• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل کچھ سیاستدانوں کے بیانات ہمیں بار بار میر تقی میر کی یاد دلاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما جناب فواد چودھری نے فرمایا ہے کہ عمران خان نے پاکستان کو مارشل لاءسے بچا لیا۔

 دلیل یہ دی کہ اگر عمران خان صدر عارف علوی کو نئے آرمی چیف کی تقرری کے نوٹیفیکیشن پر دستخط سے روک دیتے تو ملک میں مارشل لاءلگ جاتا ۔فواد چودھری نے جو بھی کہا وہ انتہائی قابل غور ہے کیونکہ آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ غیر معمولی تاخیر کا شکار ہو رہا تھا۔

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ایک طرف جنرل قمر جاوید باجوہ دوسری مرتبہ ایکسٹینشن کیلئے سرگرم تھے ، دوسری طرف ایک صاحب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ اگر انہیں آرمی چیف بنا دیا گیا تو وہ عمران خان کو نیست ونابود کر دیں گےاور ان کا ’’فیض‘‘ غیر مشروط ہوگا۔

نجانے باجوہ اور فیض مل کر کھیل رہے تھے یا ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے تھے لیکن یہ طے ہے کہ جی ایچ کیو سے وزارت دفاع کو آرمی چیف کیلئے نام بھجوانے کی سمری میں تاخیر بہت سوچ سمجھ کر کی گئی۔

آخر میں جب سمری بھیج دی گئی تو خیال تھا کہ اگر وزیر اعظم شہباز شریف نے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا تو عمران خان صدر عارف علوی کو اس فیصلے کی تصدیق سے روک دیں گے ۔

ایک نیا بحران پیدا ہو جائے گا اور مار شل لاء کے حالات پیدا ہو جائیں گے ۔فواد چودھری برا نہ منائیں تو عرض ہے کہ جب وزیر اعظم آفس نے سمری صدر عارف علوی کو بھجوائی تو ہماری اطلاع کے مطابق انہوں نے اس پر دستخط کر دیئے ۔

دستخط کرنے کے بعد وہ وزیر اعظم کے ہوائی جہاز پر لاہور گئے اور عمران خان سے ملاقات کی ۔خان صاحب سمری پر دستخط سے روکتے بھی تو کوئی فائدہ نہ ہوتا لیکن خان صاحب کو بھی مارشل لاء کے خطرے کا احساس تھا۔انہوں نے صدر کو دستخط سے نہیں روکا اور یوں مار شل لاء کا خطرہ ٹل گیا۔فواد صاحب کا بیان پڑھ کر مجھے میر تقی میر کا یہ شعر یاد آیا؎

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوانےکام کیا

دیکھا ! اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

مارشل لاء کس نے لگانا تھا؟ ظاہر ہے جنرل باجوہ نے لگانا تھا جن کی زبان سے میں نے مارشل لاء کی بات ایک د فعہ نہیں بار بار سنی۔

ان کے دل کے کسی گوشے میں پانچ ہزار افراد کو لٹکانے کی ایک خواہش اکثر انگڑائیاں لیتی تھی۔

یہ خواہش ان کی زبان پر تڑپتی لیکن پھر واپس دل میں جا کر سوجاتی۔ ریٹائرمنٹ سے کچھ دن پہلے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی ایک سیکورٹی ورکشاپ میں کئی گھنٹے تک انہوں نے خطا ب فرمایا ۔

یہاں بھی آغاز میں تو یہی کہا کہ فروری 2021ء میں فوج نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن اگلے ہی لمحے کہا کہ پاکستان میں مارشل لاء لگانا بہت آسان ہے اور ہمارے پاس ہر وقت ان لوگوں کی فہرستیں تیار ہوتی ہیں جنہیں مار شل لاء لگانے کے بعد گرفتار کرنا ہوتا ہے ۔مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کبھی آپ کا نام ہماری فہرست میں شامل ہو جاتا ہے کبھی ڈراپ ہو جاتا ہے ۔

اس دن انہوں نے میڈیا پر بہت غصہ جھاڑا اور کہا کہ جب بھی ہم کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے قریب پہنچتے ہیں آپ لوگ کشمیر فروشی کی باتیں کرنے لگتے ہیں ۔

یہ الزام بھی لگا دیا کہ آپ لوگ بھاری تنخواہیں لیتے ہیں اور ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے۔ جنرل باجوہ تقریباً ہر ملاقات میں ہماری تنخواہوں پر ضرور گفتگو کرتے تھے اکثر انکی انفارمیشن غلط ہوتی، اس دن این ڈی یو میں نسیم زہرا نے انہیں چیلنج کر دیا اور کہا کہ آپ نے ٹیکس چوری کا الزام لگایا ہے تو اب ثبوت پیش کریں ورنہ اپنے الفاظ واپس لیں۔باجوہ صاحب نے نسیم زہرا کو دبانے کی کوشش کی لیکن جب اس جرات مند خاتون نے بھی بلند آواز میں آرمی چیف سے بار بار کہا کہ ثبوت کے ساتھ بات کریں تو پاکستان کے طاقتور ترین شخص نے بات بدل دی۔ حقیقت یہ ہے کہ سویلینز کی کمزوریاں سازشی جرنیلوں کی طاقت بنتی ہیں ۔

نسیم زہرا کی کوئی کمزوری باجوہ کے پاس نہ تھی لہٰذا انہوں نے ایک منٹ میں باجوہ صاحب کو چپ کرا دیا۔اس دن باجوہ صاحب نے یہ اعتراف بھی کر لیا کہ فوج بحیثیت ادارہ نیوٹرل ہو چکی ہے لیکن انہوں نے ذاتی حیثیت میں عمران خان کو سمجھانے کی کافی کوشش کی۔باجوہ صاحب ایک زمانے میں شہباز شریف کو بھی بہت سمجھایا بجھایا کرتے تھے۔

2018ء کے انتخابات سے قبل ایک دن جنرل باجوہ نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید مختار اور ان کے نائب فیض حمید کی موجودگی میں شہباز شریف سے کہا کہ اگر آپ وزیر اعظم بن جائیں تو آپکی کابینہ میں کون کون شامل ہوگا؟شہباز شریف کو سمجھ آ گئی کہ میرے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت سے صلاح مشورے کے بعد ہی کابینہ بنے گی پھر انہیں کہا گیا کہ آپ کو اپنے بھائی نواز شریف کی سیاست سے دوری اختیار کرنا ہوگی ۔یہ وہ لمحہ تھا جب شہباز شریف ایک چھوٹی سی ہاں کہہ دیتے تو وزیر اعظم بن سکتے تھے لیکن انہوں نےتینوں جرنیلوں کو صاف بتا دیا کہ وہ ہمیشہ سے فوج کےساتھ مفاہمت کے حامی رہے ہیں لیکن وہ نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔

عرض یہ کرنا ہے کہ جنرل باجوہ ذاتی طور پر عمران خان کو وزیر اعظم نہیں بنانا چاہتے تھے لیکن شہباز شریف کے انکار کے بعد عمران خان ان کی مجبوری بن گئے ۔عمران خان نے باجوہ کے ساتھ چلنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔باجوہ نے کہا کہ اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹا کر حفیظ شیخ کو لے آئو خان صاحب مان گئے ۔جب باجوہ صاحب نے کہا کہ عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ہٹا دو تو خان صاحب نہیں مانے ۔ساری بات یہیں سے بگڑی، خان صاحب کا خیال تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے پیچھے باجوہ صاحب ہیں ۔یہ ان کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی ۔تحریک عدم اعتماد کے ماسٹر مائنڈ آصف علی زرداری تھے جنہوں نے شہباز شریف کو اپنا امیدوار بنا کر خود باجوہ کو حیران کر دیا۔ 

باجوہ صاحب نے آخری وقت تک عمران خان کو بچانے کی کوشش کی یہاں تک کہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنما خالد مگسی کے پاس بھیجا اور ان سے کہا کہ آپ عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑیں ۔لیکن باپ والے باجوہ صاحب کے بھی باپ نکلے ،خالد مگسی نے براہ راست باجوہ کے سامنے بیٹھ کر کہہ دیا کہ مارشل لاء لگانا ہے تو لگا دو ہم اپنا فیصلہ نہیں بدلیں گے۔جب شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے تو اس کے بعد باجوہ صاحب نے پرویز الٰہی کو ان کے خلاف استعمال کیا اور پھر چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ پر دبائو ڈالا کہ آپ یا تو نئے انتخابات کا اعلان کریں یا پھر استعفے دیں۔

راجہ صاحب نے جس جگہ اور جس انداز میں انکار کیا اس پر تو پورا کالم لکھا جاسکتا ہے ۔انہیں بہاولپور سے بھی پیغامات آتے رہے کہ آپ نئے انتخابات کا راستہ ہموار کریں لیکن راجہ صاحب نے سب کو ’’بے فیض‘‘ کر دیا ۔بہت سے راز سامنے آنے والے ہیں بہت سے چہروں کا نقاب سرکنے والا ہے ۔بقول میر تقی میر؎

راہِ دورِ عشق میں روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین