• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ کہتے ہیں کہ ناں کہ’’ کُفر ٹوٹا خدا خدا کرکے…‘‘ تو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں حائل رکاوٹیں بھی اللہ اللہ کر کے دُور ہوئیں اور15 جنوری کو بلدیاتی نمایندوں کا انتخاب جیسے تیسے ہو ہی گیا۔ پہلے مرحلے میں صوبے کے14 اضلاع میں 26 جون 2022ء کو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے۔ میرپورخاص، سکھر، شہید بےنظیر آباد( نواب شاہ) اور لاڑکانہ ڈویژن کے اِن اضلاع میں گھوٹکی، سکھر، خیرپور، لاڑکانہ، قمبر شہدادکوٹ، کشمور، کندھ کوٹ، شکارپور، جیکب آباد، نوشہرو فیروز، شہید بےنظیر آباد، سانگھڑ، میرپورخاص، عُمرکوٹ اور تھرپارکر کے اضلاع شامل تھے۔ 

اِن انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اِس لحاظ سے کلین سوئپ کیا کہ اُس کے مقابلے میں مخالفین نہ ہونے کے برابر تھے۔11 اگست کو جاری ہونے والے سرکاری نتائج کے مطابق، یونین کمیٹی اور یونین کاؤنسل کے چیئرمین/ وائس چیئرمین پینل کی668 نشستوں پر پیپلز پارٹی، 90 پر جی ڈی اے، 12ر پی ٹی آئی،12 پر جے یو آئی،3 پر ایم کیو ایم اور ایک پر مسلم لیگ نون نےکام یابی حاصل کی، جب کہ61نشستیں آزاد امیدواروں کے حصّے میں آئیں۔

ڈسڑکٹ کاؤنسلز کی622 نشستوں پر پیپلز پارٹی، 89 پر جے ڈی اے،10 پر پی ٹی آئی،8 پر جے یو آئی،1 پر سندھ یونائیٹڈ پارٹی اور55نشستوں پر آزاد امیدوار کام یاب ہوئے۔ وارڈ ممبرز کی3207 نشستوں پر پیپلز پارٹی،545 پر جی ڈی اے،130 پر جے یو آئی،122 پر پی ٹی آئی،37 پر ایم کیو ایم،12 پر سندھ یونائیٹڈ پارٹی،9 پر مسلم لیگ نون اور1 نشست پر پی ایس پی جیتی، جب کہ422 وارڈ کاؤنسلرز آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے۔

بار بار التوا، غیر یقینی حالات، اُمیدوار، ووٹرز کنفیوژ

الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق، سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے24 جولائی 2022ء کو پولنگ ہونی تھی، مگرحُکم ران جماعت مسلسل ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔ پہلے انتخابی عمل سیلاب کے باعث ملتوی کرکے28 اگست کی تاریخ مقرّر کی گئی، مگر الیکشن نہ ہوئے اور بات23 اکتوبر تک چلی گئی۔ مقررہ تاریخ آئی، تو صوبائی حکومت ایک بار پھر پیچھے ہٹ گئی۔ 

اِس کے بعد عدالتوں، الیکشن کمیشن میں درخواستوں اور سماعتوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ متحدہ قومی موومنٹ نے حلقہ بندیوں اور دیگر ایشوز کی بنیاد پرانتخابات کےالتوا کےلیےپہلے الیکشن کمیشن اور پھر سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا، مگر دونوں جگہ اُس کی درخواستیں مسترد کردی گئیں اور الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے15 جنوری 2023ء کی نئی تاریخ دے دی، لیکن گیم پھر بھی آن ہی رہا۔ 

انتخابات سے محض دو دن قبل ایم کیو ایم کے اعتراضات اور وفاقی حکومت سے علیٰحدگی کی دھمکی پر سندھ حکومت نے حلقہ بندیوں کانوٹیفکیشن واپس لیتےہوئےاچانک کراچی، حیدر آباد اور دادو میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا۔ دوسرے روز الیکشن کمیشن نے ایک ہنگامی اجلاس میں سندھ حکومت کے اقدام کوغیر آئینی قرار دیتے ہوئے فیصلہ سُنایا کہ انتخابات تو15 جنوری ہی کو ہوں گے، مگربات پھر بھی ختم نہیں ہوئی۔ سندھ حکومت نے اِس فیصلے کے خلاف اور انتخابات ملتوی کرنے کے لیے دوبارہ صوبائی الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا، جسے کمیشن نے پولنگ سے کچھ گھنٹے قبل مسترد کردیا۔ 

یوں ہفتے کی سہ پہر کے بعد سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور الیکشن کمیشن نےدوسرےروزہونے والے انتخابات کے لیے انتظامات شروع کیے۔ انتخابات کے بار بار التوا کے سبب پورے انتخابی عمل پر آخری وقت تک غیر یقینی کے بادل چھائے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف امیدوار بھرپور مہم نہ چلا پائے، تو دوسری طرف عوام بھی اِس دھینگا مشتی سےعاجز آگئے اور اُن کی انتخابات میں دِل چسپی کم سے کم ہوتی چلی گئی۔ گومگو کی اِس کیفیت کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ خُود الیکشن کمیشن مناسب انتظامات نہ کرسکا، جس کے اثرات پولنگ ڈے پر بدانتظامی کی صُورت نمایاں طور پر نظر آئے۔

حلقے، نشستیں، اُمیدوار

15 جنوری کو کراچی کے 7 ، جب کہ حیدرآباد ڈویژن کے اضلاع حیدرآباد، ٹنڈوالہ یار، مٹیاری، ٹنڈو محمّد خان، دادو، جام شورو، جب کہ بھنبھور (ٹھٹھہ) ڈویژن کے اضلاع ٹھٹھہ، بدین اور سجاول میں پولنگ ہوئی۔ کراچی کے25 ٹاؤنز کی 246 یونین کمیٹیز میں سے 235 کے لیے ووٹنگ ہوئی، جب کہ 10پر امیدواروں کے انتقال کے باعث ضمنی الیکشن ہوگا، ایک نشست پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین/وائس چیئرمین پہلےہی بلامقابلہ جیت چُکےتھے۔ کئی وارڈز ممبرز کے انتقال کے باعث اُن کی نشستوں پربھی بعد میں انتخاب ہوگا۔

کراچی کے 84 لاکھ 76 ہزار 220 ووٹرز کے لیے 4990 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے۔ یہاں مجموعی طور پر چیئرمین/ وائس چیئرمین پینل اور وارڈز کاؤنسلرز کی1438 نشستوں کے لیے پولنگ ہوئی، جس میں 10 ہزار 629 اُمید واروں نے حصّہ لیا۔ حیدرآباد ڈویژن کی 1675 اور ٹھٹھہ ڈویژن کی709 نشستوں پر انتخابات ہوئے۔ اِن ڈویژنز میں بھی کئی اُمیدواروں کے انتقال اور اُمیدواروں کی بلامقابلہ جیت کےسبب کئی نشستوں پر پولنگ نہیں ہوئی۔ اِن اضلاع میں تقریباً9 ہزار اُمیدوار میدان میں اُترے۔ وہاں ضلع کاؤنسل، ٹاؤن کمیٹیز میں وارڈ کی سطح پر کائونسلرز اور حیدرآباد شہر میں کراچی کی طرز پر انتخاب ہوا۔

بد انتظامی کا راج،دھاندلی کا شور

پولنگ ڈے کا آغاز بدترین بدانتظامی کے ساتھ ہوا۔ کئی پولنگ اسٹیشنز پر دوپہر تک عملہ نہ پہنچ سکا، تو کہیں سے انتخابی سامان کی درست ترسیل نہ ہونے کی شکایات آتی رہیں۔ سیکوریٹی معاملات پر بھی سوالات اُٹھے۔ اِس بدنظمی سے جہاں ووٹرز کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، وہیں دھاندلی کے الزامات کو بھی ہوا ملی۔ شہری پچھلے انتخابات میں جہاں ووٹ کاسٹ کرتے آرہے تھے، وہاں سے دیگر مقامات پر منتقلی کی شکایت عام رہی۔ سیکیوریٹی کے ناقص انتظامات کے سبب مسلّح افراد کے آزادانہ پولنگ اسٹیشنز میں داخل ہونے، مَن پسند اُمیدواروں کے حق میں ٹھپّے لگانے اور بیلٹ باکس تک اُٹھا لے جانے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ انتخابات میں حصّہ لینے والی تمام جماعتوں نے بدانتظامی اور دھاندلی سے متعلق الیکشن کمیشن کوشکایات پہنچائیں۔ 

علاوہ ازیں، سیاسی جماعتیں اور ووٹرز الیکشن کمیشن کی جانب سےمقرّر کردہ عملے کی اہلیت اور تربیت سے بھی مطمئن نظر نہیں آئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا تو کام ہی صاف شفّاف انتخابات کا انعقاد ہے اور اِس مقصد کے لیے اُس پر قوم کے ٹیکسز کا پیسا خرچ کیا جاتا ہے، مگر اُس سے یہ کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا۔ پھر ووٹنگ ختم ہونے کے بعد ایک نیا کٹّا کُھل گیا اور وہ تھا، نتائج میں تاخیر۔ بہت کم ووٹ کاسٹ ہونے کے باوجود ابتدائی نتائج بھی24 گھنٹوں کےبعد آئے، جس سےطرح طرح کی افواہوں، خدشات اور شکایات نے جنم لیا۔ 

یہ الزامات سامنے آئے کہ نتائج تبدیل کیے جا رہے ہیں اور یہ الزامات اُس وقت درست بھی ثابت ہوئے، جب کئی مقامات پر احتجاج کے بعد ہار،جیت کے فیصلے تبدیل ہوئے۔ اُمیدواروں کی طرف سے شکایت کی گئی کہ اُن کے پولنگ ایجنٹس کو فارم 11اور 12 نہیں دیئے جا رہے اور اگر مِل بھی رہے ہیں تو متعلقہ حکّام اُن پر دستخط سے گریز کر رہے ہیں،جس سے اُن کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ 

ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی ویڈیوز گردش کرتی رہیں، جن میں لوگوں کو غیر قانونی طور پر ٹھپّےمارتےدیکھا گیا، جب کہ کئی ویڈیوز میں تو ووٹس کی گنتی کے دَوران ٹھپّے لگائے جا رہے تھے۔ البتہ، اچھی بات یہ رہی کہ انتخابات مجموعی طور پر پُرامن رہے اور لڑائی جھگڑے کے اِکّا دُکّا واقعات کے سوا عمومی صورتِ حال پُرسکون رہی، حالاں ایک دن پہلے تک بدامنی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔

مبصّرین کی آراء

فِری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ’’حال ہی میں منعقد ہونے والے سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں انتخابی عمل کے معیار کے حوالے سے تنازعات اچھے نہیں ہیں، بالخصوص ایسے موقعے پر جب سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی تیاری کر رہی ہیں۔ انتخابات میں بہت سے تنازعات قانون سازی کے ڈھانچے کی کم زوریوں کی وجہ سے پیدا ہوئے، تمام سیاسی فریقین کوبات چیت کےذریعے انہیں درست کرنےکی ضرورت ہے۔ 

بدین، جام شورو، ٹنڈو محمّد خان، ٹنڈو الہ یار، ٹھٹھہ اور ملیر اضلاع میں ووٹرز کی اچھی تعداد نے ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن کا رُخ کیا، جب کہ کراچی وسطی، شرقی،غربی،جنوبی، کورنگی، حیدرآباد اور کیماڑی کے اضلاع میں ووٹرز کی تعداد نسبتاً کم تھی۔ فافن کے مبصّرین نے پولنگ اسٹیشن کے رزلٹ فارم (فارم 11) میں کوتاہیوں کو نوٹ کیا، اُنہوں نے ایسے معاملات کی اطلاع دی، جہاں پریزائیڈنگ افسران نےنتیجےکےفارم کو صحیح طریقے سے پُرنہیں کیا، جس میں پولنگ اسٹیشنز کے نام، رجسٹرڈ ووٹرز، پولنگ کے ووٹوں کی صنفی تفریق شدہ تعداد اور پولنگ اہل کاروں کے دست خطوں کےلیےحصّے خالی چھوڑ دیئے گئے تھے۔ 

زیادہ تر پولنگ اسٹیشنز پر بیلٹ کی گنتی کے لیے مناسب طریقۂ کار پر عمل کیا گیا اور انتخابی عملہ عام طور پر گنتی کے تقاضوں کی تعمیل کرتا نظر آیا۔ مشاہدہ کیا گیا کہ پولنگ اسٹیشنز میں سے4فی صد پرگنتی کے عمل کے دَوران غیر مجاز افراد موجود تھے۔ پولنگ ایجینٹس اور سیکیوریٹی اہل کاروں کو بالترتیب 12 فی صد اور 4 فی صد پولنگ اسٹیشنز پر بیلٹ پیپرز کو چُھوتے ہوئے دیکھا گیا۔‘‘

متحدہ قومی موومنٹ کا بائیکاٹ، ووٹرز کی مایوس کُن شرح

متحدہ قومی موومنٹ کے بطن سے جنم لینے والی تین جماعتوں ایم کیو ایم پاکستان، پاک سرزمین پارٹی اور تنظیم بحالی کمیٹی نے12جنوری کو ’’متحدہ قومی موومنٹ‘‘ کے نام سے متحد ہونے کا اعلان کیا۔ اِس موقعے پر خالد مقبول صدیقی، مصطفیٰ کمال اور فاروق ستّار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اگر اُن کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے، تو وہ انتخابات نہیں ہونے دیں گے۔ بعدازاں، اُنھوں نے انتخابات سے کچھ گھنٹے قبل بائیکاٹ کا اعلان کرتےہوئے شہریوں سے انتخابی عمل کا حصّہ نہ بننے کی اپیل کی۔ 

ایم کیو ایم کو حلقے بندیوں پر سخت تحفظّات تھے اور اُس کے مطابق، ایسا شہر کو اصل نمایندوں سےمحروم کرنےکےلیے ایک منصوبے کے تحت کیا گیا۔ پولنگ ڈے پر اِس بائیکاٹ کا واضح اثر دیکھنے میں آیا، جب کہ ایم کیو ایم کے بانی کی جانب سے بھی بائیکاٹ کی اپیل پر اُن کے حامیوں نے پولنگ اسٹیشنز کا رُخ نہیں کیا۔ تاہم، ووٹنگ کی کم شرح میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ عوام آخر تک کشمکش کا شکارتھے۔ 

حتٰی کہ آخر میں تو بے زارنظرآئے۔ اِسی طرح اُمیدوار بھی زیادہ بہتر طور پر ووٹرز کو گھروں سے باہر نہ لا سکے۔ شاید اُن کا بھی خیال یہی تھا کہ انتخابات آخری لمحات میں ملتوی ہوجائیں گے، حالاں کہ بلدیاتی انتخابات میں عموماً ووٹ کاسٹنگ کی شرح عام انتخابات کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، کیوں کہ اس میں گلی محلّوں کے اُمیدوار میدان میں موجود ہوتے ہیں، جو ووٹرز کو زیادہ سے زیادہ باہر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہرحال، وجہ خواہ کچھ بھی ہو، مگر عوام کی کم تعداد میں شرکت نے انتخابی عمل سے متعلق کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔

الیکشن کمیشن کی تسلّیاں

ایک طرف سیاسی جماعتیں اور اُمیدوار انتخابی نتائج میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے، تو دوسری طرف، الیکشن کمیشن نے اُسے معمول کی بات قرار دیا، بلکہ حکّام اِس بار جلد نتائج آنے پر خاصے مطمئن بھی تھے۔ الیکشن کمشنر سندھ، اعجاز انور چوہان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’’کئی حلقوں میں عوام کا بہت رَش تھا، جس کی وجہ سے اُنھیں مقرّرہ وقت کے بعد بھی ووٹ کاسٹ کرنے کا موقع دیا گیا، یوں ووٹس کی گنتی تاخیر سے شروع ہوئی۔ الیکشن کمیشن نے بہترین اقدامات کیے تھے اور متعلقہ افسران نے معاملات بہت اچھی طرح مانیٹر کیے۔‘‘ اُنھوں نے اِن افواہوں کی تردید کی کہ نتائج میں تاخیر کا دھاندلی سے کوئی تعلق ہے۔

کہیں مٹھائیوں کے تھال، تو کہیں آہیں، سسکیاں

15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ ہوئی اور آج21 جنوری کو اِن سطور کے تحریر کیے جانے تک حتمی سرکاری نتائج جاری نہیں کیے جاسکے۔ ابتدائی اور غیر حتمی نتائج میں پیپلز پارٹی 93، جماعتِ اسلامی 86، تحریک انصاف 40، مسلم لیگ نون 7، جے یو آئی 3، ٹی ایل پی 2 اور مہاجر قومی موومنٹ ایک نشست پر کام یاب قرار پائیں، جب کہ 3 نشستوں پر آزاد امیدوار جیتے۔ 

بعدازاں، دوبارہ گنتی اور غلطیوں کی درستی کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں نشستیں جیتنے کے دعوے کرتی رہیں۔ اِسی طرح الیکشن کمیشن کے پاس دوبارہ گنتی اور شکایات کے ازالے کے لیے سیکڑوں درخواستیں دائر کی گئی ہیں، جن کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اِس لیے درج بالا نتائج میں تبدیلی کا امکان ہے۔ بہرحال، جب یہ سطور آپ کی نظر سے گزر رہی ہوں گی، اُس وقت تک صُورتِ حال بہت حد تک واضح ہوچُکی ہوگی۔

پیپلز پارٹی کا تیر خُوب چلا

جس طرح پیپلز پارٹی نے پہلے مرحلے میں مخالفین کو چاروں شانے چِت کیا تھا، اسی طرح دوسرے مرحلے کی دوڑ میں بھی وہ آگے رہی۔ حیدرآباد اور ٹھٹّہ ڈویژن میں تو اُس نے جھاڑو پھیری ہی، کراچی میں بھی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ مخالفین اِس جیت کو حیرت انگیز کہتے ہیں کہ اُن کے نزدیک پی پی پی کو کراچی سے اِتنی نشستیں ملنے کی کسی کو بھی توقّع نہیں تھی۔ اُن کے خیال میں، پیپلز پارٹی کراچی کو اون نہیں کرتی اور نہ ہی اُس نے کبھی شہر کی ترقّی کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے ہیں۔ 

ایک رائے یہ بھی دی گئی کہ پیپلز پارٹی کی اِس جیت کے پیچھے انتخابی حلقہ بندیاں ہیں، جن میں اُس نے اپنے زیرِ اثرعلاقوں میں کم آبادی کے باوجود زیادہ نشستیں رکھیں اور دیگر علاقوں کو کئی گُنا زیادہ آبادی ہونے کے باوجود کم نشستیں دی گئیں تاکہ اگر وہاں سے مخالفین جیت بھی جائیں، تو پیپلز پارٹی سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ حکومتی پارٹی نے انتخابی عملے کے ساتھ مل کر نتائج میں ہیر پھیر کی۔ جماعتِ اسلامی، پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت کی جانب سے پیپلز پارٹی پر کُھل کردھاندلی کے الزامات عاید کیے گئے۔ 

اِن الزامات کے جواب میں پیپلز پارٹی نے مخالفین کو اپنے وہ ترقّیاتی کام یاد دِلوائے، جو وہ کراچی کی بہتری اور عوام کی سہولت کے لیےکر رہی ہے۔ حالیہ بارشوں کے بعد شہر کے انفرا اسٹرکچر میں بہتری، اورنگی ٹاؤن سے اورنج لائن بس منصوبے کے آغاز، ریڈ لائن بس منصوبے پر کام کی ابتدا، پیپلز بس سروس کے افتتاح، اسپتالوں میں سہولتوں کی فراہمی اور شہربھرمیں ہونے والے تعمیراتی کاموں سے کراچی کے شہری پیپلز پارٹی کی جانب متوجّہ ہوئے اور بلدیاتی انتخابات میں اُسے بھاری مینڈیٹ دیا۔

جماعتِ اسلامی کی ہوئی واہ واہ

گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں جماعتِ اسلامی کو کراچی سے247 نشستوں میں سے صرف7 پر کام یابی ملی تھی، جب کہ 2018ء کے عام انتخابات میں وہ شہر سے صرف ایک صوبائی اسمبلی کی نشست اپنے نام کر پائی، مگر اِس بار تو جماعت نے کام یابی و کام رانی کے جھنڈے گاڑ دئیے اور یہ کام یابی کوئی ایسی حیرت انگیز بھی نہیں، کیوں کہ انتخابات سے قبل ہونے والے تمام سروے جماعتِ اسلامی کی جیت کے واضح اشارے دے رہے تھے۔ جماعتِ اسلامی کے پاس گزشتہ بلدیاتی اور عام انتخابات میں بھی فعال اور منظّم کارکنان کی ٹیم موجود تھی، مگر اِس بار فرق یہ پڑا کہ حافظ نعیم الرحمٰن کی صُورت اُسے ایک متحرّک قیادت میسّر آگئی۔ 

وہ شہریوں کے ہر معاملے میں پیش پیش رہے۔ سڑکوں کی ٹُوٹ پُھوٹ ہو یا کے۔ ای کی مَن مانیاں، صحت و صفائی کے مسائل ہوں یا مختلف اداروں کی جانب سے عوام کو بلاجواز تنگ کرنے کی شکایات، حافظ نعیم الرحمٰن ہر ہر قدم پر عوام کی آواز بنے اور اپنے اسی طرزِ عمل سے عام لوگوں کے دِلوں میں گھر کرتے چلے گئے۔ پھر نعمت اللہ خان کی صُورت میں بھی اُن کے پاس ایک مثال موجود تھی کہ جب شہریوں نے اُنھیں خدمت کا موقع دیا، تو جماعتِ اسلامی نے قطعاً مایوس نہیں کیا۔ نیز، جماعتِ اسلامی نے اس بار مہم بھی بہت منظّم انداز میں چلائی۔ 

ضلع وسطی میں توہم نےخود دیکھا کہ جماعتِ اسلامی نے یونین کاؤنسل کی سطح پر عوامی مسائل کی نشان دہی کی اور پھر اُنھیں عوام ہی کی مدد سے حل کروانے کی کوششیں بھی کیں۔ جیسے سڑکوں کی مرمّت، سیوریج کے مسائل، پارکس کی بحالی وغیرہ۔ اِس طرح لوگ اُن کے ساتھ جُڑتے چلےگئے۔ جب کہ اِس بار یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ شہر کے پڑھے لکھے حلقے نے سوشل میڈیا پر کُھل کی جماعتِ اسلامی کی حمایت کی، جب کہ شوبز سے وابستہ افراد نے بھی، جنھیں ہمیشہ جماعتِ اسلامی کے مخالف کیمپ میں سمجھا جاتا ہے، سوشل میڈیا پر جماعت کےحق میں پیغامات جاری کیے۔ پھرجماعت کے نوجوانوں کی تعلیم اور روزگار کےلیےمنعقد کردہ کئی بڑےپروگرامز نے بھی جماعت اسلامی کی عزت و وقار میں خاصا اضافہ کیا۔ یوں جماعتِ اسلامی کے حق میں ایک ایسا ماحول بنتاچلا گیا، جو بالآخر اُس کی جیت پر مُنتج ہوا۔

تحریکِ انصاف ہاتھ ملتی رہ گئی

پی ٹی آئی نے گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں کراچی سے10نشستیں حاصل کی تھیں اور اب اُس سے زیادہ نشستوں پر جیتی ہے، مگر یہ تجزیہ کافی نہیں۔ تحریکِ انصاف نے 2018ء کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی22 نشستیں جیتی تھیں۔ یہاں سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی، ڈاکٹر عارف علوی، صدرِ پاکستان کے منصب پر فائز ہوئے،جب کہ کئی وزارتیں بھی اِس شہر کے حصّے میں آئیں اور صوبے کا گورنر بھی اِسی جماعت سے تھا، مگر اِس کے بعد پی ٹی آئی نے کراچی کو نظرانداز کیا۔ 

خود عمران خان بھی، جو عام انتخابات میں یہاں سے بھی جیتے تھے، ساڑھے تین سال کی حُکم رانی میں چندبار محض چند گھنٹوں کے لیے کراچی آئے اور ایسے اعلانات کیے، جن پر عمل ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ اِس رویّے نے پی ٹی آئی کے ووٹرز اور حامیوں کو سخت مایوس کیا اور بلدیاتی انتخابات میں اُنھوں نے اسےمسترد کرکے اپنے جذبات کا اظہار کردیا۔رانتخابات کے بعد کارکنان کی جانب سے مقامی رہنماؤں کے استعفے کا مطالبہ خاصا زور پکڑ گیا ہے۔

دیگر جماعتیں، تین میں نہ تیرہ میں

مسلم لیگ نون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سندھ اُس کی ترجیحات میں شامل نہیں اور بلدیاتی انتخابات نے یہ بات ایک بار پھر درست ثابت کی۔ گو کہ اُسے کچھ نشستوں پر کام یابی حاصل ہوئی ہے،لیکن پارٹی قیادت عملاًانتخابی عمل سے لاتعلق رہی۔ مقامی کارکنان سے جتنا مقابلہ ہوسکتا تھا، اُنھوں نے کیا۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جمعیت علمائے اسلام نے اندرونِ سندھ کے کئی حلقوں میں نمایاں کام یابی حاصل کی، لیکن دوسرےمرحلے میں توقّع کے مطابق نہیں جیت پائی، حالاں کہ حیدرآباد اور ٹھٹہ ڈویژن کےساتھ کراچی کے بعض علاقوں میں اُس کاخاصا اثرو رسوخ بھی ہے۔ 

تحریک لبیّک پاکستان نےگزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والے کئی ضمنی انتخابات میں مناسب ووٹس حاصل کیے تھے اور 2018ء میں اسے کراچی سےصوبائی اسمبلی کی ایک نشست بھی ملی تھی، مگر بلدیاتی انتخابات میں دو، تین نشستوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ ایسا ہی کچھ عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ ہوا۔ ماضی میں وہ شہر کی ایک نمایاں سیاسی قوّت تھی، مگر بلدیاتی انتخابات میں اُس کا مکمل طور پر صفایا ہوگیا۔ آفاق احمد کی مہاجر قومی موومنٹ بھی محض ایک ہی نشست جیت پائی۔ جےیو پی اورکئی ایسی جماعتیں،جو میڈیا میں کافی نظرآتی ہے، عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کام یاب نہ ہوسکیں۔

میئر کی دوڑ، بڑا ہوگا جوڑ توڑ

پیپلزپارٹی کےچیئرمین،بلاول بھٹّوزرداری نے الیکشن سے پہلے کہا تھا کہ’’ کراچی کا میئر پی ڈی ایم کا اور حیدرآباد کا میئر جیالا ہوگا۔‘‘حیدر آباد تو اُن کے پاس آگیا، مگر کراچی میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں کوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہ دے سکیں کہ پیپلز پارٹی اُن کی حمایت سے میئر شپ حاصل کرپائے۔ اب اُس کے پاس دو ہی راستے ہیں، جماعت اسلامی سے اتحاد یا پھر پی ٹی آئی سے مصافحہ، وہ دوسرا آپشن رَد کرچُکی ہے، لہٰذا،اب اُس کی صرف جماعتِ اسلامی ہی سے بات چیت ہو رہی ہے۔ 

دیکھنا ہوگا، وہ جماعتِ اسلامی کو ایسی کیا آفر کرتی ہے کہ وہ اُس کے ساتھ ڈپٹی میئر کے طور پر چلی جائے۔ پیپلز پارٹی میئر کی نشست سے دست بردار ہوجائے یا پھر کوئی دوسرا فارمولا سامنے آجائے۔ جماعتِ اسلامی کی جانب سے حافظ نعیم الرحمٰن میئر کے اُمیدوار ہیں اور جماعتِ اسلامی نے اِسی بنیاد پر الیکشن لڑا، جب کہ عوام کی اکثریت نے بھی اُنھیں ہی میئر بنوانے کے لیے ووٹ دیا ہے، اِس لیے یہ تو واضح ہے کہ جماعتِ اسلامی اِس عُہدے کے حصول سے پیچھے نہیں ہٹے گی، تو پھر اُس کے پاس بھی دو ہی راستے ہیں، پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی اور اُس نے دونوں ہی آپشنز کُھلے رکھے ہیں۔ 

ایک رائے یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی کو پیپلز پارٹی کے ساتھ مِل کر آگے بڑھنا چاہیے تاکہ اُسے عوامی مسائل کے حل کے لیے صوبائی حکومت کی معاونت حاصل ہوسکے۔ تاہم، جو لوگ اُس کا پی ٹی آئی سے اتحاد چاہتے ہیں، اُن کا اصرار ہے کہ جماعتِ اسلامی کو عام انتخابات پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ وہ پی پی پی کی اتحادی ہونے پر صوبے میں کس کی کارکردگی کے خلاف الیکشن لڑے گی اور پھر یہ بھی کہ پیپلز پارٹی حکومتی فنڈز حافظ نعیم الرحمٰن ہی کے ذریعے کیوں خرچ کروائے گی، جب کہ اُس کے پاس اُن علاقوں میں یوسی چیئرمین، ٹاون ناظمین اور قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان موجود ہیں،جہاں وہ بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے اور اُسے آیندہ بھی اُن ہی علاقوں سے ووٹ ملنے کی توقّع ہے، تو اپنے ہی لوگوں کے ذریعے کام کروانے کو ترجیح دےگی۔

میئر، ٹاؤن ناظم کا انتخاب کیسے ہوگا؟

یونین کمیٹیز کے چیئرمین کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کاؤنسل کے رُکن ہوں گے۔ کاؤنسل367 ارکان پرمشتمل ہوگی، جس میں خواتین، نوجوانوں، مزدوروں، اقلیتوں، معذوروں اور ٹرانس جینڈرز کے لیے121نشستیں مخصوص ہیں، جو کام یاب جماعتوں کو اُن کی حاصل کردہ نشستوں کے تناسب سے ملیں گی۔ یہ ارکان میئر اور ڈپی میئر کا انتخاب کریں گے۔ اِسی طرح یوسی وائس چیئرمین اپنے متعلقہ ٹاؤن کے رُکن ہوں گے اور وہ ٹاؤن ناظم کا انتخاب کریں گے۔