• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لاہور شہر کے کلچر میں یہ بات بڑی اہم تھی کہ ہر دروازے کے اندر محلوں، گلیوں، بازاروں ، احاطوں اورکٹڑیوں میں کچھ بڑے، بوڑھے ایسے ضرور ہوتے تھے جو لوگوں کے مسائل کو حل بھی کرتے تھے اور ان کی کچھ نہ کچھ مدد بھی کرتے تھے مگر اب تو اندرون لاہور کی ثقافت اور تہذیب ہی بدل گئی ہے مثلاً شاہی محلے سے لے کر رنگ محل تک ایسے لوگوںکی اکثریت آباد ہوچکی ہے جنہیں لاہور کی ثقافت اور تہذیب کا کچھ پتہ نہیں اور نہ انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی ہے اوروہ صرف اپنی جوتیوں، کھسے اور پشاوری چپل کے کاروبار میں مگن ہیں۔ آپ یہ دیکھیں کہ سوہا بازار، ڈبی بازار، گمٹی بازار، کسیرا بازار، موتی بازار اور کشمیری بازار سے لے کر شاہی محلہ بلکہ فوڈ اسٹریٹ تک آپ کو اب کھسے اور جوتیوں کی سینکڑوں دکانیں ملیں گی جب کہ آج سے تیس/ چالیس برس قبل یہاں ان دکانوں کا وجود تک نہیں تھا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم برس ہا برس سے اس لاہور کو تلاش کر رہے ہیں، جس کو ہم نے کبھی دیکھا تھااور جس کا ذکر ہمارے بڑوں نے بھی کیا تھا وہ لاہور تواب کب کا کہیں کھو چکا ہے۔ میدان بھائیاں والا شکر ہے کہ آج بھی کسی حد تک قبضہ مافیاسے بچا ہوا ہے اور جس طرح ایک زمانے میں یہ کھلا میدان تھا، یہ کسی حد تک آج بھی موجود ہے سو جناب کمبوہ برادری کے یہ چاروں سکھ بھائی ایک بہت بڑے منجے(چارپائی) پر بیٹھ کر ان گلیوں اور بازاروں کے لوگوں کے چھوٹے موٹے جھگڑے ختم کراتے، ان کے مسائل سنتے، یہ ان کا معمول تھا۔ ویسے اب بھی میدان بھائیاں والا میں کمبوہ برادری کے کچھ لوگ رہتے ہیں لیکن یہ مسلمان ہیں مگر اب محلے کے جھگڑے ختم کرانے والا منجا (چارپائی) نہیں ہے۔ اندرون لاہور کئی ایسے منجے ہوا کرتے تھے جہاں یہ لوگ اکٹھے بیٹھ کر گپ شپ بھی کیا کرتے تھے یہ منجےشہر کی ثقافت کا ایک حصہ تھے۔ حویلی نونہال سنگھ کے تہہ خانے میں ایک راستہ ہے جو شاہی قلعہ کو جاتا ہے ہم نے اس راستے کے ایک زمانے میں کچھ آثار دیکھے تھے۔ اب وہاں دیوار چن دی گئی ہے حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس راستے کو صاف کر کے آگے جانے کی کوشش کی جاتی اور جہاں تک ہو سکتا اس راستے کو صاف کیا جاتا۔ جس زمانے میں ہم نے یہ تہہ خانہ دیکھا تھا اس وقت یہ وسیع کمرہ بڑا صاف ستھرا تھا ۔ آج اس تاریخی کمرے کو اسکول کا اسٹور بنا دیا گیا ہے۔ یہ بڑی تاریخی حویلی ہےجسے 1830ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پوتے نونہال سنگھ نے تعمیر کروایا تھا مگر اس کو اس حویلی میں رہنا نصیب نہ ہوا، اس کے باپ کھڑک سنگھ نے یہ بددعا دی تھی کہ جس دن میں مروں تو بھی اسی روز مرجائے کیوں کہ نونہال سنگھ اپنے باپ پر بہت ظلم کیا کرتا تھا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ منٹو پارک جو کہ اس وقت شاہی قلعہ کے قریب کا باغ کہلاتا تھا جب وہ اپنے باپ کی لاش کو جلا کر آ رہا تھا تو اس پر روشنائی دروازے کا چھجا گر پڑا اور اس کی موت واقع ہوگئی اور باپ کی چتا والی جگہ پر ہی اس کی چتا کو آگ دی گئی۔خیر اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ یہ حویلی 193سال قدیم ہے۔ جو چھوٹی اینٹ ، مٹی اور مختلف اجزا کے مرکب سے تعمیر کی گئی ہے۔ اس کی سیڑھیاں بھی اینٹ اور مٹی کی ہیں یہ پانچ منزلہ حویلی ہے ، اس کی اونچائی 72فٹ ہے اور یہ 4کنال دس مرلہ پر مشتمل ہے۔ 1956ء میں اس تاریخی حویلی کو تاریخی یادگار اور قومی ورثہ قرار دیا گیا مگر آج تک اس حویلی کی مرمت، دیکھ بھال اور آرائش کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ پانچویں منزل پر ایک نہایت ہی خوبصورت شیش محل ہے۔ اس شیش محل کی چھت پر بڑا خوبصورت شیشے کا کام کیا گیا ہے یہ بہت ہی پرکشش ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کو اس تاریخی حویلی سے کوئی رغبت نہیں ان کے نزدیک بس یہ ایک ا سکول ہے اور جب آپ اس کی چھت پر چڑھ جائیں تو آپ کو بادشاہی مسجد کے چاروں مینار نظر آتے ہیں اور لاہور شہر کا اگر سچ میں نظارہ کرنا ہو تو شیش محل کی چھت پر ضرور چڑھنا چاہئے ۔ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم اس شیش محل کی چھت پر کئی مرتبہ چڑھے، کئی سال بسنت اس کی چھت پر منائی اور پتنگیں اور گڈیاں اڑائیں۔ اس خوبصورت حویلی میں 40کمرے ہیں۔ ہمارا یہ یقین ہےکہ یہ اندرون شہر کی سب سے خوبصورت ترین عمارت ہے۔ اس حویلی کی بیرونی دیواروں کے علاوہ اندرونی حصے میں بھی بہت خوبصورت رنگین نقش و نگار بنائے گئے ہیں جو آج بھی اپنے اصل رنگ و صورت میں برقرار ہیں۔ یہ حویلی مغل، ہندو اور سکھ فن تعمیر کا امتزاج ہے،حویلی کی تعمیر میں نانک شاہی اینٹ کا استعمال کیا گیا ہے جس پر بہترین فریسکو کا کام کیا گیا ہے، اس کے جھروکے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1849ء میں جب سکھوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور حویلی نو نہال سنگھ انگریزوں کے پاس آ گئی تو انہوں نے سوچا کہ شہر میں بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کوئی اسکول نہیں چنانچہ Miss Monorama Boseنے 1887 میں وکٹوریہ ا سکول قائم کیا۔ مس بوس کی ایک رنگین تصویر آج بھی اس ا سکول میں لگی ہوئی ہے۔ انگریز کے دور تک اس تاریخی حویلی کی بڑی دیکھ بھال اور بروقت مرمت وغیرہ کرائی جاتی تھی۔ جونہی یہ حویلی 1947کے بعد ہمارے ہاتھ لگی تو یہ عدم توجہی کا شکار ہوگئی۔ ا سکول کی موجودہ پرنسپل روبینہ خالد آج بھی اس حویلی کے اندر پرانی چیزوں کو تلاش کرتی رہتی ہیں۔ اس حویلی کے ایک کمرے سے قرآن پاک پڑھنے کی آواز بھی آتی ہے یہ واقعہ ہمیں لاہور کالج کی پہلی وائس چانسلر ڈاکٹر بشریٰ متین ، ہماری والدہ اور ہمارے خاندان کی کئی خواتین نے بتایا تھا جو اس اسکول میں زیرتعلیم رہی تھیں۔(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین