• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صبا بھی آئی تو پھولوں کے منہ جُھلس کے گئی

ٹیگور نے کہا تھا کہ ہر بچہ خدا کا یہ پیغام لے کر دنیا میں آتا ہے کہ وہ ابھی انسانیت سے مایوس نہیں ہوا لیکن پاکستان کی ریاست اور سماج ان معصوم پھول جیسے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ ہماری غربت اور پسماندگی کا تاوان کمزور طبقات خاص طور پر بچوں کو جسمانی اور جذباتی طور پرادا کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کی اکثریت تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم اور محنت مزدوری کرنے پر مجبورہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ان کے گھر والے بھی جسمانی محنت اور مزدوری ہی کر سکتے ہیں۔

2022کے آغاز میں ہم کووڈ کی وبا کے تیسرے سال میں داخل ہوئے تھے۔گذشتہ سال کے اختتام پر یونیسیف نے بچوں اور نوجوانوں پر کرونا کی وبا کے تباہ کن اثرات کے سد باب کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ،جس میں کرونا کی وبا کو بچوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا گیا تھا۔ 

صحت کے مسائل کے ساتھ اس وبا نے بچوں کی ایک پوری نسل کی تعلیم کو متاثر کیا، وبا سے پورے طور پر نمٹ نہیں پائے تھے کہ سیلابوں نے ایک نئی آفت کھڑی کر دی۔ ویسے بھی پاکستان میں 3.4 ملین بچوں کو پیٹ بھر روٹی نہیں ملتی، رہی سہی کسر غیر معمولی بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے پوری کردی۔ سیلاب زدہ علاقوں میں 76000بچوں کو شدید غذائی قلت اور ناکافی غذائیت کا سامنا ہے(سیو دی چلڈرن)

2022کی پہلی سہ ماہی میں کرونا کے کیسز میں کمی آئی۔صرف765کیسز رپورٹ ہوئے۔ یونیسیف کی مدد سے پاکستان کے طبی مراکز میں 33,586 بچوں کا شدید قسم کی عدم غذائیت Severe Acute Malnutrition کا علاج کیا گیا۔ 1322385لوگوں نے بنیادی طبی خدمات سے استفادہ کیا۔ یونیسیف نے 180666 لوگوں کو ہاتھ دھونے اور رویوں میں تبدیلی کے پروگراموں میں شامل کیا۔ 13742بچوں اور ان کے والدین یا دیکھ بھال کرنے والوں کو ذہنی صحت اور سائیکو سوشل خدمات فراہم کیں۔

سیلاب کے باعث فاقہ کش لوگوں کی تعداد میں 45 فی صد اضافہ ہوا، جو بے حد تشویش ناک ہے۔ پہلے 5.96 ملین لوگوں کو بھوک کا سامنا تھا، سیلاب کے بعد 8.62 ملین لوگوں کو ہنگامی اور بحرانی سطح پر غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے،ان میں سے اکثریت کا تعلق سیلاب زدہ علاقوں سے ہے۔ سیلابوں کی وجہ سے فصلیں تباہ ہو گئیں، مویشی مر گئے،ستمبر کے مہینے تک تیرہ سو اموات ہوئیں جن میں سے 458 بچے تھے۔

سردیوں میں بھوک اور فاقہ کشی اور بڑھ گئی، لوگوں کے ذرائع آمدنی ختم ہوگئےاورمہنگائی بڑھ گئی۔لوگ قرض لینے اور اپنے بچے کھچے اثاثے بیچنے پر مجبور ہو گئے،اپنے بچوں کو مزدوری کے لئے بھیجنے لگے اور کم سن بچیوں کی شادیوں کے واقعات میں اضافہ ہو گیا۔ بہت سے والدین اپنے بچوں سے بھیک منگوانے لگے۔

سندھ کی 54سالہ زینب نے سیو دی چلڈرن کی ٹیم کو بتایاکہ، سیلاب میں اس کا گھر گر گیا اور سامان بہہ گیا۔ بچوں کے اسکول کی عمارت بھی تباہ ہوگئی، چنانچہ اسکول سے بچوں کو ملنے والا کھانا بھی ختم ہو گیا۔اب وہ اپنے سات بچوں کے ساتھ دو وقت کی روٹی کے حصول کے لئے پریشان ہو رہی ہے۔پہلے گائوں کے لوگ مدد کر دیتے تھے لیکن سیلاب کے بعد ہم سب ایک جیسی صورت حال سے دو چار ہیں۔ اب میری اور میرے بچوں کی مدد کون کرے گا۔

سندھ کی چودہ سالہ حمیرہ کو سیلا ب کی وجہ سے اپنے گھر والوں کے ساتھ علا قے سےبھاگنا پڑا۔اب وہ ایک قریبی گاؤں میں رہ رہے ہیں اور ان کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ گھر سے بھاگتے وقت کچھ بھی ساتھ لانے کا موقع نہیں ملا۔ اقوام متحدہ نے بڑے ممالک سے سیلاب زدگان کے لئے امداد میں اضافے کی اپیل کی ہے۔ متاثرہ بچوں اور خاندانوں تک پہنچنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن یونیسیف نے روز اول سے سیلاب سے شدید متاثر ہونے والے پچپن اضلاع میں حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیا۔ بچوں کے علاج کے لئے موبائل ہیلتھ کیمپ قائم کئے گئے۔

2022 میں نصف ملین سے زیادہ بچوں کو انتہائی شدید قسم کی غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا، ہزاروں بچے اس کے ساتھ دیگر طبی پیچیدگیوں کا بھی شکار رہے۔ سیلاب اور بارشوں سے پہلے بھی ان اضلاع میں سوکھے کے مرض میں مبتلا بچوں کی شرح پچاس فی صد تھی۔ کوئی چار ملین بچے طبی سہولتوں تک رسائی سے محروم ہیں۔ پانی کی فراہمی کے سسٹم اور صفائی کی سہولتوں کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہو گئے۔ ایک اندازے کے مطابق گیارہ ملین بچے سیلاب سے متاثر ہوئے۔ 

ان کا تعلیمی سلسلہ جلد شروع ہونے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ پاکستان کا 33فی صد حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ لگ بھگ انیس ہزار اسکول تباہ ہو چکے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پرائمری اسکولوں میں داخلے کی شرح 64فی صد ، مڈل میں 37فیصد اور میٹرک میں 27فی صد ہے۔ شرح خواندگی دس سالوں سے ساٹھ فی صدسے آگے نہیں بڑھ پائی۔ اس لئے 5-16عمر کے بائیس ملین بچے پہلے ہی اسکول سے باہر تھے۔سیلاب کی وجہ سے یہ تعداد مزید بڑھ جائے گی۔

اس سے پہلے COVID.19 کی وجہ سے بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ ویسے بھی حکومت تعلیم کے شعبے پر GDPکاصرف ایک اعشاریہ پانچ فیصد خرچ کر رہی تھی۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

سیو دی چلڈرن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تین اعشاریہ چار ملین سے زیادہ بچے فاقہ کش ہیں جن میں سے سات لاکھ چھیتر ہزار بچے سیلاب کی وجہ سے شدیدغذائی قلت اور عدم غذائیت Malnutritionکا شکار ہیں۔ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے،72 اضلاع پہلے ہی انتہائی غربت کا شکار تھے اور بچے وہاں پہلے ہی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے۔

54فی صد سے زیادہ سیلاب زدہ گھرانے سڑکوں پر یا خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سڑکوں پر رہنے والوں کے لئے بیت ا لخلا کا کوئی انتظام نہیں، یوں گندگی اور بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ سیلابوں سے صاف پانی کی فراہمی کا نظام متاثر ہوا ،80فی صد گھرانے گندا پانی پینے پر مجبور ہو گئے۔

ان بے گھر ہونے والے لوگوں میں سندھ کی بیس سالہ گڈی اور اس کا خاندان جس میں اس کا چھ ماہ کا بچہ بھی شامل ہے۔ گڈی نے بتایا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھی ، سیلاب کی وجہ سے ان کا گھر تباہ ہوگیا اور اب وہ ایک بین الاقوامی بچوں کی تنظیم کے فراہم کردہ ٹینٹ میں رہ رہی ہے۔

سیلاب سے بیس لاکھ گھر تباہ ہوئے۔ بیماریوں کے علاوہ سیلاب زدہ گھرانوں کے بچوں کو دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے۔ معاشی بد حالی کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو محنت مزدوری کے لئے بھیجنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔بچوں کی شادیوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔

سیلاب سے متاثرمنچھر جھیل کے کشتی مکین اور ان کے بچے بھی شامل تھے۔دادو میں واقع اس جھیل میں 4ستمبر 2022 کو گنجان آبادیوں ، زمینوں اور سیہون شریف کو زہریلے پانی سے بچانے کے لئے کٹ یا شگاف کیا گیا،جس کے نتیجے میں کشتی مکین اور قریب رہنے والے ایک لاکھ افراد بے گھر ہوئے،جن میں بچے بھی شامل تھے۔

پاکستان میں بچوں کی تعداد 80ملین سے زیادہ ہے لیکن ہم ان بچوں کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم ابھی تک ان بچوں کو معیاری تعلیم نہیں دے پائے، ابھی بھی بچے جنسی استحصال، ٹریفلنگ، بچپن کی شادیوں اور چائلڈ لیبر جیسے مسائل کا شکار ہیں۔ اس صورتحال کے سد باب کے لئے حکومت اور سول سوسائٹی کو سرگرمی سے کام کرنا ہو گا۔

ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کا بے حد خیال رکھا جاتا ہے۔ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن پاکستان کچھ ایسے مسائل میں الجھا ہوا ہے جنہوں نے معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ چائلڈ لیبر کا مسئلہ بھی اس سے جڑا ہوا ہے۔2022میں چائلڈ لیبر میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے،صرف 20.88% بچے شہروں میں رہتے ہیں جو، بنیادی ضروریات تک رسائی رکھتے ہیں، جب کہ پاکستان کی مجموعی آبادی میں سے 24فی صد خط غربت کے نیچے رہ رہے ہیں۔

عالمی بنک کے مطابق 2022 میں صورتحال بہتر ہونے کی توقع تھی لیکن سیلاب نے معاملہ بگاڑ دیا۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے بچے پہلے ہی صاف پانی ،اچھی خوراک، تعلیم اورطبی سہولیات سے محروم تھے،سیلاب سے وہ اپنے کچے گھروندوں سے بھی محروم ہوگئے۔

پاکستان نے نومبر 1990میں بچوں کے حقوق کے کنونشن پر دستخط کئے تھے، 2009 میں حقوق اطفال کی کمیٹی نے بچوں کے لئے زیادہ وسائل مختص کرنے کے پاکستان کے فیصلے کو سراہا۔ اس کے علاوہ ہم نے آئی ایل او کے روزگار کی کم سے کم عمر کے کنونشن پر بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ پاکستان پائیدار ترقی کے مقاصد Sustainable Development Goals پورا کرنے کے معاہدے پر بھی دستخط کر چکا ہے ۔DG8.7کے مطابق رکن ممالک کو جدید غلامی، انسانی ٹریفلنگ اور چائلڈ لیبر کی بد ترین شکلوں کے خاتمے کے لئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔

بچوں کے روزگار ایکٹ1991کے تحت ما سوا خاندانی کاروبا ر اور حکومت سے تسلیم شدہ تربیتی اسکول کے کسی بھی پیشے، ادارے یا خطر ناک عمل میں بچوں کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔خیبر پختونخواہ نے 2018 میں چائلڈ لیبر پالیسی اپنا لی تھی۔ پنجاب میں 2016میں اینٹوں کے بھٹوں میں بچوں کی مزدوری کی ممانعت کا قانون بنا دیا گیا تھا۔ سندھ اور گلگت بلتستان میں الترتیب بچوں کے روزگار کی ممانعت کا قانون 2017اور2019میں بنایا گیا، جس میں عام روزگار کی کم سے کم عمر چودہ سال اور خطرناک پیشوں کے لئے اٹھارہ سال رکھی گئی ہے۔

بچوں کے حقوق پورا کرنے اور سماجی عدم مساوات کو کم کرنے کے لئے غربت کو کم کرنا ضروری ہے۔ سماجی تحفظ کے ایسے پروگرامز بنائے جائیں جن سے بچوں پر مثبت اثرات پڑیں۔ غربت کی وجہ سے حکومت لازمی سماجی خدمات فراہم نہیں کر پاتی۔ اگر بچوں کی ضروریات کو سامنے رکھ کر سماجی تحفظ کا پروگرام بنایا جائے تو بچوں پر اثر انداز ہونے والی غربت، سماجی علیحدگی اور بیرونی صدمات میں کمی ہو گی۔ بچوں کی اموات کا بڑا سبب غذائیت کی کمی ہے ،جس پر اب حکومت نے توجہ دینا شروع کی ہے۔ غریبوں کے لئے سوشل سیفٹی نیٹ بنائے جا رہے ہیں ، جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام۔

صحت کا حق

پاکستان میں بچوں کا صحت کا حق شروع میں ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے، کیونکہ ہر چھ بچوں میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے۔ ان اموات کا سبب عام طور پر غذائیت کی کمی اور پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی ہے۔ پاکستان میں بچوں میں سوکھے کی بیماری عام ہے۔ تیس فی صد بچوں کا وزن صحت کے معیار سے کم ہے یعنی وہ انڈر ویٹ ہیں۔ پچاس فی صد بچوں کی صحیح نشوونما نہیں ہو پاتی۔ یعنی انہیں سوکھے کا مرض ہوجاتا ہے۔ نو فی صد بچے کمزور رہ جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں صحت کی سہولتوں تک رسائی حاصل کرنا ایک چیلنج ہے اور اکثر گھرانے علاج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ بار بار آنے والی آفات سے بھی لوگوں کی صحت اور انفرا سٹرکچر پر برا اثر پڑتا ہے۔

ہمارے گیارہ ملین سے زیادہ بچے اجرت پر گھروں میں یا کھیتوں میں زرعی کام یا ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کام کرتے ہیں ،جس کا ان کی صحت پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔ انہیں اکثر سانس کی بیماری، بصارت کی کمزوری اور ریڑھ کی ہڈی کی ساخت بگڑنے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکتوبر 2022میں خیبر پختونخواہ، بلوچستان، گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر میں بچوں کو ٹائیفائیڈ سے بچائو کے ٹیکے لگانے کی مہم چلائی گئی،جب کہ ستمبر 2022 میں پانچ سے گیارہ سال کی عمر کے بچوں کو کرونا وائرس سے بچائو کے ٹیکے لگانے کی مہم چلائی گئی۔

تعلیم کا حق

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25 Aتعلیم کوحق قرار دیتا ہے اور پانچ تا سولہ سال کی عمر کے بچوں کو لازمی اور مفت تعلیم فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ پاکستان میں تعلیم کی صورتحال پہلے سے بہتر ہوئی ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ سے سولہ سال کی عمر کے 22.8ملین بچے جو پاکستانی بچوں کی کل تعداد کا چوالیس فی صد ہیں، اسکول نہیں جا پاتے جنہیں آئوٹ آف اسکول چلڈرن کہا جاتا ہے۔

5سے 9سال کی عمر کے پانچ ملین بچوں کا اسکولوں میں داخلہ نہیں ہو پاتا۔دس سے چودہ سال کی عمر کے 11.4ملین بچے رسمی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ سندھ میں باون فی صد غریب ترین بچے جن میں لڑکیوں کی تعداد اٹھاون فی صد ہے،جو اسکولوں سے باہر ہیں، جب کہ بلوچستان میں 78فی صد لڑکیاں اسکولوں سے باہر ہیں، کوئی 10.7ملین لڑکے اور 8.6ملین لڑکیاں پرائمری اسکولوں میں داخلہ لیتی ہیں لیکن لوئر سکنڈری سطح پر پہنچنے تک یہ تعداد کم ہو کر 3.6ملین لڑکے 2.8ملین لڑکیاں رہ جاتی ہیں۔

پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں نجی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بروکنگس اسکول کی حنا سلیم کی ریسرچ بڑے بچوں کے اسکول سے باہر رہنے کے متعلق ہے۔انہوں نے دی سٹیزنس ایجوکیشن میں بھی کام کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ’’ اسکول سے باہر رہ جانے والے بچوں میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے‘‘۔ظاہر ہے اس کا تعلق صنفی امتیاز سے ہے۔ اسکول نہ بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی شادیاں جلد ہو جاتی ہیں اور وہ کم عمری میں ہی مائیں بن جاتی ہیں۔ کرونا اور 2022 کے سیلاب نےغربت میں اضافہ کیا اور مزید بچے تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں۔صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔صحت کی جو چھوٹی موٹی سہولتیں دیہات میں موجود تھیں وہ بھی ختم ہو گئیں۔

2022میں سیلاب سے پہلے ہی اسکولوں میں داخلے میں 13% صنفی فرق موجود تھا۔اس امتیاز کے حوالے سے پاکستان کو چوتھا بد ترین ملک قرار دیا جا چکا ہے۔ صنفی تعصب کی وجہ سے تعلیم کا شعبہ بھی شکار رہتا ہے۔انسانی ترقی کے گرو امرتیا سین کے مطابق ،اگر ہم دنیا میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو تعلیم کے میدان سے باہر رکھیں گے توناانصافی بڑھے گی اور دنیا زیادہ غیر محفوظ ہو جائے گی۔لڑکیوں کی تعلیم اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ،اگر آپ ایک مردکو تعلیم دیتے ہیں تو آپ ایک فرد کو تعلیم دیتے ہیں لیکن ایک عورت کو تعلیم دیتے ہیں تو پوری قوم کو تعلیم دیتے ہیں‘‘

اب دنیا بھر میں اس بات کو تسلیم کیا جا رہا ہے کہ انتظامی اور پیشہ ورانہ مہارتوں کو بھی بچوں کی تعلیم کا لازمی جزو بنانا چاہئیے۔ بچوں کو بنیادی خواندگی اور گنتی کے ساتھ سماجی ، جذباتی مہارتیں اور ڈیجیٹل مہارتیں بھی سکھانی چاہئیں۔

اگر ہم پاکستان کے چاروں صوبوں کا تقابلی جائزہ لیں تو اسکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کے معاملے میں بلوچستان کا سب سے برا حال ہے، جہاں 44فی صد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ سولہ سال کی عمر کے اسکول نہ جانے والے بچوں میں سے 64 فی صدبچے وہ ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔ 

لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے کہیں زیادہ ہے۔54 فی صد لڑکیاں اور46فی صد لڑکے اسکولوں سے باہر ہیں۔ دوسرے نمبر پر سب سے کم خواندگی کی شرح سندھ میں ہے۔ سندھ میں اسکول جانے کی عمر کے 63فیصد بچے وہ ہیں جنہوں نے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔ انتیس اضلاع میں سے تیرہ اضلاع میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد پچاس فی صد ہے۔

شناخت کا حق

پاکستان میں ایسے بہت سے بچے ہیں جن کے وجود کو قانون تسلیم نہیں کرتاکیونکہ پیدائش کے وقت سرکاری ریکارڈ میں ان کا اندراج نہیں ہوا تھایعنی وہ’’نظر نہ آنے والے بچے‘‘ ہیں۔ کوئی ستر فی صد ڈلیوریز کا سرکاری حکام اندراج نہیں کرتے۔ برتھ رجسٹریشن ایک بنیادی حق ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بچے کے نام ،والدین، قومیت اور عمر کا پتہ چلتا ہے۔

چائلڈ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ CRCکو بے فارم بھی کہتے ہیں۔ یہ اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کا رجسٹریشن ڈاکیومنٹ ہے۔ یونین کونسل میں بچے کی پیدائش کا ثبوت دکھا کر یہ سرٹیفکیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ والدین کے پاس اپنا شناختی کارڈ ہونا ضروری ہے۔ پیدائش کی رجسٹریشن ایک عالمگیر حق ہے جس کی وجہ سے بچے کو اپنے ملک میں ضروری خدمات، تحفظ اور شناخت کی دیگر شکلوں تک رسائی ملتی ہے لیکن پاکستان اور دنیا بھر میں بہت سے بچے اس حق سے محروم رہتے ہیں۔ پاکستان میں غیرسرکاری تنظیموں نے بچوں کے لئے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ اور بڑوں کے لئے شناختی کارڈز بنوانے کے لئے کامیاب کوششیں کی ہیں۔حکومت کی طرف سے بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام کے لئے شناختی کارڈ کی شرط رکھی گئی ہے۔

بچوں کو درپیش چیلنجز

غربت، غذائیت کی کمی اور پانی تک رسائی خاطر خواہ غذائیت اور پانی کی مسلسل فراہمی بچے کی نشوونما کے لئے ضروری ہے۔اسی طرح اگر حمل یا دودھ پلانے کے دوران ماں غذائیت میں کمی کا شکار ہو گی تو بچے پر اس کا برا اثر پڑے گا۔ آئی ایم ایف ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق پانی کی قلت کے لحاظ سے پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ہر روز گیارہ ہزار پاکستانی بچے ڈائریا اور پانی کی کوالٹی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے نتیجے میں مر جاتے ہیں۔ کم غذائیت کی وجہ سے پاکستان میں تیس فیصد بچے انڈر ویٹ ہیں۔پچاس فی صد بچے سوکھے کی بیماری کا شکار ہیں۔

عالمی ماہرین نے 2021 میں یہ تخمینہ لگایا تھا کہ 2022میں پانچ سال سے کم عمر کے بیس لاکھ بچے بھوک اور غذائیت میں کمی کے سبب مر جائیں گے۔بھوک کے لئے ابھی تک کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی، مگر ترقی یافتہ ممالک اور خود پسماندہ، ترقی پذیر ممالک کا حکمراں طبقہ چاہے تو بھوک اور غربت کا حل نکال سکتا ہے۔

والدین کا سماجی و اقتصادی مرتبہ اور بچوں پر اس کے اثرات 

پاکستان میں شہریوں کی اکثریت کی آمدنی دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق 2021-2022کے مالیاتی سال میں پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی بڑھ کر 1798ڈالر ہو گئی یعنی پچھلے سالوں کے مقابلے میں کچھ اضافہ ہو ہے۔ لیکن 2022 کی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب نے پھر معیشت کا برا حال کر دیا، جس کی زد میں بچے زیادہ ہے۔

موسمیاتی تبدیلیاں

بچوں کی زندگیاں آج اور مستقبل میں بھی موسمیاتی بحران کی وجہ سے خطرے سے دو چار ہیں۔ گذشتہ تیس سالوں میں موسمیات سے متعلق آفات میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ اب ہر بچے کو ورثے میں ایک ایسی دھرتی ملے گی جس میں انتہائی شدید قسم کی موسمی آفات جلد جلد آئیں گی،کیونکہ ماضی کی نسلیں ان کے حقوق اور مستقبل کی حفاظت نہیں کر پائیں۔

محفوظ گھر اور برادری میں رہنے کا حق،صحت، خوراک اور علم حاصل کرنے کا حق سب موسمیاتی بحران کی وجہ سے خطرے میں پڑ گئے ہیں۔2022کی بارشیں اور سیلاب بھی اسی موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ تھے۔ وقت آ گیا ہے کہ عالمی رہنما اس مسئلے پر توجہ دیں ،کیونکہ بچوں کی زندگیاں اور مستقبل خطرے میں ہے۔

بچپن کی شادی پر پابندی کے قانون کی خلاف ورزیاں 

2022کے سیلاب کا ان لوگوں پر بہت برا اثر پڑا جو پہلے سے ہی غربت کی چکی میں پس رہے تھے۔ بچپن کی شادی پر پابندی کے قانون پر پہلے ہی پوری طرح سے عملدرامد نہیں ہو رہا تھالیکن سیلاب کی وجہ سے بے گھری اور بے دری نے لوگوں کو پورے طور پر اس قانون کی طرف سے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر دیا اور سیلاب زدہ افراد کے کیمپوں میں ہی لوگ عدم تحفظ اور غربت کی وجہ سے بچوں کی شادیاں کرنے لگے۔اس سے پہلے بھی پاکستان میں ہونے والی مجموعی شادیوں میں 32فی صد شادیاں بچوں کی ہوتی رہی ہیں۔(حوالہ:ہیومینیم)

2022میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات

ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق2022کی پہلی ششماہی میں ہر روز بارہ بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے۔ بچوں کے ساتھ ہونے والے واقعات میں جنسی زیادتی، اغوا، گم شدگی اور بچپن کی شادیا ں شامل ہیں۔ جنوری تا جون 2022 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے1170کیسز، اغوا کے 803 کیسز، گمشدگی کے 212واقعات اور بچپن کی شادیوں کے 26واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان کیسز میں متاثرہ بچوں میں سے 1207لڑکیاں(55%)اور 1004 لڑکے (45%) تھے۔

سال کے ابتدائی چھ مہینوں میں 567لڑکے سوڈومی یا غیر فطری جنسی عمل/ اجتماعی جنسی عمل/پورنوگرافی کا نشانہ بنے یا اغوا ہوئے۔ جب کہ 551 لڑکیاں ریپ، گینگ ریپ، پورنوگرافی، اغوا یا قتل جیسے واقعات کا شکار بنیں۔ابتدائی چھ ماہ میں پورنوگرافی کے 59کیسز اور اور خونی رشتوں یا قریبی محرمات کے ساتھ بدفعلی کے 17کیسز رپورٹ ہوئے۔

اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھ سے پندرہ سال کی عمر کے بچے سب سے زیادہ زیادتی کا شکار ہوئے۔زیادتی کے چھیالیس فی صد کیسز میں مجرم جان پہچان والے لوگ تھے جب کہ اٹھارہ فی صد اجنبی ان جرائم کے مرتکب ہوئے اور نو فی صد کیسز میں اجنبی اور جان پہچان والے افراد نے مل کر زیادتی کی۔1050کیسز میں جان پہچان والے افراد ملوث تھے۔

تنظیم برائے پائیدار سماجی ترقی کے مطابق اگست 2022 میں پاکستان بھر میں سب سے زیادہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور عورتوں کے اغوا اور ان پر جسمانی حملے اور گھریلو تشدد کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 114 کیسز رپورٹ ہوئے۔ اگست میں 17بچوں کو قتل کر دیا گیا۔

یہ ہے مختصر حال صورت حال بچوں کی کہ 2022ء میں ان پر کیا کچھ بیتا۔ کیا 2023ء ان کے لیے خوش کن ثابت ہوگا؟ بہ ظاہر اس کا جواب بھی نفی میں ہی نظر آتا ہے۔ اللہ کرے سب کچھ اچھا ہو۔

کچھ ستارے چمکے بھی

2022 میں کچھ اچھی باتیں بھی ہوئیں۔ دس پاکستانی بچوں نے دوہا میں ہونے والے اسٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ میں حصہ لیا یہ اس سیریز میں پاکستان کی تیسری مرتبہ شرکت تھی۔ 2018 میں پاکستان کی ٹیم فائنل میں پہنچ گئی تھی لیکن ازبکستان سے ہار گئی۔ اس مرتبہ خیبر پختونخواہ کا سولہ سالہ ساحل خٹک بھی شامل تھا جو چائے کے کھوکھے پر روزانہ اجرت پر کام کر کے اپنے خاندان کی کفالت کرتا ہے۔ ساحل خٹک اس دس رکنی ٹیم میں گول کیپر تھا ، باقی فٹبالر بچوں کا تعلق بلوچستان، پنجاب، گلگت اور بلتستان سے تھا۔کھیل کے علاوہ ڈراموں میں بھی پاکستانی بچوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔

امریکہ کا لیبر بیورو ایک پاکستانی بچے اقبال مسیح کے نام پر ہر سال ایک ایوارڈ دیتا ہے۔اسے چار سال کی عمر میں قالین بافی کے لئے بانڈڈ لیبر کے طور پر بیچ دیا گیا تھا۔دس سال کی عمر میں وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوا اور بچوں کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے لگا۔1994میں اسے ریبوک ہیومن رائٹس ایوارڈ دیا گیا لیکن ایک سال بعد ہی اسے قتل کر دیا گیا۔اس کے نام سے ایوارڈ کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔