• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: بیرسٹر امجد ملک۔۔۔راچڈیل
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے باضابطہ طور پر پاک فوج کی کمان سنبھال لی ہے، ان کے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں، فوج کو سیاست سے پاک رکھنا، معاشی انحطاط میں ادارہ جاتی حصہ، احتساب، شہید کو غازی سے ممتاز کرنے کے لیے جدوجہد درکار ہوگی، جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف پہلی آفیشل تصویر جاری ہوئی تو احساس ہوا کہ ان پلوں کے نیچے سے کتناپانی بہہ چکا ہے، اللہ پاک ملک پاکستان کو کامیاب کرنے میں ان کی مدد کرے۔آمین۔فوج سیاست سے بے دخل ہوگی یہ تو وقت بتائے گالیکن آنے والے کل کے اشارے ہمیں جانے والے کل میں ہی ملیں گے،ایسے میںسینئر موسٹ جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری سے کسی کا حق نہیں مارا گیا اور صدر مملکت نے اہم عسکری عہدوں کی تقرری پر دستخط کر کے درست فیصلہ کیااور ملک ایک بڑے بحران سے بچ گیا۔ لگتاہے اس بحران کو ٹالنے میں سیاسی اور عسکری قیادت ، بیک ڈور مذاکرات اور کچھ لو اور کچھ دو کا بڑا عمل دخل ہوگا جس کا علم ہمیں وقت گزرنے کے ساتھ ہوجنرل باجوہ کے چھ سال کسی بھی جمہوری دورمیں کسی بھی آرمی چیف کاتاریک ترین دوررہا۔ملک کے مفادمیں یہی ہوگاکہ آئندہ فوج کی سیاست میں اسطرح کی تجربہ اور پیوند کاری اور مداخلت کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں، سیاست میں مداخلت نہ ہو،علی وزیر آزاد ہوں،گلالئی اسماعیل کے والدین سے زیادتی ختم ہو،مدثرنارو اور دیگر گمشدہ افراد بازیاب ہوں اور سپہ سالار آئین کی کتاب سامنے رکھ کر تمام افرادطبقوں اور معاشرے سے بات کریں اور اپنی لیڈرشپ کی آواز پر دشمن سے نبرد آزما ہوں۔اگر ہم نے غیر سیاسی ہونا ہے تو1973 کے تحت معمولات سیاسیات کو اس کے دھارے میں لانا ہوگا۔اسے حرف بہ حرف قبول کرنا ہوگا ورنہ ہمیںایک اور تباہی کیلئے تیار رہنا چاہیے۔میں کبھی بھی سپاہ کے خلاف نہیں ہوں مگر تاریخ اور تجربہ تلخ ہے، ہندوستان ہماری لیگ سے بہت دور نکل چکا ہے، ہم اس ان دیکھے خوف کے زریعے اپنے وسائل سے اپنی عوام کو کب تک محروم رکھیں گے۔ اگر ہم تمام علاقائی ریاستوں کے ساتھ انڈیکس چیک کریں۔ بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے کیا انکے مسائل نہیں ہیں ، کیا انکی فوج نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے دفاع کو آئینی شکل دینے کیلئے ہندوستانی ماڈل کی پیروی کی۔ ہم ابھی تک مخمصے میں ہیں آئین کی قابل عملیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔سابق حکومت کے سربراہ کی صدارتی نظام کی بابت گفتگو اسکے بارے میں اس کی قبولیت کیلئے آمادگی ، ماضی کے تجربے، کامیابی کے تناسب اور ممکنہ نقصانات کا کوئی مطالعہ کئے بغیر اس پربلاوجہ بات کرنا اور بحث مباحثہ چھیڑنا نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ ریاست اور فیڈریشن کا نقصان ہے۔ہم لفظوں سے زیادہ کام سے دیکھی آن گے کہ نئے چیف سول سپریمیسی اور سیاست سے فوج کی مداخلت کوختم کرنے کے مدعا کے اوپر کتنے سیریس ہیں، میں توغیر سیاسی حیثیت پر یقین کروں گا جب میں دیکھوں گاکہ اب انسٹی ٹیوٹ جو سویلین کمانڈ اینڈ کنٹرول کی حدود سے باہر ہو گیا تھاکیا وہ کسی دوسرے ملک کی ریاست کی طرح معمول سے متعلق تعلقات میں واپس لایا جا سکتا ہے، ممکن ہے لیکن مشکل ہے، قربانیاںدینی پڑیں گی، میں عام افسروں میں بوڑھے یا نوجوانوں میں وہ مرضی، ڈرائیو یا جذبہ نہیں دیکھ رہا جسے میں یہ کہہ سکوں کہ تمام کی تمام فوج اس کام کیلئے تیار ہے۔ آئین کی پاسداری کیلئے ذہن سازی کرناہوگی حلف دوبارہ پڑھنا پڑھانا اور سکھانا پڑے گا۔آج سول سپرمیسی کا خواب جو قائد مسلم لیگ میاں محمد نوازشریف نے دیکھا وہ اب شرمندہ تعبیر ہونے جارہا ہے ، اس کے ساتھ اب پاکستان کو بھی مثبت سوچ کے حامل لوگوں کی ضرورت ہے جو پاکستان میںمثبت سوچ کو پھیلائیں اور ترقی کی راہ میں پاکستان کا ساتھ دیں۔ وقت نے ثابت کیا کہ سیزن لیڈرشپ ہی پاکستان کو ترقی کی راہ پر لا سکتی ہے جو اتحاد و تنظیم سے دوسری جماعتوں کیساتھ مل کر بہتر پاکستان بنانے کی جدوجہد میں شریک ہوکر لیڈ کرسکتی ہے ،قائد مسلم لیگ ن میاں نوازشریف ایک خوشحال مستقبل کی ضمانت ہیں،آئیں آپ سب ملکر اس پاکستان کو مضبوط اسلامی و جمہوری ریاست بنائیں۔ آخر میں اتنا کہ احتیاط لازم ہے صرف بندہ بدلا ہے چھڑی وہی ہے۔شہباز شریف خوش قسمت ہیں کہ ان کویہ اعزاز حاصل ہوا ،پس مشتری ہو شیار باش، اب جبکہ سوشل میڈیا پر برپا انقلاب قابو میں آرہا ہے ، اہم تعیناتیوں کے بعد ادارے کو خود ہی غور و غوض کرنے کا موقع دینا چاہئے۔عدالتی اور فوجی افسران کے خلاف قیاس آرائی اور تنقید سے پرہیز کرنا چاہیے،پاکستان اصل تبدیلی کی طرف گامزن ہے اس کی سیاسی عسکری و قانونی قیادت عوام کے ساتھ مل کر فیصلے کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ 
یورپ سے سے مزید