نئے سال کا آغاز جہاں گذشتہ برس کی کام یابیوں اور نا کامیوں کی یاد دلاتا ہے وہیں ہمیں آنے والے سال کے لیے امیدوں اور مسائل سے نبرد آزما ہونے کا خیال بھی دلاتا ہے۔ 2023 میں ہمیں کن مسائل کا سامنا کرنا ہو گا اور کون سے چیلنجزلاحق ہو سکتے ہیں۔ آئیے اُن پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
معاشی چیلنج
سال کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہوگا وہ ملک کو معاشی تباہی کے دہانے سے واپس لانے کاہو گا۔ یوں تو معاشی چیلنج ہمیں ہمیشہ ہی درپیش رہے ہیں، مگر اس سال کی کہانی کچھ اور ہوگی۔ یہ معاشی بحران اپنی نوعیت کا شدید ترین بحران ہے جس سے نپٹنا آسان نہیں ہوگا۔ دراصل 2018 کے بعد عمران خان کی حکومت نے معیشت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ،اس نے معیشت کا تقریباً دیوالیہ نکال دیا ہے۔
اس کے نتیجے میں 2022 کے آتے آتے معیشت بالکل ڈانوا ڈول ہو چکی تھی۔ اپریل 2022 میں شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت بنی تو پہلے مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنایا گیا جو پوری کوشش کر رہے تھے معیشت کو مشکل سے نکالنے کی مگر اچانک لندن سے اسحاق ڈار آگئے اور مفتاح اسماعیل سے وزارت لے لی گئی۔ اسحاق ڈار نے دعوے تو بہت کئے مگر انہیں عملی جامہ نہ پہنا سکے،نہ ہی ڈالر نیچے آسکا اور نہ ہی تیل اور گیس کی قمیتوں اور فراہمی میں بہتری آسکی۔
اب 2023 میں معاشی چیلنج کا بڑا دارو مدار اس بات پر ہوگا کہ آئی اے ایف کی شرائط کو کس طرح عملی طور پر نافذ کیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط ایک ہی طرح کی ہوتی ہیں یعنی یہ کہ ملک اپنی آمدنی اور اخراجات میں توازن پیدا کرے۔
پاکستان کے لیے 2023 میں یہ توازن حاصل کرنا بڑا ضروری ہے اس کے لیے پہلے تو آمدنی کے ذرائع بڑھانے کا چیلنج ہوگا یعنی محصولات میں اضافہ کرنا ہوگا، اس کے لیے مزید ٹیکس لگانے ہوں گے، جو عوام کی کمر توڑ کر رکھ دیں گے۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ امیروں پر زیادہ ٹیکس لگایا جائے۔ پاکستان میں انکم ٹیکس دینے والوں کا تناسب بہت کم ہے اسے بڑھانے کی بھر پور کوشش کرنا ہوگی۔
عوام تقریباً ہر چھوٹی بڑی چیز پر ٹیکس ادا کرتے ہیں، جو سیلز ٹیکس کی شکل میں ہوتا ہے ، جب کہ تنخواہ دار طبقے پر بھی ٹیکس تنخواہ ملنے سے قبل ہی کاٹ لیا جاتا ہے جو لوگ بچ جاتے ہیں وہ زمین دار، جاگیردار، سرمایہ دار اور کاروباری لوگ ہوتے ہیں جو صرف واجبی سا ٹیکس ادا کرکے ارب پتی بن جاتے ہیں،ان لوگوں کو ٹیکس کے جال میں لانا 2023 کا بڑا چیلنج ہوگا۔
معاشی طور پر مہنگائی کم کرنا بھی ایک جان جوکھوں کا کام ہے، لوگ منگائی سے تنگ آچکے ہیں مگر حکومت 2022 میں تمام تر وعدوں کے باوجود مہنگائی کم نہ کرسکی، اس کی بڑی وجہ افراط زر ہے یعنی حکومت نوٹ چھاپ کر اپنے کام نکالتی ہے، مگر اس کے لیے موجود زرمبادلہ بہت کم ہے۔
2023 میں حکومت کو نوٹ چھاپنے کے بجائے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھانے پر توجہ دینی ہوگی، جس کے بغیر پاکستانی روپیہ مزید گرتا جائے گا اور درآمدات مہنگی ہوتی جائیں گی۔
اخراجات کم کرنا ایک معاشی چیلنج ہوگا، جس کے لیے ہمیں تمام اخراجات کے گوشواروں کو دیکھنا ہوگا ۔ ہمارے سب سے زیادہ اخراجات قرضوں کی ادائیگی اور دفاع یہ خرچ ہوتے ہیں، ان دونوں پر قابو پانا ہوگا۔ قرضے لے لے کر ہم پر ایک پہاڑ کھڑا کر دیا گیا ہے جو عبور کرنا آسان نہیں۔ حکومت کے لیے چیلنج ہوگا کہ وہ قرضوں کے بجائے تجارت کے لیے زر مبادلہ حاصل کرے مگر ملکی صنعت اور زراعت میں اتنی سکت نہیں کہ دنیا کو بہت کچھ بیچ سکے۔
گیس اور بجلی کے بحران کو حل کئے بغیر نہ صنعت چل سکتی ہے اور نہ زراعت ۔ پاکستان میں توانائی کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں، حتی کہ گھریلو صارفین کے لیے بھی بجلی اور گیس میسر نہیں ہے، ایسے میں حکومت کو دفاعی اخراجات پر نظر رکھنا ہوگی۔
دنیا بھر میں دفاعی اخراجات کو غیر پیداواری مد میں رکھا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ افواج ملکی معیشت کی بہتری کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی،اس لیے پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات ضروری ہیں، تا کہ سرحدوں کی حفاظت پر کم خرچ ہو اور عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیجات میں شامل کیا جائے۔
گردشی قرضوں پر قابو پانے کے لیے بھی بڑے چیلنج کا سامنا ہوگا ۔گردشی قرضہ وہ ہوتا ہے جو توانائی فراہم کرنے والے اداروں کی وجہ سے بڑھتا چلا جاتا ہے اس طرح بجلی کی فراہمی بھی متاثر ہوتی ہے اور قیمتیں بھی۔ حکومت کو 2023 میں توانائی کے متبادل ذرائع کھوجنے ہوں گے۔ پاکستان کو شمسی توانائی اور پون بجلی یا ہوا کے ذریعے حاصل کی گئی توانائی پر توجہ دینا ہوگی ۔ 2023 میں ملک میں مزید شمسی توانائی کے منصوبے شروع کرنے ہوں گے، جن کے بغیر آنے والے برسوں میں توانائی کا شدید بحران پیدا ہوگا جو معیشت کو مزید تباہ کرے گا۔ معاشی مسائل کے حل کے لیے جنوبی ایشیا میں سارک کی تنظیم کو دوبارہ فعال کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اس وقت بھارت، بنگلا دیش،؛ ایران اور افغانستان وغیرہ سے کوئی زیادہ تجارت نہیں کر رہا ،جس کی بڑی وجہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہے، جو ہر تعلق کو کشمیر کے تناظر میں دیکھتی ہے ۔ اب اس سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کی بحالی میں پڑوسیوں سے بہتر تعلقات کلیدی کردار کرسکتے ہیں، مگر اس کے لیے ہمیں ماضی کی بھول بھلیوں سے نکل کر حالیہ دور کی معاشی حقیقتوں کو سمجھنا ہوگا ۔ ہم ماضی کے قیدی رہ کر مستقبل کی تعمیر نہیں کرسکتے ۔ اس کے لیے بڑے قدم اٹھانے ہوں گے۔
معاشی محاذ پر ایک اور بڑا چیلنج سیلاب زدگان کی بحالی بھی ہے، جس ملک میں سیلاب سے تین کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہوں اور لاکھوں گھر، کاروبار، مویشی تباہ ہوگئے ہوں، وہاں عوام کی بحالی کے بغیر معاشی بہتری کے خواب دیکھنا ٹھیک نہیں، اس کے لیے صرف بیرونی امداد پر بھروسا کرنا یا بار بار بین الاقوامی اداروں کی طرف دیکھنا بھی ٹھیک نہیں۔ ایک جامع منصوبہ بندی کی تیاری ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ سندھ اور بلوچستان کے بڑے حصے میں ہزاروں اسکول اور صحت کے مراکز تباہ ہوچکے ہیں،ان کی تعمیر نو ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
اسکولوں کے تباہ ہونے سے نئی نسل کے تعلیمی مواقع کم سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ نو جوانوں میں تعلیم اور مہارت کی کمی ہے ،جس کے باعث وہ روزگار کے میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آخر میں معاشی طور پر یہ بھی چیلنج ہے کہ، امیر اور غریب کے فرق کو کم کیا جائے۔ اس ملک میں ایک طرف ارب پتی اور کھرب پتی لوگ ہیں تو دوسری طرف نان شبینہ سے محروم لوگوں کی بڑی تعداد ہے، جو کروڑوں میں ہے، اس فرق کو کم کرنا 2023 کا سب سے بڑا چیلنج ہوگا، اگر حکومت وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں معاشی بحرانوں پر قابو پالیتی ہے تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔
سیاسی چیلنج
سیاسی طور پر ملک اس وقت شدید انتشار کا شکار ہے،2023 کے آغاز سے ہی اس انتشار میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ ویسے تو ملک میں سیاسی چیلنج کچھ کم نہیں مگر اب سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ عمران خان کے حملہ آور رویے سے کیسے مقابلہ کیا جائے ۔ خان صاحب نے ایک آئینی تحریک عدم اعتماد کو قبول نہیں کیا اور اسے ایک بیرونی سازش قرار دیتے رہے،پھر اس سازش میں فوج کے سربراہ کو ملوث کرنے کی کوشش کی۔
قوی امکان ہے کہ2023میں عمران خان کی جنگ جاری رہے گی اور وہ حکومت کو چین سے بیٹھنے نہیں دیں گے ۔ اس وجہ سے اگست 2023 تک موجودہ حکومت کے لیے ایک کے بعد ایک تنازع پیدا کیا جا سکتا ہے، جس سے نمٹنا آسان نہ ہوگا۔ اس وقت وفاقی حکومت کی بد قسمتی یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جماعت مسلم لیگ نون کی چار میں سے ایک بھی صوبے میں حکومت نہیں ہے، اس لیے وفاقی حکومت ایک بہت نازک ڈور کے بندھی ہوئی ہے۔ دو صوبوں میں پی ٹی آئی اور اس کی حمایت یافتہ جماعت کی حکومتیں ہیں جو وفاق کے لیے بڑا چیلنج ہیں ۔ پنجاب، اپنی سیاست میں مسلسل انتشار کا شکار رہا ہے،2023 میں بھی اس کے جاری رہنے کا امکان ہے۔
پنجاب کے لیے سب سے بڑا سیاسی چیلنج یہ ہوگا کہ کس طرح صرف دس ارکانِ اسمبلی کے ساتھ وزیر اعلی بننے والے پرویز الٰہی کی حکومت کو نمائندہ حکومت میں تبدیل کیا جائے۔ اس سے قبل تقریباً ربع صدی پہلے 1990 میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں میاں منظور وٹو کی اسی طرح لاٹری نکل آئی تھی جب وہ پی پی کی حمایت سے دو سال وزیر اعلیٰ رہے ،جب کہ اُن کی جماعت کے بہت کم ارکان پنجاب اسمبلی کے رکن تھے ۔ پنجاب کے لیے دوسرا بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ عثمان بزدار کے تقریباً چار سالہ دور کے تباہ کن اثرات سے کیسے نکلا جائے۔ عثمان بزدار ایک یونین کونسل اور تحصیل کی سطح کے سیاست دان تھے، جنہیں عمران خان نے تمام مشورے نظر انداز کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بنایا۔
پنجاب کا ایک اور سیاسی چیلنج یہ گا کہ کس طرح مقامی حکومتوں کے نظام کو مستحکم کیا جائے اس وقت صوبے میں قائم مقامی حکومتوں کا نظام ناکارہ ہے اور یہ چیلنج پورے ملک کو درپیش ہے ۔ چاروں صوبوں میں سے کہیں بھی مقامی حکومتوں کا نظام موثر طریقے سے کام نہیں کر رہا، صوبائی حکومتیں اور صوبائی اسمبلی کے ارکان اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح تمام اختیارات خود اپنے پاس رکھیں اس طرح جمہوریت کی مکمل نفی کی جاتی ہے۔
سندھ کے لیے بھی یہ ہی چیلنج ہوگا۔ ایک طرف تو سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی صوبائی حکومت کے پندرہ سال 2023 میں مکمل کر لے گی اور دوسری طرف طرزِ حکمرانی میں بہتری کا چیلنج درپیش ہوگا ۔ سندھ حکومت بھی مختلف حیلوں بہانوں سے کراچی اور حیدرآباد میں مقامی حکومتوں کو بحال کرنے کے حق میں نہیں ہے، جس کے نتیجے میں ان شہروں میں ساری سہولتیں مفقود ہیں ۔ سب سے خراب حالت کراچی، حیدرآباد کی سڑکوں کی ہے، جہاں بھی جایں، سڑکیں ٹوٹی ہوئی نظر آتی ہیں اور گرد و غبار کے طوفان اُٹھتے رہتے ہیں۔
جب تک مقامی حکومتوں کو سیاسی طور پر مستحکم نہیں کیا جائے گا شہروں حتی کہ دیہی علاقوں کے مسائل حل نہیں ہوتے نظر آرہے۔
وفاقی حکومت کے لیے سیاسی چیلنج اپنی مدت کی تکمیل اور پھر 2023 کے نصف آخر میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہوگا ۔ ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال میں سیکڑوں ارب روپے کا بندوبست کرکے عام انتخابات کرانا کوئی آسان کام نہیں ہے، اس کے علاوہ عمران خان کو نگران وزيراعظم اور حکومت کے لیے راضی کرنا بھی ایک چیلنج ہوگا ،کیوں کہ وہ کسی پر بھی اعتبار کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے، اُن کی نظر میں عدلیہ، فوج، الیکشن کمیشن کوئی بھی غیر جانب دار نہیں ،اس لیے ایک متفقہ سیٹ اپ کی تیاری کے لیے عمران خان کا راضی ہونا خاصا مشکل ہوگا۔
2023 میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ سیاسی انتشار مزید بڑھے گا، اس کے لیے عمران خان کی کوشش ہوگی کہ کسی بات کو نہ مانا جائے تاکہ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ اگر عمران خان کی حکومت نہیں آتی تو کسی کو بھی حکومت نہ کرنے دی جائے۔ اس مقصد کے لیے عمران خان ایسے حالات پیدا کرسکتے ہیں کہ آئینی اور سیاسی بحران ناقابل عمل حد تک خراب ہوجائے تاکہ پھر فوج اور عدلیہ کو مداخلت کرکے یا تو مارشل لاء لگانا پڑے یا پھر عدلیہ کی منظوری سے تین چار سالہ عارضی سیٹ اپ تیار کیا جائے ،جس میں نام نہاد ٹیکنو کریٹس حکومت ہو ۔ اس طرح کے تجربے پہلے بھی ناکام ہوچکے ہیں اور اگر اس بار بھی پھر کوشش کی گئی تو سیاست اور جمہوریت دونوں کو نقصان پہنچے گا، جس کے نتیجے میں غیر سیاسی حکومتیں اور ادارے مزید مضبوط ہوں گے۔
سیاسی طور پر تمام جماعتوں کے لیے 2023 کا سب سے بڑا چیلنج عوام میں اپنی مقبولیت قائم کرنا ہوگا ،تاکہ لوگ انتخابات میں رائے دہی کے لیے آئیں ورنہ عین ممکن ہے کہ انتخابات میں عوام کم تعداد میں ووٹ کاسٹ کرنے آئیں ،جس کے نتیجے میں الیکشن کا عمل کامیاب نہ ہوسکے اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا چیلنج درپیش ہوگا ،اگر انتخابات میں بہت کم لوگ آئے تو منتخب حکومت کے پاس جواز نہیں ہوگا۔
آخری سیاسی چیلنج پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری ہوگا ۔ اس وقت تک سیاسی حکومت چاہنے کے باوجود خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے کی حالت میں نہیں ہوتی جب تک کہ سویلین بالا دستی کا مکمل نفاذ نہیں ہوگا ،پڑوسی ممالک سے کوئی سیاسی حکومت تعلقات بہتر نہیں کرسکے گی۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ریاستی ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں اور سیاسی معاملات بشمول داخلہ اور خارجہ پالیسی کے لیے مشورے ضرور دیں ،مگر ان پر بالا دستی کی کوشش نہ کریں۔
2023 میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ عدلیہ زیادہ فعال کردار ادا کرے اور جب سیاسی جماعتیں بار بار عدلیہ کے پاس جاتی نہیں تو وہ اپنی مرضی کے فیصلے بھی دے دیتے ہیں یعنی عدلیہ کی حکم عدولی ممکن نہیں ہوتی جیسا کہ پنجاب کے معاملے میں ہم دیکھتے رہے ہیں۔
سیاسی طور پر استحکام اگر 2023 میں قائم ہوجاتا ہے تو یہ سیاسی جماعتوں کی بڑی کامیابی ہوگئی مگر خاص طور پر تحریک انصاف سے تعاون کی توقع بہت کم ہے، کیوں کہ وہ ہر قیمت پر دیگر بڑی جماعتوں اور اداروں سے بیک وقت محاذ آرائی کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہے، جس کا سیاسی عمل کو نقصان ہوتا رہا ہے۔
دہشت گردی کا خاتمہ ،بڑاچیلنج
2022کے اواخر میں دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر سر اٹھائے ہمارے سامنے کھڑا رہا۔ اب2023 میں اس چیلنج کا مقابلہ کرنا اولین ترجیح ہوگی۔
2023 میں یہ خطرہ اس لیے بھی بڑھنے کا امکان ہے کہ طالبان افغانستان پر قابض ہیں اور اُن کے پاس امریکا کے چھوڑے ہوئے جدید ترین ہتھیار ہیں جو وہ دہشت گردی کے لیے استعمال کررہے ہیں مثلاً بڑی تعداد میں رات کو دیکھنے والے چشمے اُن کی مدد کر رہے ہیں اور وہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوکر بے خوفی سے کاروائیاں کررہے ہیں ۔ طالبان کی حکومت افغانستان میں قائم ہونے سے ان کے ساتھی جنگ جو بڑے حوصلہ مند ہوچکے ہیں۔ اس لیے ہمارے اداروں کے لیے 2023 میں دہشت گردی کا خاتمہ بڑا چیلنج ہوگا۔
تعلیمی چیلنج
تعلیمی میدان میں پاکستان اس وقت دنیا میں سب سے نچلے درجوں پر نظر آتا ہے۔ اندازوں کے مطابق اس وقت ملک کی تقریباً نصف آبادی ان پڑھ ہے، اس کا مطلب ہے کہ اگر بہت چھوٹے بچوں کو نکال بھی دیا جائے تو کم از کم دس کروڑ افراد لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ یہ بھارت کے بعد ان پڑھ لوگوں کی دنیا میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ لیکن چوں کہ بھارت کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے اس لیے پاکستان تناسب کے لحاظ سے دنیا کا سب سے ان پڑھ ملک گنا جاتا ہے۔ اس وقت دو سے ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے اور اگر جاتے بھی ہیں تو اُن کی تعلیمی صلاحیتیں بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں۔ سرکاری اسکولوں کا تو حال خراب ہے۔
زیادہ تر اسکولوں میں نہ پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے اور نہ صاف ستھرے بیت الخلا، جس کے نتیجے میں نجی اسکول خوب پیسے کما رہے ہیں اور واجبی سی تعلیم دے کر فارغ ہوجاتے ہیں۔ یہ ہی حال اعلیٰ تعلیم کا ہے، تنقیدی صلاحیتیں نہ پنپنے کے باعث اکثر طالب علم ،اسناد تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم رہتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کو اچھی ملازمتیں نہیں مل سکتیں اور وہ بے روزگاروں کی فوج میں اضافہ کیے جاتے ہیں۔ اس طرح لگتا ہے، 2023 میں تعلیم کا چیلنج بدستور موجود رہے گا اور حکومت شاید اس سال بھی کچھ نہ کرسکے۔
سماجی چیلنج
2023 میں پاکستان کو کچھ سماجی چیلنج کا سامنا بھی کرنا ہوگا ۔ سماجی طور پر پاکستانی معاشرہ شکست و ریخت کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت کھوتے جارہے ہیں۔ سماجی تعلقات صرف مفادات کے تابع نظر آتے ہیں اور جہاں ذاتی مفادات کو زک پہنچنے کا امکان ہو وہاں لوگ سماجی رشتے نظر انداز کردیتے ہیں ۔ مثلاً سڑک پر چلتے ہوئے، گاڑی چلاتے ہوئے، کوئی ٹکٹ خریدتے وقت، ایسا لگتا ہے ہر کوئی ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کے لیے تیار ہے۔ کسی قسم کا لحاظ مروت اور رواداری نظر نہیں آتی ہر کوئی ایک دوڑ میں لگا ہوا ہے اور یہ سب سماجی سطح پر انتہائی خطرناک رویے ہیں، جو معاشرے کی مجموعی پسماندگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ کوئی نیا چیلنج نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی فوری حل ہے لیکن چیلنج تو بہرحال ہے۔
توانائی کا چیلنج
پاکستان اس وقت توانائی کی شدید کمی کا شکار ہے اور 2023 میں یہ کمی مزید تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نہ تو گھریلو صارفین کے لیے کافی گیس میسر ہے اور نہ ہی بجلی کی فراہمی تسلسل سے جاری رہتی ہے، جس کا اثر صنعتوں اور کاروبار پر بھی پڑ رہا ہے۔ مہنگی توانائی خریدنے کے باعث ہماری مصنوعات مہنگی ہوتی جاتی ہیں اور بین الاقوامی منڈی میں دیگر ممالک کی سستی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ یہی حال تیل سے حاصل ہونے والی توانائی کا ہے۔
ہماری درآمدات کا بڑا حصہ تیل پر مشتمل ہے جس کے لیے ہمیں زر مبادلہ ادا کرنا پڑتا ہے اور زرمبادلہ کے لیے ہمیں سستی مصنوعات بیچنی ہوتی ہیں، جو اب ہمارے لیے ممکن نہیں۔ اس طرح گردشی قرضے بڑھتے چلے جارہے ہیں جو اس وقت ڈھائی ہزار ارب کی حد کو چھو رہے ہیں اور حکومت کے پاس اس قرضے کی ادائیگی کا کوئی طریقہ ہے اور نہ اس میں کمی کا۔ توانائی چیلنج ایک بڑا چیلنج ہے، جس پر ہماری معیشت اور سماجی بہتری کا انحصار ہے، مگر فی الوقت اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے حکومت وقت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے سوائے وعدے وعید کے ۔ یہ 2023 توانائی کے حوالے سے بڑا کٹھن ہوگا۔