وہ جن پہ ناز ہم کرتے رہے ہیں
مسلّح دوست اب دشمن بنے ہیں
دھماکے مسجدوں میں کررہے ہیں
جوانوں کو ہمارے مارتے ہیں
دعائیں اپنی واپس آرہی ہیں
امنگیں راکھ ہوتی جارہی ہیں
سنو کیاکہہ رہی ہیں آتی نسلیں
لہوشعلے تباہی زخم لاشیں
یہ ورثہ دے رہی ہیں جاتی نسلیں
پشاور کتنی صدیوں سے حملہ آوروںکا براہ راست ہدف ہے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں بھی ہمارے پشاوری بھائی بہنیں امریکہ روس کی افغان جنگ کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ 90کی دہائی نے پشاور کے گلی کوچوں میں خون بہتے دیکھا۔ آفریں ہے اہل پشاور پر کہ وہ مجسم ہمت اور جرأت بنے ہوئے ہیں۔ اپنوں کی غلط پالیسیوں۔ اپنے کلمہ گو بھائیوں کے انتقام کا مرکز بنے رہتے ہیں۔اب اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی جہاد کے نام پر اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہانے والوں نے پشاور کو ہی چُنا ہے۔ ابھی تک آرمی پبلک اسکول پشاور کے پھولوں کے خون کی خوشبو پاکستانی نہیں بھولے۔ ہر 16 دسمبر ان معصوموں کے چہرے ان کے والدین کی نمناک آنکھیں ،ہمیں بے چین کردیتی ہیں۔ اب پھر اللہ کے گھر کو خون میں نہلادیا گیا۔ یہ کیسے جہادی ہیں۔ قتل و غارت گری کے لئے مسجد کا نشانہ بناتے ہیںجہاں خلق خدا اپنے خالق کے حضور سجدہ ریز ہونے آتی ہے۔
لیڈی ریڈنگ اسپتال کو دل کی گہرائی سے سلام۔ مرد ڈاکٹروں، لیڈی ڈاکٹروں، وارڈ بوائز، خاکروبوں کو آفریں نہ جانے کتنے سال سے وہ اپنے ہم وطنوں کی لاشیں احترام سے وصول کررہے ہیں۔ کتنے زخمیوں کی جانیں بچارہے ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں ان کے نام سنہرے الفاظ سے لکھے جارہے ہیں۔ یہ ہمارے غازی ہیں ،ہمارے ہیرو ہیں۔ یہ کبھی گھبراتے ہیں نہ ڈیوٹی سے جان چھڑاتے ہیں، ہر وقت سینہ سپر، ہر وقت جان ہتھیلی پر۔ پورا پاکستان ان کی جتنی قدر کرے کم ہے۔
ہم تو مطمئن ہوگئے تھے۔ ہمیں بتایا جارہا تھا ۔ عسکری حلقوں کی طرف سے بھی۔ حکومتوں کی جانب سے بھی کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ آپریشن کامیاب ہوگئے ہیں۔ لیکن اب پھر خیبرپختونخوا۔ قبائلی علاقے۔ کے پی کے شہر پھر دہشت گردوں کی زد میں ہیں۔ پولیس اورہماری عساکر ان کا خاص طور پر نشانہ ہیں۔ ہم خوش ہوئے تھے کہ افغانستان سے غیر ملکی سامراجی طاقت 20 سال کی جارحیت۔ اربوں ڈالر خرچ کرنے۔ اپنے یورپی ایشیائی اتحادیوں کی فوج کشی کے باوجود شکست کھاکر افغانستان خالی کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ طالبان جیت گئے ہیں۔ اسلام کو فتح حاصل ہوئی ہے۔ اب افغانستان کی زمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہوگی۔ اب امریکہ پاکستان کو ’ڈومور‘ نہیں کہہ سکے گا۔عوام بھی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب دھماکے نہیں ہوں گے۔ اب ہمارے محافظوں پر حملے نہیںہوں گے۔ حکمرانوں کی ترجیح بھی اب شدت پسندی کا خاتمہ نہیں رہی تھی۔ہم اس خام خیالی میں مبتلا ہوگئے کہ اب ’را‘ نے تخریبی کارروائیاں ترک کردی ہیں۔
دہشت گردی کی یہ بہت ہی خطرناک لہر ایسے حالات میں شروع ہوئی ہے جب حکمرانوں کے ہاتھ باگ پر ہیں نہ پائوں رکاب میں۔ معیشت دگرگوں ہے۔ ڈالر روپے کو روند رہا ہے۔ ضروری اشیاء کی قیمتیں اکثریت کی قوت خرید سے کہیں زیادہ ہیں۔ انارکی زوروں پر ہے۔ واہگہ سے گوادر تک بے چینی ہے۔ ایسے میں دہشت گرد ہماری صفوں میں داخل ہورہے ہیں۔ ہر طرف سے ناکوں میں گھری پولیس لائنز کی مسجد میں پہلی صف تک دشمن پہنچ گیا ہے۔ 100سے زیادہ گھر اُجڑ گئے ہیں۔ مائوں کی گود خالی ہوگئی ہے۔ بہنوں کے بھائی چلے گئے ہیں۔ کتنے بچے بچیاں یتیم ہوگئے ہیں۔ بوڑھے باپ اپنے بیٹوں کے جنازوں کو کندھا دے رہے ہیں۔ 150 سے زیادہ زخمی ہیں۔ کتنوں کے معذور ہونے کا خطرہ ہے۔
80 اور 90 کی دہائیوں میں پھر نائن الیون کے بعد جب خود کش دھماکے ہورہے تھے۔ ہم اس وقت بھی عرض کرتے تھے کہ یہ صرف امن و امان اور سیکورٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ عقیدوں کا مسئلہ ہے ۔ہم وطنوں کی ایک بڑی تعداد امریکہ کا ساتھ دینے پر ہمیں گمراہ اور مرتد سمجھتی ہے۔ فتوے جاری کئےجارہے ہیں۔ جہاں خود کش ذہن تیار کئےجارہے ہیں، وہاں کام کرنے کی ضرورت ہے۔علمائے حق کو آگے آنا چاہئے۔ یہ اعتقادات میں تضاد کا سوال ہے۔ نوجوانوں کے ذہن بدلے جارہے ہیں۔ اس دہشت گردی اور خود کش رجحان کو جنت کا راستہ باور کروایا جارہا ہے۔ صرف ہتھیاروں سے نہیں۔ ذہنوں کو قرآنی تعلیمات ، احادیث اور دلائل سے متاثر کرنے کی ضرورت ہے۔ فوج نے کچھ علاقوں میں ذہن بدلنےکے لئےDeradiclisation کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ متاثرہ علاقوں میں نوجوانوں کی میٹرک تک تعلیم اس کے بعد ان کے لئے کسی ہُنر کی تربیت اور علما کے بیانات کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے عظیم سانحے نے پورے ملک میں مائوں کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان وجود میں آیا۔ فوج، حکمراں اپوزیشن سب مل کر بیٹھے۔ لیکن پھر دوسرے رجحانات غالب آگئے۔ ہوس زر نے حکمرانوں کے راستے بدل دیے۔ اکثریت کو اپنا غلام سمجھ لیا گیا۔ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت۔ آئین کی حدود سے تجاوز کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک کی اکثریت موجودہ انداز حکمرانی سے بے زار ہے۔پارلیمانی جمہوریت جاگیرداروں کا مشغلہ بن چکی ہے۔ فوجی حکومتیں بھی اصل مسائل کو حل نہیں کرسکی ہیں۔ کوئی سسٹم نہیں دے سکیں۔ بہت سے جائزے، سروے کہتے ہیں پاکستانیوں کی اکثریت اسلامی نظام میں اپنی بقا خیال کرتی ہے۔ لیکن کوئی پارٹی مکمل اسلامی نظام کی دستاویز لے کر نہیںآتی ۔ امریکہ برطانیہ کو ہماری اکثریت اپنے تمام سانحوں کا ذمہ دار سمجھتی ہے کہ وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستانیوں کو اقتصادی اور علمی طور پر اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کی یہ لہر نہ تو اچانک ہے اور نہ عبوری۔ یہ آئندہ کئی برس کے لائحہ عمل کے تحت ہورہی ہے۔ ریاست پاکستان کو اس کے مضمرات کا ادراک کرتے ہوئے اجتماعی طور پر آئندہ پندرہ بیس برس کا روڈ میپ بنانا چاہئے۔ جس میں اکثریت کی رائے کو ترجیح دی جائے۔ اپنی پسند کے اچھے برے طالبان، اپنی پسند کے اچھے برے حکمرانوں کی تخصیص چھوڑ کر عوام کی اکثریت کی پسند پر اعتبار کیا جائے۔ سانحہ پولیس لائنز پشاور کو فیصلہ کن موڑ سمجھیں۔ خدارا ایسے اور سانحے برپا نہ ہونے دیں۔