• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ہر صبح اپنے مکان سے ایک حیرت انگیز لیکن خوبصورت سائنسی عمل کا مشاہدہ کرتا ہوں، زمین جب ایک مقرر وقت پر اپنے محور پر گھومتی ہوئی اس خطے کو سورج کے سامنے لاتی ہے ۔ دھوپ ، اس کو روشنی یعنی برقی مقناطیسی توانائی سے بھر دیتی ہے۔ یہ وہ روشنی ہے، جس کا سفر سورج کی سطح پر موجود ان گنت ایٹموں کے الیکٹرانز سے شروع ہوتا ہے ،یہ مادّے کے انتہائی چھوٹے ذرّے یعنی الیکٹران، سورج میں ہائیڈروجن کے ہیلئم بننے کے انتہائی طاقتور اور توانائی پیدا کرنے والے عمل فیوژن( Fusion )سے طاقت جذب کرتے ہیں ( کم و بیش یہی عمل یعنی فیوژن ،جس میں ہائیڈروجن کے دو ایٹم باہم ملانے سے ہیلیم بنتی ہے اور تباہ کن توانائی خارج ہوتی ہے، ہائیڈروجن بم میں استعمال ہوتا ہے) اس توانائی کو جذب کر کے دوسرے ایٹموں کے الیکٹران جوشیلی حالت میں چلے جاتے ہیں اور پھر جب یہ اپنے اپنے مرکزوں nuclei کے گرد پہلے سے مقرر توانائی کے مداروں energy shells میں واپس آتے ہیں تو دھوپ کی توانائی ان سے خارج ہوتی ہے جب یہ روشنی درختوں کے پتوں پر پہنچتی ہے تو ان کے مخصوص خلیوں mesophyll cells کی تہوں میں اس توانائی سے بعض پروٹینز proteins کے ذریعہ ( جو اصل میں خودکار ،انتہائی چھوٹی مشینیں ہیں اور یہ فوٹو سسٹم ( photo systems )کہلاتے ہیں ) ۔پانی کے مالیکول توڑ کر الیکٹرون حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ سب عمل انتہائی حیران کن ہے ۔

پھر ان الیکٹرانز کی توانائی کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مالیکیولوں کو جوڑ کر سادہ کاربو ہائیڈریٹس جیسے گلوز بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ گویا وہ برقی مقناطیسی توانائی جو سورج کی سطح پر ایٹموں کے ایلیکٹرانز( electrons )سے خارج ہوئی تھی۔ اس کا کچھ حصہ زمین پر آ کر ان غذائی مالیکیولوں جیسے گلوکوز اور نشاستے ؟؟وغیرہ میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ یہ اصل میں اسی توانائی کی کیمیائی شکل ہے جو ایک ماحول میں تمام جانداروں کی نشوونما اور پرورش کا باعث بنتی ہے۔

ان جانداروں میں وہ جانور بھی شامل ہیں جن میں snail, کچھوے ، سانپ ، پرندے جیسے کٹھ بڑھئی پرندہ woodpecker ، عقاب ، ہرن اور وہ بے شمار کیڑے مکوڑے شامل ہیں۔ ایساہی نظارہ آپ بھی ضرور دیکھتے ہوں گے ،مگر اس کی گہرائی میں اترنے اور اس سے ایسا لطف اٹھانے کے لئے جو آپ کو سرشار کردے سائنسی علم ایک عمدہ رفیق ہے۔ہمارے نظام شمسی کے ستارے کی نئی تصاویر سامنے آئی ہیں جو Inouye سولر ٹیلی اسکوپ نے کھینچی ہیں۔ 

امریکی ریاست ہوائی میں اس ٹیلی اسکوپ نے اپنے کام کا آغاز گزشتہ سال اگست کے آخر میں کیا تھا اور اس حوالے سے سورج کی 2 تصاویر جاری کی گئیں۔ اسے دنیا کی سب سے طاقتور سولر ٹیلی اسکوپ قرار دیا گیا ہے جو سورج کا مشاہدہ انتہائی گہرائی میں جاکر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان میں سے ایک تصویر میں سورج کی سطح کے اس ماحول کو دکھایا گیا ہے جسے chromosphere کہا جاتا ہے۔ اس تصویر میں 51 ہزار میل کے رقبے کو کور کیا گیا ہے۔ ٹیلی اسکوپ کو فنڈز فراہم کرنے والی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر Sethuraman Panchanathan کا کہنا ہے کہ اس ٹیلی اسکوپ سے ہمیں اپنے ستارے کے بارے میں کافی کچھ نیا جاننے کا موقع ملے گا۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کے ایک سابق خلاباز نے تصدیق کی ہے کہ سورج کا رنگ دراصل پیلا نہیں سفید ہے۔ سابق امریکی خلا باز اسکاٹ کیلی نے خلائی حقیقت کی تصدیق کی، ان کے مطابق سورج اصل میں سفید ہے لیکن زمین کے ماحول کی وجہ سے یہ پیلا دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا جب ایک بار کوئی شخص ہمارے سیارے کی ماحولیاتی تہہ سے باہر نکلتا ہے تو سورج سفید نظر آتا ہے۔ ناسا کے مطابق زمین کا ماحول سرخ سے زیادہ نیلی روشنی کو پھیلاتا ہے، نیلی روشنی میں معمولی کمی کا مطلب ہے کہ انسانی آنکھ سورج کے رنگ کو پیلا سمجھتی ہے۔ 

اس کے علاوہ تمام ایکس اور گاما شعاعیں زمین پر ہم تک پہنچنے سے پہلے ہی فلٹر ہوجاتی ہیں اور جیسے جیسے سورج کی روشنی ماحول کی مختلف تہوں سے گزرتی ہے،زیادہ سے زیادہ نیلی روشنی پھیلتی ہے اور پھر زیادہ مقدار میں سرخ روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غروب آفتاب کے وقت سورج اور یہاں تک کہ آسمان بھی سرخ دکھائی دیتا ہے۔ سورج بھی اپنے محور کے گرد مغرب سے مشرق کی طرف گھومتا ہے، سورج کی یہ spin motion زمین کی نسبت کافی سست ہے اور اوسطاً 27 دن میں اپنا ایک سائیکل مکمل کرتا ہے۔ سورج کی گردش کو پہلی مرتبہ سن سپاٹ (sunspots ) کے مشاہدے سے دریافت کیا گیا، سورج پہ موجود یہ دھبے مسلسل اپنی پوزیشن بدل رہے ہوتے ہیں۔ 

سورج ( زمین کے مدار کی نسبت سے) 7.25 ڈگری پر گھومتا ہے اور ہم ستمبر میں سورج کا North پول جب کہ مارچ کے مہینے میں South پول دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ سورج گیس/پلازمہ پر مشتمل ایک بال ہے تو اس کی حرکت ٹھوس سیاروں یا آبجیکٹ سے مختلف ہے۔ سورج کے قطبی حصے (polar regions) عام طور پر سست گردش کرتے ہیں اور 30 سے زیادہ دنوں میں اپنا چکر مکمل کرتے ہیں جب کہ Equatorial regions اپنا ایک چکر 25 (زمینی) دنوں میں مکمل کرتے ہیں۔ ہماری کائنات میں ایک سورج اتنا ٹھنڈا بھی ہے کہ اگر آپ اس کی سطح پر کھڑے ہوں تو اتنی سردی لگے گی جتنی یخ بستہ سردی کی رات میں سوات، کالام کی پہاڑیوں پر لگتی ہے۔ 

اس برفانی سورج کا نام ہے W0855. یہ ہماری زمین سے تقریباً 7 نوری سال دور ہے۔ ہماری زمین سے تقریباً آٹھ سو گنا بڑے اس ٹھنڈے سورج کے کئی نام ہیں؛ زیریں خاکستری سورج، سیارہ نما سورج، ناکام سورج ، لیکن سب سے بہتر نام ٹھنڈا سورج ہے ،کیوں کہ اس کی سطح کا درجۂ حرارت تقریباً منفی 13 درجے سینٹی گریڈ ہے۔ اس کے مرکز میں ہونے والے فیوژن تعاملات اتنے کم مقدار میں ہیں کہ اس کے مزاج کو گرم کر کے اسے آگ بگھولا نہیں کر سکتے لیکن بہرحال ہے تو یہ بھی ایک پورا سورج۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس ٹھنڈے سورج پر پانی بھی ہو سکتا ہے اور شائد زندگی بھی۔

ناسا کا اسٹرنومر ،ڈیوڈ کاربینیو نے دعویٰ کیا تھا کہ یونیورس میں ایک ایسا سیارہ بھی موجود ہے جو مکمل طور پر پانی سے بنا ہے۔ ناسا کے ماہرین نے اُن کو GJ 1214B نام دیا ہے ۔ یہ انتہائی شفاف پانی ہے اور اس پر چٹان یا پتھر کا ایک ٹکڑا بھی موجود نہیں ہے۔ یعنی پانی ہی پانی ہے۔ اس کو Ocean planet بھی کہا جاتا ہے اور یہ زمین سے 40 نوری سال دوری پر واقع ہے۔ (روشنی ایک سال میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے اس کو ایک نوری سال کہتے ہیں)۔اس سیارے کی گریوٹی 8.924 میٹر فی سیکنڈ ہے۔ 

جب کہ اس کی کثافت 1.87m/cm3 ہے اور یہ زمین سے چار گنا بڑا ہے۔ یعنی اس میں چار زمین سما سکتی ہے۔ زمین کے مقابلے میں اس کے چکر لگانے کی رفتار کئی گنا تیز ہے ۔ لیکن کشش ثقل( gravity )کی وجہ سے ایک قطرہ بھی باہر نہیں نکلتا اور سب سے دلچسپ اور حیرانی والی بات یہ ہے کہ ناسا کی ٹیکنالوجی اس سیارے پر لینڈ نہیں کر سکتی، کیوں کہ ایک تو یہ کافی دور ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اس پر پانی ہونے کی وجہ سے لینڈ کرنا مشکل ہے۔

ہمارا سولر سسٹم آج سے تقریبا 4.571 بلین سال پہلے بنا اور ہماری زمین 4.54 بلین سال پہلے بنی اور 3.9 بلین سال پہلے اسٹرائڈ(asteroid) کی بارش ہوئی۔ جسے لونر کیٹالسم کہتے ہیں۔ اور ساتھ ہی کوپر بیلٹ ( kuiper belt) سے کمٹس (comets) بھی زمین پر آئیں ،جس کی وجہ سے ہماری زمین پر پانی آیا۔ 3.9 بلین سال پہلےہمارے سولر سسٹم کے دو بڑے سیارے زحل اور مشتری دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے ،جس کی وجہ سے دونوں نے ایک دوسرے کو ری پیل کیا اور اس کی وجہ سے پورا سولر سسٹم متاثر ہوا اور دو سیاروں نیپچون اور یورینس نےاپنے مدار بھی بدل لیے اور ساتھ ہی اسٹیرائڈ بھی اندر والے سیاروں کی طرف گرنا شروع ہوگئے جن میں مارس، وینس، مرکری اور ہماری زمین بھی شامل تھی۔ 

جب ناسا نے اسٹیرائڈ کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کے اسٹرائیڈ بہت سے منرلز، ایلیمنٹس اور پانی کے مالیکیولز سے بنا ہوا ہے لیکن یہ پانی اتنا نہیں ہے جتنا ہماری زمین پر ہے تو باقی پانی کہاں سے آیا؟ تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ کلیئر ہوا کہ باقی پانی کوپر بیلٹ سے آیا ،جس میں کمنٹ ہوتی ہیں جو کہ گیسز اور پانی سے مل کر بنتی ہیں لیکن یہ برف کی فارم میں ہوتی ہیں اور یہ بھی اسی ایونٹ کے دوران جب مشتری اور زحل ایک دوسرے کے قریب آئے تھے تو یہ بھی زمین کی طرف آئیں اور اپنا پانی زمین کو ٹرانسفر کیا ،اس وقت زمین کا درجہ ٔحرارت دو ہزار ڈگری سینٹی گریڈ تھا، پھر بارشوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس کی وجہ سے زمین ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی۔

خلا سے زمین کیسی دِکھتی ہے؟ دیکھنے والے کہتے ہیں بہت خوبصورت نیلے ماربل جیسی۔ اس گول سے ماربل میں سفید رنگ بادلوں کا ہے جو فضا میں تہہ در تہہ اُڑتے پھرتے ہیں اور نیلا رنگ سمندروں کا سمندروں اور بادلوں کا رشتہ گہرا ہے۔ جب سورج کی روشنی اس سیارے پر پڑتی ہے تو یہاں حرارت کے باعث سمندروں سے بخارات اُٹھتے ہیں جو اوپر فضا میں بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہ بادل دور کے علاقوں میں برستے ہیں۔ میدانوں میںکھیت کھلیانوں میں، صحراؤں میں، پہاڑوں پر۔ 

پہاڑوں پر بادل برس کر برف بنتے ہیں۔ پہاڑ صدیوں سے سمندروں کے پانی کو گلیشئیرز کی صورت محفوظ کیے رکھتے ہیں۔ یہ برف جب پگھلتی ہے تو پہاڑوں میں راستہ بناتی دریاؤں کو سیراب کرتی ہے۔ دریا بہہ کر پھر سے سمندر میں جا ملتے ہیں۔ یوں پانی جہاں سے اُٹھتا ہے پھر وہیں کو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ زمین پر شاید اربوں سالوں سے چلا آ رہا ہے، مگر زمین پر پہلی بارش کب ہوئی؟ اس سوال کا جواب ابھی تک کوئی حاصل نہیں کرسکا۔ شاید اربوں سالوں سے۔

آج جو پانی آسمان سے برستا ہے، جو پانی ہم پیتے ہیں، جو پانی ندی، نالوں اور دریاؤں میں بہتا ہے؟ اور جو پانی سمندروں میں لہروں کی صورت اُٹھتا ہے۔ یہ زمین پر کہاں سے آیا ہے؟ یہ سوال اتنا ہی اہم ہے جتنا یہ جاننا کہ زمین پر زندگی کیسے وجود میں آئی۔ کیونکہ پانی زندگی کے لئے ضروری ہے۔ پانی زندگی کا اہم جُز ہے۔ یہاں تک کہ ہم دوسرے سیاروں پر بھی پانی ڈھونڈتے ہیں کہ اگر وہ مل جائے تو شاید زندگی بھی وہاں ہو۔ زمین پر زندگی کی ابتدا پانی سے بھرے سمندروں میں 3.8 ارب سال پہلے ہوئی۔

نظامِ شمسی میں پانی کہاں سے آیا۔ ہم جانتے ہیں کہ نظامِ شمسی آج سے 4.6 ارب سال پہلے ایک نبیولا سے وجود میں آیا۔ نبیولا دراصل ماضی میں اپنے انجام کو پہنچتے ستاروں کے پھٹنے سے خلا میں بکھری گرد اور گیس کا مجموعہ ہوتا ہے جو وقت کیساتھ ساتھ گریوٹی کے زیر اثر جڑ کر ستاروں اور سیاروں کو جنم دیتا ہے۔ تو گویا پانی اس نبیولا میں ہائیڈروجن اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسے آکسیجن رکھنے والے مالیکول کے کیمیائی تامل سے وجود میں آیا ہو گا۔ نظامِ شمسی کے بننے کے عمل میں کئی بڑے بڑے برف کے ٹکڑے سیارچے کی صورت ایسے ہی بنے ہونگے، مگر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ 

ایسے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ نظامِ شمسی میں کئی ایسے برف کے بنے سیارچے موجود ہیں۔ ان میں سے اکثر اب بھی مریخ اور مشتری کے بیچ کے علاقے میں موجود ہیں۔ اور بہت سے دمدار ستاروں کی صورت سورج کے گرد طویل مداروں میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ کئی سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ایسے ہی کئی برف کے سیارچے ماضی میں زمین سے ٹکرائے، اُس وقت جب زمین ابھی بننے کے عمل سے گزر رہی تھی اور اس کاحصہ بن گئے۔ بعد میں آتش فشاؤں کے پھٹنے سے جمع ہونے والا پانی زمین کی سطح پر آیا، مگر ایک اور خیال یہ ہے کہ زمین بننے کے عمل میں برفیلی چٹانیں پہلے سے ہی زمین کا حصہ تھیں جو بعد میں اس کی سطح پر آ کر اور دوبار سے سطح میں جا کر زمین کو ٹھنڈا کرتی رہیں۔ 

تیسرا خیال یہ ہے کہ زمین پر پانی پہلے سے بھی موجود تھا اور سیارچوں کے گرنے سے بھی آیا۔ وجہ جو بھی ہو ایک بات تو طے ہے کہ آج جو پانی ہم اور آپ پیتے اور استعمال کرتے ہیں یہ زمین کی عمر یعنی 4.5 ارب سال سے بھی پرانا ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ پانی نظامِ شمسی میں کئی جگہوں پر پایا جاتا ہے۔ جیسے مریخ کے جنوبی قطب پر یا چاند کی چٹانوں میں یا مشتری کے چاند یوروپا کی برفیلی تہہ کے نیچے سمندروں میں۔ بارش دوسرے سیاروں پر بھی ہوتی ہے، مگر پانی کی نہیں۔ سیارہ زہرہ جو نظامِ شمسی کا دوسرا سیارہ ہے، اس پر گندھگ کے تیزاب کی بارش ہوتی ہے۔ اسی طرح سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ نیپچون اور یورینس پر ہیرے برستے ہیں، مگر کیا اس کائنات میں کسی اور سیارے پر زمین کی طرح پانی کی بارش ہوتی ہے؟ 

زمین سے 110 نوری سال کے فاصلے پر ماہرینِ فلکیات کو خلا میں موجود ناسا کی کیپلر ٹیلی اسکوپ کے حاصل کردی ڈیٹا کی چھان بین پر ایک سیارہ ملا ہے، یہ سیارہ زمین جیسا ہے، ایک چٹانی سیارہ۔ یعنی وہ سیارہ جس کی ٹھوس سطح بھی ہو، گیس جائنٹ نہیں جیسے کہ مشتری یا نیپچون ہیں جو مکمل گیس سے بنے ہیں اور اُن کی کوئی ٹھوس سطح نہیں۔ اس سیارے کوK2-18b کا نام دیا گیا، جس طرح زمین سورج کے گرد گھومتی ہے بالکل ویسے ہی یہ سیارہ بھی اپنے ستارے کے گرد چکر لگاتا ہے۔ اس سیارے پر پڑنے والی اس کےستارے کی روشنی ، کم و بیش اُتنی ہی ہے جتنی زمین پر سورج سے پڑتی ہے۔ 

اس سیارے کی فضا کا حساس سائنسی آلات جیسے کہ اسپیکٹرومیٹر سے جائزہ لینے پر یہ معلوم ہوا ہے کہ یہاں پانی کے بخارات ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ بخارات دراصل پانی کے بادل ہیں جن سے ممکنہ طور پر سیارے پر بارش ہوتی ہو۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہماری زمین پر پانی برستا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ممکن ہے یہاں بھی زندگی ہو۔ اب سے کھربوں سالوں بعد ہماری کائنات اپنے انجام سے دوچار ہوجائے گی تمام ستارے ختم ہوجائیں گے اور ٹمٹمانا بند کردیں گے کائنات بے انتہا وسیع اور بے انتہا سرد ہوجائے گی۔ طبیعیات کے قوانین اس بات کے ضامن ہیں کہ اس وقت تمام ذہین مخلوقات فنا ہوجائیں گی۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید