شہر کراچی اپنی گوناگوں معاشی ‘ صنعتی‘ تعلیمی‘ تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے سبب دنیا بھر میں اپنی ایک نمایاں شناخت رکھتا ہے۔ اپنی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارہواں بڑا شہر ہے۔ دنیا کے 78ملکوں کی مجموعی آبادی اس شہر کی آبادی سے کم ہے۔ یہ شہر مملکت پاکستان کی سیاسی‘ معاشرتی‘ معاشی اور اقتصادی ترقی کا روح رواں ہے۔ پاکستان کا سابقہ دارالحکومت ‘ صوبہ سندھ کا موجودہ صدر مقام‘ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور قائد اعظم کی آخری آرام گاہ ہونے کا شرف بھی اس شہر کو حاصل ہے۔
بلدیہ کا 176سالہ ، کراچی کا 75سالہ سفر، مختصر جائزہ
برصغیر پاک و ہند میں بلدیاتی نظام کی ابتداء جن شہروں سے ہوئی کراچی ان میں سے ایک ہے۔ یہاں 176سال سے زیادہ عرصہ سے بلدیاتی نظام قائم ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف ادوار میں 7بلدیاتی نظام نافذ کیے گئے۔17فروری 1843ء کو سندھ پر انگریزوں کے قبضے سے قبل لیفٹیننٹ جنرل سر چارلس نیپئر کی قیادت میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا اورسر چارلس نیپئر سندھ کے گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
انہوں نے گورنر مقرر ہونے کے بعد سندھ کے شہر حیدرآباد کے بجائے کراچی کو سندھ کا دارالحکومت قرار دیا۔ اس دوران 1846ء میں جب کراچی کی آبادی تقریباً 14ہزار افراد پر مشتمل تھی ، ہیضے کی بیماری پھیلی جس کی وجہ سے کئی شہریوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس بیماری پر قابو پانے کے لیے اور حالات بہتر کرنے کے لیے بنگال کنزروینسی ایکٹ مجریہ 1842کی طرز پر 1846ء میں کنزروینسی ایکٹ نافذ کیاگیا اور کراچی بورڈ آف کنزروینسی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ادارے کو کراچی میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے ابتدائی ادارہ مانا جاتا ہے۔ 1847ء میں سندھ بشمول کراچی کو بمبئی پریذیڈینسی میں شامل کر دیا گیا اور سندھ میں انتظامی امورچلانے کے لیے گورنر کی جگہ کمشنر ان سندھ کا عہدہ قائم کیا گیا۔
رابرٹ کیتھ پرنگل کو پہلا کمشنر ان سندھ مقرر کیا گیا۔ وہ اکتوبر 1847ء سے دسمبر 1850ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران ایمپیرئیل ایکٹ مجریہ 1850نافذ ہوا۔ یہ برصغیر پاک و ہند میں پہلا بلدیاتی قانون تھا جو باقاعدہ طور پر نافذ کیا گیا۔ 1873ء میں بمبئی ڈسٹرکٹ مجریہ 1873ء نافذ کیا گیا۔ 1878ء میں اس کا دائرہ سندھ بشمول کراچی تک بڑھا دیا گیا۔ بعد ازاں 1884ء میں بمبئی ڈسٹرکٹ ایکٹ مجریہ 1873ء کی جگہ بمبئی ڈسٹرکٹ میونسپل ایکٹ مجریہ 1901ء نافذ ہوا جو 1933ء تک کراچی میں نافذ العمل رہا۔
اس دوران کراچی کا ترقیاتی سفر اور بلدیاتی نظام کا ارتقاء جاری رہا۔ کراچی نے سبک رفتاری کے ساتھ مائی کولاچی سے جدید کراچی کی طرف اپنا سفر جاری رکھا ۔1947ء میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو یہاں بلدیاتی نظام پہلے سے موجود تھا اس وقت کراچی کی آبادی 3لاکھ کے قریب تھی۔ بنیادی سہولتیں میسر تھیں ۔ ہر صبح کراچی کی سڑکوں کو دھویا جاتا تھا۔ شام گئے روشنی کے لیے مٹی کے تیل سے چراغ روشن کیے جاتے تھے ۔ سڑکوں پر بگھی‘ گھوڑا گاڑی‘ اونٹ گاڑی کے ساتھ ساتھ ٹرام سروس اور بسوں کا نظام بھی نافذ تھا۔
1933ء میں جو کراچی میونسپل ایکٹ نافذ کیا گیا وہ قیام پاکستان کے بعد 1959ء تک نافذ رہا۔ اس ایکٹ کے تحت کراچی کے شہری بلدیاتی سہولتوں سے استفادہ کرتے رہے گوکہ قیام پاکستان کے بعد اس قانون میں متعدد ترامیم کی گئیں لیکن وہ شہریوں کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے تھیں۔ 1959ء میں پاکستان میں پہلی بار بنیادی جمہوریت کا نظام قائم کیا گیا اور اس پر عملدرآمد کے لیے میونسپل ایڈمنسٹریشن آرڈیننس مجریہ 1960ء نافذ ہوا، جو 15جون 1971ء تک نافذ العمل رہا۔ 1972ء میں سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس مجریہ 1972ء نافذ ہوا ،اس کے بعد سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ آرڈیننس 1979ء لایا گیا۔
یہ ایکٹ ایک طویل عرصہ نافذ العمل رہا ،اور اس کے تحت چار بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ اس کے بعد سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس مجریہ 2001ء نافذ ہوا جو 30جون 2013ء تک برقرار رہا اور ایک بار پھر 1979ء کا ایکٹ سندھ اسمبلی کے ذریعے نافذ کیا گیا لیکن اس میں رد و بدل کر کے اس بلدیاتی ایکٹ کو 2013ء کا نام دیا گیا، جس کے تحت 5 دسمبر 2015ء کوکراچی میں بلدیاتی انتخابات عمل میں لائے گئے۔
3مارچ1936ء کو برطانیہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت یکم اپریل 1936ء کو سندھ کو ممبئی ریذیڈنسی سے علیحدہ کر کے اسے صوبے کی حیثیت دے دی گئی۔ 1939ء میں کراچی میں میئرز کانفرس کا انعقاد کیا گیا جس میں برما ‘ انڈیا اور دوسرے ملکوں کے میئرز نے شرکت کی۔ یہ کراچی میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد کانفرنس تھی۔ دوسرے ملکوں سے آنے والے میئرز نے کراچی کی ترقی کو سراہا اور شہریوں کے لیے نیک خواہشات کا بھی اظہار کیا۔ 1941ء میں ایک بار پھر مردم شماری کرائی گئی، جس کے مطابق کراچی کی آبادی 386655 قرار پائی۔
1945ء میں سندھ ایکٹ XII مجریہ 1945ء کے ذریعے کراچی میونسپل ایکٹ میں ایک ترمیم کے تحت کراچی میونسپل کارپوریشن کی از سر نو تشکیل کی گئی۔ اس کے ممبران کی تعدادجو 1933میں 57مقرر کی گئی تھی اسے بڑھا کر 73کر دیا گیا۔ اس نوتشکیل شدہ کونسل کے لیے مارچ ‘اپریل 1946ء میں انتخابات کا انعقاد کیا گیا اور یکم مئی 1946ء میں کونسل نے کام کرنا شروع کر دیا۔ 9مئی 1947ء کو حکیم محمد احسن کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئرمنتخب ہوئے۔
پاکستان کے قیام کے بعد کراچی کو پاکستان کا دارالخلافہ قرار دیا گیا۔ کراچی بحیرہ عرب کے کنارے آباد پاکستان کا سب سے بڑا شہر‘ مشرقی پہلی بندرگاہ اور ایک عام صنعتی و تجارتی مرکز کے طور پر سامنے آیا۔ ماضی میں کراچی کو ملکۂ مشرق کے خوبصورت نام سے موسوم کیا گیا کیوںکہ یہ شہر قدرتی بندرگاہ ‘ نفاست اور صفائی‘ عمارتوں کی خوبصورتی سڑکوں کی کشادگی‘ شاہراہوں کی خوشنمائی اور ساحل سمندر کی دلربائی کے باعث سیاحوں کا مرکز نگاہ ٹھہرا۔
اس کے جنوب مشرق میں ضلع ٹھٹھہ‘ مغرب میں ضلع لسبیلہ‘ شمال میں ضلع دادو ا ور جنوب میں بحیرہ عرب کراچی کے مغرب میں حب ندی ہے جو کراچی کو ضلع لسبیلہ سے جدا کرتی ہے۔ کراچی کا شہری علاقہ قیام پاکستان کے وقت کل 233اسکوائر کلومیٹر تھا جو 1959ء میں بڑھ کر 724اسکوائر کلومیٹر ہوگیا،جبکہ اب کراچی کا رقبہ 3365اسکوائر کلومیٹر سے زیادہ ہے جس میں سے 1800کلومیٹر سے زائد شہری علاقہ شامل ہے۔
قیام پاکستان کے وقت حکیم محمد احسن کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے بحیثیت میئر کراچی ایئرپورٹ پر بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا استقبال کیا۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ 1933ء کے ایکٹ کے تحت میئر کے عہدے کی مدت ایک سال مقرر تھی۔ اس وقت کراچی میں مسلمان ‘ ہندو اور پارسی رہائش پذیر تھے اور یہ طے کیا گیا تھا کہ ایک سال میئر پارسی‘ ایک سال ہندو اور ایک سال مسلمان ہوگا۔
1947ء میں حکیم محمد احسن جو ا س وقت کے میئر تھے انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ بلدیہ کراچی کی جانب سے 25 اگست 1947 ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کو شہری استقبالیہ دیا جس میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر انہوں نے بلدیہ کو درپیش خاص خاص مسائل بھی قائد اعظم کے سامنے پیش کیے۔
انہوں نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میونسپل کارپوریشن حکومت کی امداد سے محروم رہی ہے اس لیے ضروری ہے کہ مالی مدد کی جائے تاکہ بلدیہ اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہوسکے۔ رئیس بلدیہ نے کہا کہ کراچی کی بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظر سرکاری تقریبات میں رئیس بلدیہ کو مناسب مقام دیا جائے۔ رئیس بلدیہ کا یہ سپاس نامہ اپنے محبوب قائد اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل سے بلدیہ کراچی کے اختیارات میں توسیع کا مطالبہ تھا۔ اس کے بعد بھی آنے والے میئر کراچی انہی اختیارات کا مطالبہ کرتے رہے۔
قائد اعظم نے شہری استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی معمولی شہر نہیں ہے۔ قدرت نے اسے نادر خصوصیات سے نوازا ہے جو اس زمانے کی ضروریات و حالات کے لیے قطعاً موزوں ہیں۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب کراچی کا شمار دنیا کے بہترین عروس البلاد میں ہوگا۔ اس کا ہوائی اڈّہ اور بندرگاہ کی ہی نہیں خود شہر بھی قابل دید ہوگا۔ ایک خصوصیت اس شہر کی یہ ہے کہ دوسرے شہروں کی طرح یہاں گنجان آبادی اور فلک بوس عمارات کی وجہ سے آدمی کا دل نہیں گھٹتا۔
کراچی ایک وسیع اور کشادہ شہر ہے‘ یہاں کھلے میدان کافی ہیں۔ مجھے کراچی کا مستقبل انتہائی شاندار نظر آتا ہے اس لیے یہاں تعمیر و ترقی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بلدیہ کراچی کے اختیارات میں اضافہ اور امداد دینے کا وعدہ کیا۔ 25مئی 1948ء کو جناب غلام علی الانہ کراچی کے میئر منتخب ہوئے اور 8جولائی 1948ء تک میئر کے عہدے پر فائز رہے۔
قیام پاکستان کے بعد ہندو برادری کی اکثریت کراچی سے بھارت منتقل ہوگئی جس کے باعث کراچی میونسپل کارپوریشن کی منتخب کونسل کی افادیت تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ اس لیے 8جولائی 1948ء کو یہ فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میونسپل کارپوریشن کی منتخب کونسل کو ختم کر دیا جائے۔ 1933ء کے ایکٹ کے سیکشن280(2)کے تحت حکومت نے کراچی میونسپل کارپوریشن اور اسٹینڈنگ کمیٹی کے فرائض انجام دینے کے لیے کسی بھی شخص کا تقرر اور ان کی معاونت کے لیے ایک ایڈوائزری کمیٹی قائم کرنے کی مجاز تھی
چنانچہ حکومت نے 20جولائی 1948ء کو حکیم محمد احسن ہی کی سربراہی میں جو اس سے قبل میئر کراچی کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے ایک ایڈوائزری کمیٹی قائم کی اور 23جولائی 1948ء کو کارپوریشن اور اسٹیڈنگ کمیٹی کے فرائض انجام دینے کے لیے جناب اے اے انصاری کو میونسپل کمشنر مقرر کیا، جنہوں نے یکم نومبر 1950ء تک اس عہدے پر اپنے فرائض انجام دیے۔ 27فروری 1949ء کو جناب غلام علی الانہ ایڈوائزری کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہوئے اور16اکتوبر 1952ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
یکم نومبر 1950ء کو جناب آر اے ایف ہائورائیڈ (Mr. R.A.F. Howoroyd) جو سی ایس پی سروس سے تعلق رکھتے تھے، میونسپل کمشنر مقرر کیا گیا،وہ 28مئی 1953ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جناب حاتم اے علوی نے 27اکتوبر 1952ء کو ایڈوائزری کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا اور 11اپریل 1953ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ قیام پاکستان کے بعد منعقد ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات سے قبل وارڈز کی تعداد جو 199کے ایکٹ کے نفاذ کے وقت 8تھی، جو بڑھ کر 28 ہوگئی تھی اور ممبران کی تعداد 57سے بڑھ کر 100ہوگئی تھی۔
1953ء میں کراچی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے بلدیاتی انتخابات ہوئے اور فروری 1954ء میں 100 کونسلروں پر مشتمل پہلی منتخب کارپوریشن قائم کی گئی ۔ محمود اے ہارون میئر اور محمد حبیب اللہ کو ڈپٹی میئر منتخب کیا گیا۔ 26مئی 1955ء کو ملک باغ علی میئر منتخب ہوئے اور 29مئی 1956تک میئر کے عہدے پر فائز رہے۔ 29مئی 1956ء کو صدیق وہاب کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر منتخب ہوئے اور 14دسمبر1956ء تک میئر کے عہدے پر فائز رہے۔
اسی روز بلدیہ کی منتخب کونسل کو ختم کر دیا گیا اور 15دسمبر1956ء کو حکومت نے جناب الطاف گوہر کلکٹر و ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کراچی کو میونسپل کمشنر کے عہدے پر مقرر کیا۔ 21جنوری 1957ء تک وہ اس عہدے پر رہے۔ حکومت نے جناب سردار اے کے گبول کی چیئرمین شپ میں 15دسمبر 1956ء کو ایک پندرہ رکنی ایڈوائزری کمیٹی بنائی تاکہ وہ بلدیہ کے مختلف امور پر مشاورت کے ساتھ ساتھ ان کی نگرانی بھی کرے۔
مقامی حکومت کے قیام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دیہات ہو یا شہر ‘ قصبہ ہو یا محلہ علاقے کے لوگ اپنے اپنے مقامی مسئلے مقامی سطح پر حل کریں۔ اس مقصد کے لیے علاقے کے کچھ لوگ جو سب کی پسند ہوں چُنے جائیں، مل بیٹھ کر ان مسئلوں کو خوش اسلوبی سے حل کریں، ایسی کسی تنظیم یا ادارے کو لوکل گورنمنٹ سے متعلق ادارہ کہہ سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس ادارے کو بار بار ختم کیا گیا جس کی وجہ سے بلدیاتی اداروں کا تسلسل قائم نہ رہ سکا اور مقامی مسائل مقامی سطح پر حل نہ ہوسکے۔ 12جون 1958ء کو منتخب کونسل ایک بار پھر قائم کی گئی۔
ایس ایم توفیق میئر اور جناب جمیل احمد ڈپٹی میئر منتخب ہوئے۔ ممبران کی تعداد 100رکھی گئی ۔7اکتوبر 1958ء کو مملکت پاکستان میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا اوراسی سال 13اکتوبر 1958ء کو ایک بار پھر منتخب کونسل کو ختم کر دیا گیا۔
1933ء کے ایکٹ کے تحت جناب ایس ایم توفیق باقاعدہ منتخب ہونے والے آخری میئر تھے۔اس ایکٹ کے تحت کراچی میونسپل کارپوریشن کے 15میئر منتخب ہوئے۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد کراچی سٹی میونسپل ایکٹ مجریہ 1933ء کے تحت قائم بلدیاتی نظام کا 25سالہ دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ کراچی کی بلدیاتی تاریخ کا ایک اہم اور سنہری دور تھا۔
1947ء سے 1958ء تک منتخب ہونے والے میئر ۔
1۔ حکیم محمد احسن 1947ء
2۔ غلام علی الانہ 1948ء
3۔ محمود اے ہارون 1953ء
4۔ ملک باغ علی 1955ء
5۔ صدیق وہاب 1956ء
6۔ ایس ایم توفیق 1958ء
1959ء میں پاکستان میں بنیادی جمہوری نظام ایکٹ مجریہ 1959ء کے توسط سے ایک بار پھر نئے بلدیاتی نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ اس ایکٹ کے تحت بلدیاتی انتخابات کے لیے 11اپریل 1960ء کو میونسپل ایڈمنسٹریشن آرڈیننس مجریہ 1960ء نافذ کیا گیا۔ اس آرڈیننس کے تحت 1960ء میں ہونے والے پہلے انتخاب میں دونوں صوبوں مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کو برابر کی بنیاد پر نمائندگی دیتے ہوئے چالیس ‘ چالیس ہزار یعنی پورے ملک میں 80ہزار بی ڈی ممبر منتخب کیے گئے۔
کراچی میں 94 یونین کمیٹیوں کے پہلے مرحلے پر شہریوں نے اپنے اپنے علاقوں سے بی ڈی ممبر منتخب کئے۔ اس کے بعد بی ڈی ممبران نے اپنی اپنی یونین کمیٹیوں کے لیے چیئرمین منتخب کیے اس طرح 94یونین کمیٹیوں کے لیے 94چیئرمینوں کا انتخاب کیا گیا۔ بعد میں بی ڈی ممبران نے بلدیہ کراچی کی رکنیت کے لیے یونین کمیٹیوں کے 94 چیئرمینوں میں سے 30گروپ چیئرمین کو منتخب کیا۔ حکومت کی جانب سے بھی 24ارکان کو نامزد کیا گیا۔ دو خواتین اور دو اقلیتی ارکان کا انتخاب بھی کیا گیا۔اس انتخاب میں چیئرمین کے عہدے پر حکومت کا نامزد کردہ سرکاری افسر جبکہ وائس چیئرمین ‘خواتین اور اقلیتی ارکان کی دو‘ دو نشستوں پر بلدیہ کراچی کے ارکان انتخاب کیا کرتے تھے۔
1960ء میں بلدیہ کراچی میں پانچ کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں ان میں تعلیمی و سماجی بہبود کمیٹی‘ صحت کمیٹی‘ پلاننگ و ڈیویلپمنٹ کمیٹی‘ تعمیرات اور مارکیٹنگ کمیٹی اور مالیات کمیٹی شامل تھیں۔ 1960ء کے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی بلدیہ کونسل کے لیے حکومت نے جناب ممتاز احمد کو چیئرمین کی حیثیت سے نامزد کیا۔ یہ بلدیہ کراچی کے پہلے چیئرمین تھے جو اس عہدے پر 1960ء تک فائز رہے۔ بلدیاتی کونسل بی ڈی چیئرمینوں پر مشتمل تھی۔ بی ڈی نظام کے خاتمے کے بعد بلدیاتی نظام ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوگیا۔ بلدیہ کراچی کے انتظامی ڈھانچے پر ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر کیا جاتا رہا۔ 2مارچ 1961ء کو مسلم عائلی قوانین کا مجریہ 1961ء نافذ ہوا۔
یونین کمیٹیوں کے چیئرمینوں کو بالحاظ عہدہ عائلی قوانین کے تحت طلاق کے نفاذ سے قبل فریقین کے نمائندوں کو مصالحت کی ترغیب اور ناکامی کی صورت میں 90دن بعد طلاق کے مؤثر ہونے پر پہلی بیوی کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کو جرم قرار دینے اور خلاء سے متعلق اختیارات تفویض کیے گئے۔ مصالحتی عدالتوں کے آرڈیننس مجریہ 1961ء کا اجراء ہوا جو یکم مارچ1962ء سے نافذ کیا گیا۔
اس آرڈیننس کے تحت کچھ عدالتی اختیارات بھی کونسلرز کو تفویض کیے گئے۔ میونسپل ایڈمنسٹریشن ترمیمی ایکٹ مغربی پاکستان 1965ء کے تحت میونسپل کمیٹیوں میں سرکاری ارکان کی تقرری کا طریقہ کار ختم کرتے ہوئے 94یونین کمیٹیوں کے چیئرمین کو بلدیہ کا رکن قرار دے دیا گیا۔ میونسپل آرڈیننس مجریہ 1960ء کے تحت دوسرے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا اور بلدیہ کراچی کے 103ارکان پر مشتمل کونسل معرض وجود میں لائی گئی۔
حکومت کی جانب سے سرکاری اداروں کے افسران کو بالحاظ عہدہ کراچی میونسپل کارپوریشن کے سرکاری ممبران بھی نامزد کیے گئے۔ ان میں کراچی کے 24مختلف ادارے شامل تھے۔ 1966ء میں بلدیہ عظمیٰ کراچی میں چھ کمیٹیوں کا انتخاب عمل میں لایا گیا ان میں مالیات‘ تعلیم اور سماجی بہبود‘ پلاننگ و ڈیویلپمنٹ‘ صحت عامہ‘ تعمیرات اور متفرق کاموں کی کمیٹیاں شامل تھیں۔
25مارچ 1959ء کو ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں کو ختم کردیا گیا لیکن 1959ء کے تحت قائم ہونے والے بلدیاتی نظام کو برقرار رکھا گیا۔ 15جون 1971ء کو بنیادی جمہوریت ایکٹ مجریہ1959ء کے تحت قائم ملک کی تمام منتخب کونسلوں کو ختم کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی بنیادی جمہوریت کے نظام کا ایک بار پھر خاتمہ ہوگیا۔ 1960ء سے 1971ء تک حکومت کی جانب سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے صدر نشین یا چیئرمین مقرر کیے گئے۔
1979ء میں ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کروائے گئے اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کی 145عام نشستوں کا انتخاب ہوا۔ 21مخصوص نشستوں میں سے 8خواتین کے لیے‘8ورکرز کے لیے اور 5غیر مسلموں کے لیے مخصوص تھیں۔ 9نومبر 1979ء کو میئر کراچی کا انتخاب ہوا اور آئندہ چار سال کے لیے عبدالستار افغانی میئر اور عمر یوسف ڈیڈھا ڈپٹی میئر منتخب ہوئے۔ 22ا کتوبر 1979ء کو منتخب ایوان کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔
شہر میں فراہمی و نکاسی آب کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے کے ایم سی نے اپنا ذیلی ادارہ ادارۂ فراہمی و نکاسی آب 1983ء میں قائم کیا۔ بلدیاتی نظام کے پہلے چار سالوں میں ترقیاتی کاموں کی رفتار بہت تیز رہی۔ شہر کے بڑے بڑے مسائل فراہمی و نکاسی آب ‘ سڑکوں کی تعمیر و ترقی‘ روشنی کے انتظامات‘ ناجائز تجاوزات کا خاتمہ‘ کچی آبادیوں کو مستقل کرنا‘ کھیلوں کے میدان اور تفریحی سہولتوں کی فراہمی نے شہری منتخب ادارے کی حیثیت واضح کردی کہ شہری مسائل کا حل مقامی منتخب ادارے کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد نئی کونسل وجود میں آئی اور مختلف ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا گیا۔ 1979ء میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کونسل کے منتخب ارکان پر مشتمل 15کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ ان میں مالیات کمیٹی‘ تعمیرات کمیٹی‘ صحت کمیٹی‘ سماجی ثقافتی اور کھیلوں کے امور سے متعلق کمیٹی‘ کچی آبادی کمیٹی‘انتظام اراضی کمیٹی‘ انتظام جائیداد کمیٹی‘ پانی و سیوریج کمیٹی‘ اطلاعات و تعلقات عامہ کمیٹی‘ قانونی معاملات ‘ اشیائے خوردنی کمیٹی‘ ایجوکیشن کمیٹی‘ رابطہ و نگرانی کمیٹی‘ انتظامی امور کمیٹی او رمتفرق امور سے متعلق کمیٹی بنائی گئی۔ 22اکتوبر 1979ء کو منتخب ایوان کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ 1979ء میں ہی کنٹونمنٹ کے علاقوں میں کنٹونمنٹ بورڈز قائم کیے گئے جو 5تا 25ارکان پر مشتمل تھے۔ بورڈ کے آدھے ارکان براہ راست بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کیے گئے جبکہ باقی آدھے ارکان حکومت کے نامزد کردہ تھے۔
اسٹیشن کمانڈر عہدہ کے لحاظ سے کنٹونمنٹ کا سربراہ بنایا گیا جبکہ نائب صدر کا انتخاب بورڈ کے ارکان کے ذریعہ کیا گیا۔ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس مجریہ 1979ء کے تحت ہونے والے پہلے انتخاب میں چارسال کی مدت کے لیے 168ارکان پر مشتمل کونسل وجود میں آئی ۔1981ء میں پنچائیتی نظام رائج کیا گیا، جس کے تحت ہر حلقہ سے بلدیہ کا منتخب رکن پنچائیت کا چیئرمین بھی تھا، جبکہ کونسل کی منظوری سے ہر حلقے میں دو ارکان پنچائیت نامزد کیے جاتے۔ اقلیتی ارکان بلدیہ بھی پنچائیت کا چیئرمین ہوتا تھا اور کونسل کی منظوری سے اقلیتی پنچائیت کے لیے دو ارکان نامزد کیے جاتے تھے۔ صوبہ سندھ وہ پہلا صوبہ تھا جہاں سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت کچھ عدالتی اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کو تفویض کیے گئے تاکہ لوگوں کو سستا اور جلد انصاف میسر آسکے۔
برصغیر پاک و ہند میں پہلی بار پنچائیوں کو یہ عدالتی ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس مجریہ 1979ء کے تحت قائم کیے ہوئے مقدمات کا فیصلہ کریں اس طرح سے کونسلر حضرات اور پنچائیت کے اراکین پر اپنے انتخابی حلقے میں بلدیاتی امور کے سلسلے میں دوہرے فرائض سونپے گئے۔پنچائیت کی تشکیل ‘ متعلقہ کونسلر اور کونسل کی جانب سے دو نامزد ارکان پر مشتمل تھی۔ حلقے کا کونسلر پنچایت کا چیئرمین تھا۔ اقلیتی برادری کے لیے علیحدہ پنچائیت بنائی گئی جس کا منتخب کونسلر چیئرمین اور اقلیتی برادری کی طرف سے دو اراکین لیے گئے۔
پنچائیت کے تقریباً پندرہ بلدیاتی فرائض ترتیب دئے گئے۔ 1981ء میں SLGO 1979 کے تحت دوسری بار بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اور تعداد 166سے بڑھا کر 232کر دی گئی۔ دوسری میعاد کے لیے کونسلروں کا انتخاب 29ستمبر 1983ء کو ہوا۔ 7نومبر 1983ء کو میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوا اور 14نومبر 1983ء کو منتخب ارکان نے اپنے عہدے سنبھال لیے۔ اس میعاد کے لیے ایک بار پھر عبدالستار افغانی کو میئر منتخب کیا گیا۔ ڈپٹی میئر کے لیے عبدالخالق اللہ والا منتخب ہوئے۔ اس بار خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد بڑھا کر 20اور مزدوروں یا ورکرز کی نشستیں 10کر دی گئیں۔اس طرح یہ نیا ایوان 232منتخب نمائندوں پر مشتمل تھا۔
میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کے دن کونسل کا پہلا اجلاس ہوا جس میں منتخب میئر عبدالستار افغانی نے اعلان کیا کہ وہ ایوان میں اسلامی اور جمہوری روایت قائم کریں گے۔ ڈپٹی میئر نے انہیں شہری مسائل کے حل کے لیے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا۔ 9دسمبر 1983ء کو کراچی ڈویژنل رابطہ کمیٹی کا دوسری میعاد کے لیے انتخاب ہوا اور رابطہ کمیٹی کے چیئرمین مظفر ہاشمی منتخب کیے گئے۔ 18جنوری 1984ء کو بلدیہ کراچی کا پانچ گھنٹے کا طویل اجلاس ہوا ،جس میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کو بلدیہ کی تحویل میں لینے کے لیے 42رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔
جبکہ 202پنچائیوں کے ارکان کے ناموں کی منظوری اور بلدیہ کی کمیٹیوں جن کے اراکین کی تعداد کا تعین اور ملازمین کے مطالبات کی فہرست کی منظوری دے دی گئی۔ شہری امور کو بہتر طور پر چلانے کے لیے کمیٹیوں کی تعداد 15سے بڑھا کر 18کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جو اس بات کا مظہر تھا کہ عوامی منتخب نمائندے شہر کے ترقیاتی اور فلاحی کام عوام کی امنگوں کے مطابق کرنے کا عزم لے کر آئے ہیں۔ 12فروری 1987ء کو بلدیہ کی منتخب کونسل ختم کر دی گئی اور ایک ایڈوائزری کونسل بنا دی گئی۔ 1987ء میں سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس میں 5نومبر کو ایک چوتھی ترمیم کے ذریعے کراچی میں دو سطحی بلدیاتی نظام رائج کر دیا گیا۔
کراچی کے اس وقت کے چار اضلاع میں زونل میونسپل کمیٹی قائم کر دی گئی جن میں زونل میونسپل کمیٹی شرقی ‘زونل میونسپل کمیٹی وسطی‘ زونل میونسپل کمیٹی جنوبی اور زونل میونسپل کمیٹی غربی شامل تھی۔ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979ء میں چوتھی ترمیم کے بعد ہر زونل میونسپل کمیٹی کے ایک تہائی ممبران بلدیہ کے رکن منتخب ہوتے تھے اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ارکان کی تعداد صرف 77رہ گئی جن میں شرقی سے 22‘ وسطی سے18‘ غربی سے 11اور جنوبی سے 16ارکان شامل تھے۔7ورکرز اور 3خواتین کو بھی منتخب کیا گیا۔ 1979ء کے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت تیسرے انتخابات کے نتیجے میں 8جنوری 1988ء سے 18جولائی 1992ء تک کراچی کے میئر کی حیثیت سے ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے فرائض انجام دیے۔ ان کے ساتھ عبدالرازق خان ڈپٹی میئر منتخب ہوئے بعد ازاں جواں سال مقرر اور رہنما متین یوسف کو کراچی کا ڈپٹی میئر منتخب کیا گیا۔
1991ء میں کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو بھی بلدیہ عظمیٰ کراچی کا حصہ بنا دیا گیا اور اسی سال ڈاکٹر فاروق ستار کی کوششوں سے بلدیاتی ادارے کے پہلا میڈیکل کالج کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا باقاعدہ افتتاح سابق وزیراعظم نواز شریف نے کیا تھا ۔ اس موقع پر سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق علی بھی موجود تھے۔ میئر فاروق ستار نے اس کالج میں کسی بھی قسم کا کوٹہ رکھنے سے انکار کیا اور تمام داخلے میرٹ کی بنیاد پر دیے جانے لگے۔
انہی کے دور میں کراچی کا پہلا فلائی اوور ناظم آباد فلائی اوور کی تعمیر کا آغاز ہوا جبکہ علمی ‘ ادبی ‘ سماجی اور ثقافتی پروگراموں کے انعقاد میں میئر کراچی نے اپنا بھرپور حصہ لیا اور کراچی کی تعمیر و ترقی میں ایسا کردار ادا کیا کہ کراچی جدید دور میں داخل ہوا۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم جب ورلڈ کپ جیت کر آئی تو میئر کراچی نے ان کے اعزاز میں ایک شاندار شہری استقبالیہ کا اہتمام کیا جس میں صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ اور متحدہ قومی موومنٹ کے چیئرمین عظیم طارق سمیت اعلیٰ قیادت نے شرکت کی۔ اس تقریب میں ورلڈ کپ میں شامل تمام کھلاڑیوں کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کی طرف سے سونے کے تمغے پیش کیے گئے اور انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے دور میں کراچی کی تعمیر کے ساتھ ساتھ شہر کے مختلف اداروں کو بھی اس بات پر قائل کیا کہ وہ کراچی کی تعمیر و ترقی میں اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ وہ کراچی کے ہر دلعزیز میئر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے اور کراچی کو لاتعداد منصوبوں کے ساتھ ساتھ پانی‘ سیوریج‘ سڑکوں‘ باغات‘پلوں اور فلائی اوورز بھی تعمیر کر کے دیے۔ انہی کے دور میں فیڈرل بی ایریا میں کراچی کا پہلا تعلیمی باغ بھی بنایا گیا۔اُن کے دروازے شہریوں کے لیے ہمیشہ کھلے رہے ۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے براہ راست میئر کراچی سے رابطے میں رہے، ڈاکٹرفاروق ستار نے جب میئر کراچی کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو وہ دنیا کے سب سے کم عمر میئر تھے۔
1994ء میں کراچی میں ضلع ملیر کے نام سے نئے ضلع کا قیام عمل میں آیا۔ 25 ستمبر 1994ء کو کراچی میں قائم تمام زونل میونسپل کمیٹیز ختم کرنے کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ایک بار پھر ضم کر دی گئیں۔ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس مجریہ 1979ء ملک بھر میں 13اگست 2000ء تک نافذ رہا اور 2001ء میں سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء نافذ کر دیا گیا۔
1992ء سے 2001ء تک بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں ہوئے اور حکومت سندھ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے انتظام کو چلانے کے لیے ایڈمنسٹریٹرنامزد کر تی رہی اس دوران 13ایڈمنسٹریٹرز نے اپنے فرائض انجام دیے۔ 6اگست 2001ء کو نیا بلدیاتی نظام متعارف کرا دیا گیا، جو 14اگست 2001ء سے نافذ العمل کر دیا گیا۔ اس نظام کے تحت تین سطحی بلدیاتی حکومتیں قائم کی گئیں۔ 14اگست 2001ء میں منتخب میئر کی حیثیت سے جناب نعمت اللہ خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا جبکہ طارق حسن نائب ناظم کی حیثیت سے منتخب ہوئے۔2001ء میں شہری ضلع حکومت کراچی قائم ہوئی اور اس نے نئے قانون کے تحت اپنے فرائض انجام دینا شروع کیے۔
پاکستان میں تبدیل شدہ نظام کے تحت جو 14اگست 2001ء سے شروع ہوا اٹھارہ ٹائون اور 178یونین کونسلوں اور ایک سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ انتخابات کے بعد ان اداروں کے ممبران کی مجموعی تعداد 3800سے زائد تھی۔ نومنتخب سٹی ناظم نعمت اللہ خان اور نائب ناظم محمد طارق حسن نے کراچی کے مرکزی پارک گلشن جناح بارہ دری میں ایک تقریب میں اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا۔
سٹی کونسل بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ممبران کی تعداد 255تھی جنہیں اگلے چار سال کے لیے کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے قانون سازی کرنی تھی۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے کونسل ہال میں ان ارکان کے بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی اس لیے کونسل کے اجلاس ٹینٹ لگا کر منعقد کیے گئے، بعد ازاں ہال کی تزئین نو کی گئی۔ شہری ضلع کونسل کا پہلا اجلاس سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے قیام کے ٹھیک ایک ماہ بعد 14ستمبر 2001ء کو منعقد ہوا اور قانون کے مطابق پہلے اجلاس سے سٹی ناظم کراچی نعمت اللہ خان نے خطاب کیا۔
شہری ضلع نائب ناظم کی عدم موجودگی میں شہری ضلع کونسل کے اجلاس چلانے کے لیے پینل آف پریذائڈنگ آفیسر کے انتخاب کا طریقہ کار طے کرتے ہوئے شہری ضلع کونسل نے تین پریذائڈنگ آفیسرز کے پینل کا انتخاب کیا گیا۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کی کارکردگی کی نگرانی کے لیے 27کمیٹیاں منتخب کی گئیں اس کے علاوہ دفعہ 39میں درج تفصیل کے مطابق ضابطہ اخلاق ‘ انصاف‘ کھیلوں اور ثقافت‘ ضلع حسابات ‘کھیت پیداوار کمیٹیوں کا انتخاب بھی کیا گیا۔ شہری ضلع کونسل نے اپنے معاملات چلانے کے لیے کنڈیکٹ آف میٹنگ بنانے تھے جو شہری ضلع کونسل نے تیار کیے۔ اس کے علاوہ شہری ضلع کونسل نے ضابطہ نکاح رجسٹریشن سے متعلق معاملے کی منظوری بھی عطا کی۔ ضلع کونسل نے قرار داد نمبر58‘ 15مئی 2002ء کے تحت ممبران کے اعزازیے کی شرح بھی مقرر کی ۔
سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے اپنے دور اقتدار میں کراچی میں مختلف ترقیاتی منصوبے شروع کیے جبکہ مختلف ٹائون میں ماڈل پارک کے نام سے خوبصورت پارک بھی تعمیر کیے۔ کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کا قیام عمل میں لایاآیا۔ مختلف شاہرائوں اور پُلوں کی تعمیر مکمل کی گئی۔14اگست2005ء کو انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی شہری ضلع حکومت کراچی کے لیے سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال اور نائب ناظم محترمہ نسرین جلیل منتخب ہوئیں، وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جو اس عہدے پر منتخب ہوئیں۔
3جنوری 2006ء سے شہری ضلع کونسل نے اپنے فرائض انجام دینا شروع کیے۔ شہری ضلع حکومت کراچی کے آرڈیننس کی دفعہ 42 (2)کے تحت کونسل کو سال میں 50اجلاس منعقد کرنا تھے۔کونسل نے اپنے پہلے سال میں 51سیشن منعقد کیے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ شہری ضلع حکومت کی جانب سے کوئی بھی معاملہ موصول ہونے پر جلد از جلد کونسل کے روبرو پیش کیا جائے۔
آرڈیننس کی دفعہ 45 (5)کے تحت شہری ضلع نائب ناظم کی عدم موجودگی کی صورت میں اجلاس کی صدارت کے لیے پینل آف پریذائڈنگ آفیسرز کا انتخاب کیا گیا اور 23فروری 2006ء کے اجلاس میں مسعود محمود کو سینئر پریذائڈنگ آفیسر‘ احسن صدیقی اور رفیق احمد کو پریذائڈنگ آفیسر منتخب کیا گیا۔ شہری ضلع کونسل کی 33نگراں کمیٹیاں بھی منتخب کی گئیں اور مختلف امور کی انجام دہی کے لیے ان کمیٹیوں کے ممبران بھی منتخب کیے گئے۔
مصطفیٰ کمال نے اپنے دور اقتدار میں کراچی کو جدید اور ترقیاتی یافتہ کراچی بنانے میں دن رات ایک کیا، اپنے فرائض تندہی سے ادا کیے۔ اُن کے زمانے میں کراچی میں سڑکوں‘ پُلوں اور فلائی اوورز کا جال بچھایا گیا فیملی پارکس بنائے گئے۔ کراچی کا سب سے بڑا پارک باغ ابن قاسم، کلفٹن‘ بیچ ویو پارک تعمیر کیے گئے اور جھیل پارک کے رقبے سے تجاوزات ختم کر کے پارک کو ازسر نو تعمیر کیا گیا۔
مزار قائد سے صدر کے لیے ایک نئی شاہراہ بنائی گئی، جبکہ سپر ہائی وے سے ایئر پورٹ آنے کے لیے بھی ایک نئی اور طویل شاہراہ تعمیر کی گئی جو بظاہر ناممکن نظر آتی تھیں۔کراچی میں انڈر پاسز اور کوریڈورز تعمیر کیے گئے ‘ سی این جی بسوں کا آغاز کیا گیا‘ صدر میں پارکنگ پلازہ کی تعمیر کی گئی ‘ بس ٹرمینل حب ریور روڈ تعمیر کیا گیا‘ سمندر سے میٹھے پانی کی لائنیں ڈال کر بھٹ شاہ اور دیگر علاقوں کو پانی سپلائی کیا گیا۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں سیوریج نظام کو بہتر کیا گیا ۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو کراچی میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی گئی اور متعدد ملکوں کے وفود نے کراچی کا دورہ کیا تاکہ یہاں سرمایہ کاری کی جا سکے۔
سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال نے 24فروری 2010ء تک اپنے فرائض انجام دیے۔ اُن کی مدت پوری ہوتے ہی شہری ضلع کونسل بھی اختتام پذیر ہوگئی اور ایک بار پھر بلدیاتی نظام حکومت کے نامزد ایڈمنسٹریٹر نے چلانا شروع کردیئے۔ 2010ء سے 2016ء تک آٹھ ایڈمنسٹریٹر مقرر کئے گئے۔
ایک بار پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے تحت دس سال بعد تین مرحلوں میں بلدیاتی انتخابات منعقدکیے گئے۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں 5دسمبر 2016ء کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے جس میں 208یونین کونسلوں کے لیے شہریوں نے اپنے نمائندوں کا انتخابات کیا۔ ان انتخابات میں جو سیاسی بنیادوں پر منعقد ہوئے پاکستان کی سرکردہ سیاسی جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کراچی میں ایک بلدیہ عظمیٰ کراچی ‘ چھ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن اور ایک ضلع کونسل کراچی نے اپنے بلدیاتی فرائض انجام دینا شروع کئے، جبکہ 6کنٹونمنٹ بورڈز اس کے علاوہ ہیں جن کے فرائض بھی کم و بیش بلدیاتی امور کی انجام دہی ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ایوان 308ارکان پر مشتمل تھا۔ 69خواتین‘ 10کسان مزدور ‘10نوجوان ‘10اقلیتی نمائندوں انتخاب کیا گیا۔ انتخاب میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد کراچی کے میئر کے لیے سابق وزیر داخلہ اور بلدیات وسیم اختر اور ڈپٹی میئر کے لیے ڈاکٹر ارشد وہرہ کو منتخب کیا گیا۔میئر کراچی وسیم اختر اور ان کی کونسل کے ارکان نے اپنی چار سالہ مدت مکمل کی۔ 30 اگست 2020ء تک اپنے فرائض انجام دیئے۔
بلدیاتی امور چلانے کے لئے ایک بار پھر ایڈمنسٹریٹر مقرر کئے گئے جن میں افتخار علی شالوانی اور لئیق احمد کے بعد اب بیرسٹر مرتضیٰ وہاب ایڈمنسٹریٹر کراچی کی حیثیت سے اس منصب پر فائز ہیں، بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے 6 اگست 2021ء کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالا اور اپنے فرائض انجام دینا شروع کئے۔
اس سال پاکستان نے اپنے قیام کے پچھتر برس مکمل کرلیے،لیکن کراچی کے شہری اس وقت بھی لاتعداد بلدیاتی مسائل کا شکار ہیں جن میں سڑکوں کی تعمیر ‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ سیوریج نظام کی بہتری‘ پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی، گلی محلوں کی سڑکوں اور مین شاہرائوں کی درستگی سمیت دیگر مسائل شامل ہیں۔
کراچی کو درپیش مسائل اس وقت حل ہوں گے جب بلدیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ یہاں رہنے والے تمام شہری ذاتی اغراض و مقاصد کے دائرے سے نکل کر اجتماعی بہبود کے لیے سوچیں گے اور اس شہر کو اپنا شہر سمجھیں گے۔ شہری بلدیاتی قیادت سے اس بات کی توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ ان مسائل سے نہ صرف نجات دلائیں گے بلکہ کراچی کو ایک بار پھر روشنیوں ‘ رنگوں اور امنگوں کا شہر بنائیں گے تاکہ کراچی دنیا کے دوسرے شہروں کی طرح ترقی یافتہ شہر نظر آئے۔