پاکستان میں اہل تشیع کے ماتمی جلوس اور تعزیتی اجتماعات گزشتہ کچھ برسوں سے بہت نازک اور حساس معاملہ بن چکے ہیں۔ اس موقع پر سکیورٹی انتظامات سرکاری انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوتے ہیں۔ اس بار یہ چیلنج ہمیشہ سے بڑھ کر سنگین تھا۔ امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کے قتل کے بعد پاکستانی طالبان کی قیادت کہیں زیادہ سخت گیر مولوی فضل اللہ کے ہاتھ میں آگئی تھی جس نے حکیم اللہ کے قتل کے انتقام میں پنجاب کو بطور خاص نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اہل تشیع کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں عموماً لشکر جھنگوی کے کھاتے میں جاتی ہیں جو تحریک طالبان پاکستان کی چھتری تلے پندرہ، سولہ بڑی تنظیموں میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپی کے ساتھ نوٹ کی جاتی ہے کہ ادھر دہشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے۔ ادھر میڈیا پر طالبان کے ترجمان کی طرف سے اس کی ذمہ داری قبول کرنے کا فخریہ اعلان آجاتا ہے۔ اس حوالے سے کبھی کبھار خاصی دلچسپ صورت حال بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ 28 دسمبر 2009ء کو یوم عاشور پر ایم اے جناح روڈ کراچی پر لائٹ ہائوس کے سامنے ایک بڑا ماتمی جلوس بم دھماکے کی زد میں آگیا۔ (جس میں 43 افراد موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، 9 افراد نے اسپتال پہنچ کر جان دیدی) ادھر یہ واقعہ ہوا، ادھر تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے اس ’’خودکش حملے‘‘ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حملہ آور کا نام بھی بتا دیا (غالباً ابومعاویہ) تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ خودکش حملہ نہیں تھا، بلکہ سڑک کنارے مقدس اوراق کے لیے نصب ایک ڈبے میں رکھا گیا ریموٹ کنٹرول بم تھا۔
حکیم اللہ محسود کے قتل کے بعد طالبان کی طرف سے ملنے والی سخت دھمکی کے باعث سرکاری انتظامیہ اس سال ماتمی جلوسوں کی سکیورٹی کے لیے غیر معمولی مستعدی کا مظاہرہ کررہی تھی اور اس حوالے سے احتیاطی اقدامات بھی بے پناہ تھے۔ بعض مقامات پر گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ اسلحہ بھی برآمد ہوا، کراچی میں 6 دہشت گرد مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے، بیشتر شہروں میں موبائل فون سروس معطل تھی۔ 9 اور 10 محرم کو آنکھیں اور کان ٹی وی اسکرینوں پر لگے رہے۔ 10 ویں کی شام تک ہر طرف سے خیر کی خبر تھی۔ چنانچہ لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔ لیکن اس بار بدقسمتی ایک اور شکل میں وارد ہوئی۔ راولپنڈی کے راجہ بازار میں یہ سانحہ جمعہ کی نماز کے وقت ہوا تھا۔ بریکنگ نیوز کی مسابقت کے شکار الیکٹرانک میڈیا نے اس حساس ترین واقعہ پر قومی ذمہ داری کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا۔ چنانچہ یہ خبر شام تک رکی رہی اور شام کو بھی نہایت محتاط انداز میں اسے نشر کیا۔ یہ واقعہ جمعہ کے وقت ہوا تھا، تب ملک بھر میں اہل تشیع کے جلوس سڑکوں پر تھے۔ تب راجہ بازار سانحہ کی خبر کے ردعمل میں جو حالات پیدا ہوئے اس کے تصور ہی سے دل ڈوب سا جاتا ہے۔(البتہ سوشل میڈیا پر افواہ نما خبر ہو یا خبر نما افواہیں چلتی رہیں، جن میں بچوں کے ذبح ہونے کی خبر بھی تھی)اگلے روز بعض شہروں (خصوصاً جنوبی پنجاب) میں کشیدگی کی لہر نے سر اٹھایا، کہیں کہیں فوج بھی طلب کرنا پڑی، یہ لہر طوفان کی صورت اختیار نہ کرسکی اور حالات پر قابو پا لیا گیا۔
وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر میں سرکاری انتظامیہ بم دھماکے یا خودکش کارروائی کے سدباب میں تو کامیاب رہی لیکن شہر میں اس نوعیت کی واردات بھی ہوسکتی ہے، شاید اس طرف اس کا دھیان نہیں گیا تھا۔ راجہ بازار میں مولانا غلام اللہ خاں (مرحوم) کی مسجد اورمدرسہ عاشورہ کے جلوسوں کے حوالے سے ہمیشہ ایک حساس علاقہ رہا ہے۔ ماضی میں انتظامیہ کی یہ حکمت عملی رہی کہ ماتمی جلوس ایسے وقت یہاں سے گزرے جب نماز کا وقت نہ ہو۔ اس بار یہ احتیاط نہ کی جاسکی، حالانکہ یہ یوم عاشور جمعہ کے روز آیا تھا اور نماز جمعہ کا وقت اور بھی اہم اور نازک ہوگیا تھا۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر جلوس کچھ فاصلے پر روک لیا جاتا اور نماز جمعہ کے بعد اسے گزرنے کی اجازت دی جاتی یا فریقین کے لائوڈسپیکر بند کروا دیئے جاتے تب بھی اس سانحہ سے بچا جاسکتا تھا، ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ اس روز مولانا صاحب کی تقریر طویل ہوگئی تھی اور یوں نماز جمعہ میں تاخیر ہوتی گئی۔ قیمتی انسانی جانوں کے اتلاف کے علاوہ مالی نقصان کا اندازہ بھی اربوں میں کیا جاتا ہے، ایک اندازے کے مطابق 200 سے زائد دکانیں نذر آتش ہوگئیں۔ اس موقع پر لوگوں کو 28 دسمبر 2009ء کا مذکورہ بالا واقعہ بھی یاد آیا۔ جب بولٹن مارکیٹ سمیت علاقے کی کتنی ہی املاک نذر آتش کردی گئیں، دکانیں لوٹی بھی گئیں اور جلائی بھی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ تالے اور دروازے توڑنے کے لیے فائر بریگیڈ کے ہتھوڑے اور کٹر بھی استعمال کئے گئے تھے اور لوٹ مار کے بعد دکانوں کو نذر آتش کرنے کے لیے آتش گیر کیمیکل استعمال کیا گیا تھا۔ اندھوں کو بھی نظر آرہا تھا کہ یہ فوری اشتعال اور بے ساختہ ردعمل نہیں بلکہ طے شدہ پروگرام کا حصہ تھا، حکومت نے حسب معمول انکوائری کا اعلان کیا تھا جو معمول کے مطابق سردخانے کی نذر ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ راولپنڈی راجہ بازار کے سانحہ میں ملوث (فائرنگ اور آتشزدگی کرنے والے) ہاتھ بھی تربیت یافتہ تھے۔
راولپنڈی کے سانحہ میں مقامی انتظامیہ کی کوتاہی کا عمل دخل کتنا تھا، تحقیقاتی کمشن اس کا تعین کردے گا، تاہم اس سانحہ کے بعد آگ کو پھیلنے سے روکنے اور اشتعال کو اعتدال میں بدلنے کے لیے وفاقی وزارت داخلہ اور حکومت پنجاب بلاتاخیر بروئے کار آئی۔ وزیراعظم سری لنکا سے وزیراعلیٰ کے ساتھ رابطے میں رہے۔ ادھر ہمیشہ کے متحرک اور فعال وزیراعلیٰ نے بھی اصلاح احوال میں لمحہ بھر کی تاخیر نہ کی، سرکاری سطح پر فوری انتظامی اقدامات کے علاوہ دیگر چینلز کو بھی متحرک کیا گیا۔ علماء کرام بھی اپنے زخمی دلوں کو تھام کر اٹھے اور آگ بجھانے میں سرگرم ہوگئے۔ فوج نے بھی سول انتظامیہ کی مدد کے لیے اپنا آئینی کردار ادا کیا اور میڈیا نے بھی اپنی قومی ذمے داری کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ امید کی جانی چاہئے کہ وہ بریکنگ نیوز کے مقابلے میں اپنی قومی ذمے داری کا آئندہ بھی کماحقہ احساس کرے گا۔