دس محرم کی دوپہر مدرسہ تعلیم القرآن اور اِس سے ملحق مسجد اور مارکیٹ پر جو قیامت ٹوٹی ہے، اِس پر پورے ملک میں درد کی ٹیسیں محسوس کی جا رہی ہیں اور احتجاج کی لہریں شہ زور ہوتی جا رہی ہیں۔ اہلِ دل اِس انجام سے خوفزدہ ہیں جس کی طرف معاشرہ مختلف سمتوں اور صورتوں میں بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ تہذیب اور انسانیت کا دامن خون سے تر کر دینے والے واقعات کے ذمے دار کون ہیں ، اِس کی تحقیقات ہو رہی ہے۔ باعث ِاطمینان امر یہ ہے کہ فوٹیج کی مدد سے 117؍افراد کی نشان دہی ہو چکی ہے جن میں 14سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں۔ اب اِن کو کیفرِکردار تک پہنچانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ بادی النظر میں پولیس اور سول انتظامیہ کی اعلیٰ قیادت نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناقابلِ معافی غفلت برتی ہے اور جرائم پیشہ عناصر اور مذہبی دہشت گردوں کو خون کی ہولی کھیلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ جناب وزیراعظم نے اُن کے بارے میں احکامات جاری کیے ہیں کہ فقط اُن کے تبادلے کافی نہیں بلکہ وہ سخت ترین سزا کے مستحق ہیں۔ اِس خونیں حادثے سے پہلا اہم سبق یہ ملا ہے کہ حکومت کو اعلیٰ انتظامی مناصب اہل ، فرض شناس اور دور اندیش افراد کو سونپنے اور اُنہیں آزادی اور ذمے داری سے اپنے فرائض ادا کرنے کا ماحول فراہم کیاجائے۔
ایک مدت سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پنجاب حکومت افسروں کے تبادلوں اور اکھاڑ پچھاڑ میں بڑی فیاض واقع ہوئی ہے۔ جونیئر افسر کئی کئی محکموں کے اضافی چارج سنبھالے ہوتے ہیں۔ کچھ خوش نصیب افسر ایسے ہیں جو ایک منصب پر سالہا سال سے قابض چلے آ رہے ہیں جبکہ زیادہ تر افسر تبادلوں کی گردش میں بے یقینی کے سراب میں سرگرداں رہتے ہیں۔ پنجاب پولیس کی اعلیٰ قیادت کو اِس چبھتے ہوئے سوال کا جواب دینا ہو گا کہ محرم کے آغاز میں ایک ایسا پولیس افسر سی پی او راولپنڈی کیوں تعینات کیا گیا جو اِس شہر کو پہلے سے پوری طرح نہیں جانتا تھا۔ آئی جی پنجاب جناب خان بیگ ایک دیانت دار افسر کی شہرت رکھتے ہیں ،مگر وہ اِس قدر پُراسرار ہیں کہ پبلک میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔اعلیٰ پولیس قیادت کو جب عوام اپنے قریب دیکھتے ہیں ،تو اُن میں تحفظ کا احساس اُبھرتا ہے۔ کراچی میں ایڈیشنل آئی جی جناب شاہد حیات نے اپنی جواں ہمتی اور پیشہ ورانہ کارکردگی سے شہر کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے جن کو ایک ایسے ڈی جی رینجرز کی کمک حاصل ہے جو بے خطر جرائم پیشہ عناصر کے آگے سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔ ہمیں راولپنڈی کے سانحے سے دوسرا اہم سبق یہ ملتا ہے کہ انتظامی قیادت کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے اِس کی موزوں تربیت پر خاص توجہ دینا ہو گی اور اُسے بحران میں سے عوام کو صحیح و سلامت نکالنے کے لیے جدید تصورات سے روشناس کرانا ہو گا۔ حکمرانوں کو یہ عہد بھی کرنا چاہیے کہ وہ بیوروکریسی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔
انتظامیہ کی اِس سے زیادہ اور کیا نااہلی اور بے رحمی ہو گی کہ اُس نے اِس پہلو پر سرے سے غور ہی نہیں کیا کہ دس محرم کو جمعہ ہے اور عاشورے کے جلوس کو راجہ بازار میں تعلیم القرآن مسجد کے پاس سے گزرنا ہے جو ایک خطرناک موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ جو تفاصیل اخبارات میں شائع ہوئی ہیں ،اُن کے مطابق پولیس کی مطلوبہ نفری اِس موقع پر موجود نہیں تھی اور اعلیٰ فوجی افسر اپنی ذمے داریوں سے غافل تھے۔ انتظامیہ کی سطح پر اِس امر کی سرے سے کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ جلوس نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد مسجد کے قریب سے گزرے تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے کا احتمال ہی پیدا نہ ہو۔مولانا امان اﷲ جو نمازِ جمعہ کی امامت فرما رہے تھے ،اُنہوں نے ایک معاصر روزنامے کو مفصل انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ہر سال جلوس کے شرکاء فوارہ چوک میں ظہرین ادا کرنے کے بعد کوئی چار بجے کے قریب مسجد تعلیم القرآن کی طرف آتے تھے۔ اِس دفعہ جلوس دو بجے سے پہلے ہی مسجد کے پاس پہنچ گیا جب وہاں جمعے کا خطبہ دیا جا رہا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا ،انتظامیہ اور حکومت کی آنکھ بند کیوں رہی اور حالات کو کسی تلاطم سے بچانے کے لیے حفاظتی انتظامات کیوں نہیں کیے گئے۔ بلاشبہ محرم کے پہلے عشرے میں حساس مقامات پر پولیس ،رینجرز اور فوج کے دستے تعینات کیے گئے تھے اور عوام خوش تھے کہ ملک میں امن و امان قائم رہا ،لیکن راولپنڈی جو ہمارے وزیرِ داخلہ جناب چوہدری نثار علی خاں کا شہر ہے ،اُس کے حساس علاقے مناسب حفاظتی انتظامات کے بغیر خون میں نہا گئے، تو چشمِ فلک سے غم کے آنسو چھلک پڑے تھے۔اِس الم ناک حادثے سے تیسرا اہم سبق یہ ملا کہ سیاسی قیادت کو اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھ لینے کے بجائے وسیع تر مشاورت کا راستہ اختیار کرنا اور ہر آن چاق و چوبند رہنا چاہیے۔ اِس کے علاوہ فصاحت و بلاغت کے دریا بہانے کے بجائے واضح اقدامات کا پیشگی تعین اور اُن پر عمل درآمد کی منصوبہ بندی کو اہمیت دی جائے۔ چوہدری صاحب نے اپنے کمالات بیان کرنے پر سارا زور صرف کر دیا جبکہ سانحے سے پیدا ہونے والے حالات کے بارے میں ٹھوس اقدامات کے اعلان سے اجتناب کیا۔ اُن کو یقین دلانا چاہیے تھا کہ رپورٹ کتنے دنوں میں منظرِ عام پر لائی جائے گی اور مجرموں کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے حکومت کیا کیا منصوبے بنا چکی ہے۔ اُنہوں نے بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اِس لرزہ خیز واقعے سے توجہ ہٹانے کے لیے پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ دائر کرنے کا ایک بے ہنگم اعلان کر دیا۔راولپنڈی کے سانحے میں قوم کا ایک تابناک پہلو بھی اُجاگر ہوا۔ وہ یہ کہ الیکٹرانک میڈیا نے بڑے تدبر، غیرمعمولی ذمے داری اور کمال درجے کی دوراندیشی کا ثبوت دیا۔ نمازِ جمعہ کے وقت نمازیوں پر جو قیامت ٹوٹی ، اگر اِس کے مناظر ٹی وی پر دکھا دیے جاتے تو پورے ملک میں آگ لگ جاتی۔ اِس کے علاوہ ہر مکتب فکر کے علماء بھی حالات کو قابو میں رکھنے میں تعاون کرتے رہے۔ سوشل میڈیا نے اگرچہ افواہیں پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھا مگر سول سوسائٹی نے اُس میں جھلسنے سے انکار کر دیا۔ راولپنڈی کے عمائدین کی طرف سے یہ شہادت بھی دی جاتی رہی کہ چند سو تربیت یافتہ حملہ آور گلگت اور پاراچنار سے آئے تھے جو بظاہر ماتمی لباس میں تھے ،مگر اُن کا تعلق غم گساران حسینؓ سے نہیں تھا۔ ہمیں ایک اہم سبق یہ ملا ہے کہ جرائم پیشہ لوگ اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے فرقہ پرست جماعتوں میں شامل ہو جاتے اور عدم استحکام پیدا کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ قومی اداروں کو اُن پر کڑی نگاہ رکھنا اور اُنہیں غیر مؤثر بنانا ہو گا۔ راولپنڈی حادثے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ شیعہ علماء بھی اِس کی کھل کر مذمت کریں اور لاہور ہائی کورٹ کے فاضل جج کی سربراہی میں قائم شدہ عدالتی کمیشن کے ساتھ دستِ تعاون دراز کریں۔ کوئٹہ میں جب ہزارہ کمیونٹی کے افراد شہید کیے گئے تھے تو پورے ملک میں سنی جماعتوں نے بھرپور احتجاج کیا تھا۔ دوسرا تقاضا یہ ہے کہ مسجد ، مدرسے اور دکانوں کی تعمیر نو کاکام حکومت کی طرف سے فوری طور پر شروع کر دیا جائے۔ تیسرا تقاضا وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف جو مشنری جذبے کے تحت کام کرتے ہیں نے نقصانات کی تلافی کے لیے 24کروڑ جاری کر کے پورا کر دیا ہے۔ چوتھا تقاضا یہ ہے کہ حکومت عدالتی کمیشن کی سفارشات پر سنجیدگی سے عمل کرے۔