کے حصول کے لئے سلیکٹرز کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ تابش خان فرسٹ کلاس میں کئی سالوں سے کارکردگی دکھانے کے بعد میڈیا کے دبائو پر ایک ٹیسٹ کھیلنے میں کامیاب ہوئے لیکن اس کے بعدوہ فرسٹ کلاس ٹیم کے قابل بھی نہیں رہے۔کراچی جسے کراچی کرکٹ کی نرسری کہا جاتا تھا اس کے کھلاڑی آج انصاف کے حصول کے لئے سرگرداں ہیں۔
سعود شکیل بھی ان آوٹ ہوتے رہے اب انہیں ٹیم میں لاکر فواد عالم کو قربان کردیا گیا۔ فواد عالم نے آخری مرتبہ 2015 میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی جب انہیں بنگلہ دیش کے خلاف ایک روزہ ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ ماضی میں ٹی 20 کی ٹیم میں کھیلنے والے فواد نے 2010 میں آخری مرتبہ اس فارمیٹ میں پاکستان کے لیے کھیلا تھا ، ایک برس قبل نیوزی لینڈ کے خلاف انہوں نے اپنا تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ کھیلا تھا۔ کسی بھی کرکٹر کی سلیکشن کے لیے سلیکٹرز کے پاس ٹھوس دلیل اور جواز موجود ہوتا ہے اور جب کسی کرکٹر کو منتخب نہ کیا جائے تو اس کا بھی سلیکٹرز کے پاس معقول جواز ہونا چا ہئے۔ لیکن فواد عالم کے معاملے میں ہمیں آج تک ایسی کوئی ٹھوس وجہ نظر نہیں آئی۔
چند سال قبل ایک چیف سلیکٹر سے جب فواد عالم کو ٹیم میں شامل نہ کیے جانے کا سوال کیا گیا تو ان کا جواب کچھ یوں تھا ’آپ مجھ سے ہی کیوں پوچھتے ہیں؟ مجھ سے پہلے جن چیف سلیکٹرز نے سلیکٹ نہیں کیا ان سے بھی پوچھ لیتے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ فواد عالم کو قومی کیمپ میں بلایا گیا اور وہ دوسرے کھلاڑیوں سے زیادہ فِٹ قرار پائے لیکن ان کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پھر بھی ایک خواب ہی رہی۔فواد عالم کے والد طارق عالم کا شمار کراچی کے اچھے فرسٹ کلاس کرکٹرز میں ہوتا ہے۔ٹیسٹ کرکٹر منصور اختر ان کے سسر ہیں۔ ایک کرکٹ خاندان سے تعلق رکھنے والا بیٹر مسلسل نا انصافیوں کا شکا ہے۔
فواد عالم کے بین الاقوامی کریئر کا آغاز 2007 میں سری لنکا کے خلاف شروع ہوا تھا، لیکن وہ ون ڈے میں پہلی ہی گیند پر صفر پر آؤٹ ہوگئے تھے۔ انھوں نے اسی سال جنوبی افریقہ میں ہونے والے پہلے ورلڈ ٹی20 میں پاکستان کی نمائندگی کی، لیکن وہ صحیح معنوں میں اس وقت شہ سرخیوں میں آئے جب انہوں نے 2009 میں سری لنکا کے خلاف کولمبو میں اپنے پہلے ٹیسٹ میں 168 رنز کی شاندار اننگز کھیل ڈالی۔
یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پاکستانی بیٹسمین نے ملک سے باہر اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری بنائی ہو۔کپتان یونس خان نے گال ٹیسٹ میں غیر ذمہ دارانہ شاٹ کھیل کر اپنی وکٹ گنوانے والے سلمان بٹ کو ڈراپ کر کے فواد عالم کو کولمبو ٹیسٹ کھلانے کا فیصلہ کیا۔
کپتان نے ان سے کہا کہ تم نے اوپنر کی حیثیت سے کھیلنا ہے، جس پر فواد عالم پریشان ہوگئے۔ لیکن یونس خان نے انھیں اپنی مثال دیتے ہوئے حوصلہ دیا اور بتایا کہ وہ ساتویں، آٹھویں نمبر سے ہوتے ہوئے کس طرح ون ڈاؤن بیٹسمین کے طور پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔فواد عالم کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ کولمبو ٹیسٹ کے بعد صرف دو ٹیسٹ میچز ہی کھیل پائے، اس کے بعد انھیں کسی ٹیسٹ میں موقع نہیں دیا گیا حالانکہ تین ٹیسٹ میچوں میں ان کی بیٹنگ اوسط 66.41 تھی۔
ان کا 2015 میں انگلینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز کے لیے پاکستان ٹیم میں انتخاب ہوا لیکن تین میں سے ایک بھی ٹیسٹ نہ کھیل پائے۔ فواد عالم کا ون ڈے کریئر بھی 40.25 کی اوسط پر آکر رکا گیا۔ ون ڈے میچوں میں ان کی ایک سنچری اور چھ نصف سنچریوں کی مدد سے بنائے گئے رنز کی تعداد 966 ہے۔ فواد عالم کی ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2014 سے 2015 کے ڈومیسٹک سیزن میں انہوں نے 719 رن بنائے۔
سیزن 2015-2016 میں ان کے رنز کی تعداد 672 تھی۔ اس سے اگلے سال 499 رنز بنائے، جبکہ 2017-2018 میں 570 رنز بنا پائے۔ فواد عالم 200 فرسٹ کلاس میچوں کا تجربہ رکھتے ہیں جس میں 42 سنچریوں اور 69 نصف سنچریوں کی مدد سے 14352رنز بنائے جبکہ وہ 19ٹیسٹ میں پانچ سنچریوں کی مدد سے1011رنز بناچکے ہیں۔
بدقسمتی سے آسٹریلیا کے خلاف تین ٹیسٹ اور سری لنکا کے ایک ٹیسٹ کی کارکردگی پر فواد عالم کو پھر ڈراپ کردیا گیا۔ شاید خراب کارکردگی کا یہ فارمولا دوسرے کھلاڑیوں کے لئے نہیں اپنایا گیا ہے۔ ایسے اعداد و شمار کی روشنی میں کوئی بھی بیٹسمین کیسے زیادہ عرصے ٹیم سے باہر رہ سکتا ہے؟ یہ ابھی تک ایک معمہ ہے۔ لیکن میرٹ کے قتل عام اور نا انصافیوں کی ان کہانیوں میں فواد عالم کو ایک اور موقع مل جائے لیکن اس کا امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں؟