• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا، عیسائیوں کی تعداد کم ہوگئی

لندن /گلاسگو (طاہر انعام شیخ/پی اے) مردم شماری کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ برطانیہ کے علاقوں انگلینڈ اور ویلز میں عیسائی اب اکثریت میں نہیں رہے۔ 2021کی مردم شماری کے مطابق انگلینڈ اور ویلز کی نصف سے بھی کم آبادی عیسائی ہے،مردم شماری کے مطابق خود کو لامذہب کہنے والوں کی شرح میں 12فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ خود کو مسلمان کہنے والوں کی تعداد 1.2ملین کا اضافہ ہوا ہے ۔دفتر برائے قومی شماریات کے مطابق 2021 میں صرف 46.2 فیصد آبادی یعنی 27.5 ملین افراد نے اپنی مذہبی شناخت عیسائی کے طور پر کرائی، جبکہ 2011میں یہ تعداد 59.3 فیصد یعنی 33.3 ملین افراد پر مشتمل تھی۔ لندن انگلینڈ کا ایک ایسا متنوع علاقہ ہے جہاں عیسائیوں کی تعداد صرف 25 فیصد نکلی۔ رپورٹ کے مطابق اسلام برطانیہ میں تیزی سے پھلنے پھولنے والے مذاہب میں شامل ہے۔ 2011 کی مردم شماری میں ان کی تعداد 4.9 ملین فیصد تھی جو کہ اب بارہ لاکھ کے اضافے کے ساتھ تقریباً 39 لاکھ یا 6.5فیصد ہو گئی ہے۔ ہندوئوں کی تعداد آبادی کا 1.7 فیصد یعنی 10,32775 ہے، سکھوں کی تعداد آبادی کا 0.9فیصد یعنی 524140ہے، یہودیوں کی تعداد 0.5فیصد یعنی271327ہے۔ عیسائیت کے علاوہ دیگر تمام مذاہب کے افرادکی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے افراد جن کا کہنا تھا کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ان کی تعداد 12فیصد اضافے کے ساتھ 37.2فیصد تک چلی گئی ہے جب لوگوں سے ان کے نسلی گروپ کے متعلق پوچھا گیا تو 81.8فیصدنے خود کو سفید فام بتایا جبکہ ایک دہائی پہلے ان کی تعداد 8.6 فیصد تھی اس کے بعد سب سے بڑا نسلی گروپ ایشیائیوں کا تھا جن کی کل آبادی 55لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ 2011 میں یہ تعداد 42لاکھ تھی۔ کالے افراد جو افریقہ اور کریبین علاقوں سے ہیں ان کی تعداد گزشتہ دہائی کے 990000 سے بڑھ کر اب 15لاکھ ہو گئی ہے۔ برمنگھم، لیوٹن اور لیسٹر انگلینڈ کے ان 14علاقوں میں شامل ہیں جہاں سفید فام افراد اب اقلیت میں ہیں۔ مردم شماری کے مطابق لندن انگلینڈ کا ایسا علاقہ ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں لیکن صرف 25.3 فیصد خود کو عیسائیت کے سوا کسی اور مذہب کاپیروکار بتاتے ہیں۔جبکہ سائوتھ ویسٹ انگلینڈ میں دیگر مذاہب کے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے اور عیسائیوں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی شرح صرف3.2فیصد ہے۔انگلینڈ اور ویلز کے 81.7فیصد افراد نے خود کو نسلی اعتبار سے سفید فام قرار دیا جبکہ ایک عشرہ قبل ان لوگوں کی شرح 86.0فیصد تھی۔ برطانیہ میں یہ مرد م شماری ہر دس سال کے بعد کرائی جاتی ہے جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ برطانوی معاشرہ کیسی شکل اختیار کررہاہے۔اس سے مختلف اداروں کو ٹرانسپورٹ،تعلیم اور ہیلتھ کیئر سمیت مختلف پبلک سروسز کی منصوبہ بندی کرنے اور ان کیلئے فنڈ فراہم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔تازہ ترین مردم شماری گزشتہ سال 21مارچ کو کی گئی تھی۔ اس مردم شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود کو عیسائی کہنے کی تعداد میں 13.1فیصد کمی ہوگئی ہے۔قومی شماریات دفتر کا کہناہے کہ مردم شماری کے دوران لوگوں سے سوال کیاجاتاہے کہ آپ کا مذہب کیا ہے ،اس میں ان کے فرقے اور عبادت کے طریقہ کار کے بارے میں سوال نہیں کیا جاتا۔کنگز کالج لندن کی پروفیسر لنڈا ووڈ ہیڈ کا کہناہے کہ خود کو لامذہب کہنے والوں میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ان میں سے بعض لوگ مذہبی عقائد رکھتے ہیں اور مذہبی رسومات پر بھی عمل کرتے ہیں لیکن وہ خود کو کسی خاص مذہب سے نتھی نہیں کرنا چاہتے۔

یورپ سے سے مزید