• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیلوریز، غذا میں موجود توانائی ناپنے کی اکائی

کیا یومیہ بنیاد پر کیلوری کی مقدار کم کرنے سے انسان اپنا وزن کم کرسکتا ہے؟ عمومی طور پر لوگ یہی خیال کرتے ہیں لیکن کچھ ماہرین کیلوری کے حساب کتاب کو ناصرف ایک پرانا طریقہ مانتے ہیں بلکہ وہ اسے خطرناک بات بھی تصور کرتے ہیں۔ کیلوری یا حرارہ کھانے میں موجود توانائی یا غذائی قدر کو ظاہر کرنے کی اکائی ہے۔

فرانسیسی سائنسدان ڈاکٹر نکولس کلیمنٹس نے کیلوری کی تعریف اس طرح کی ہے کہ یہ سطح سمندر پر ایک لیٹر پانی کو ایک سینٹی گریڈ تک بڑھانے کے لیے لی جانے والی حرارت کی مقدار ہے۔ اس لیے آج لغت میں اس کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک کیلوری کا مطلب ایک کلو پانی کے درجہ حرارت کو ایک سینٹی گریڈ تک بڑھانے کے لیے درکار توانائی ہے۔ اس طرح ایک ہزار کیلوریز مل کر ایک کلو کیلوریز بنتی ہیں۔

کیلوری کی دریافت

کھانے کی اشیا میں کیلوری کی مقدار کو درست طریقے سے ناپنے کی سائنسی صلاحیت کا حصول ایک تاريخی لمحہ تھا جس نے بہت سی چیزوں کو بدل کر رکھ دیا۔ کھانے کے بارے میں ہمارے مفروضوں اور خیالات میں بڑی تبدیلی آئی اور لوگوں نے خوراک کو پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، مائیکرو نیوٹرینٹس، چکنائی وغیرہ کے مجموعے کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ جسم کو اب ایک انجن کے طور پر اور کھانے کو ایندھن کے طور پر دیکھا جانے لگا اور لوگوں کے کھانے کو جانچنے کا معیار بدل گیا۔

غذائیت ناپنے کی اس اکائی نے بیسویں صدی میں عوامی پالیسی کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا۔ بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی میں جاپان اور بعد ازاں امریکا نے کیلوری کے حساب کتاب کا استعمال کیا اور انھوں نے خشک سالی کے شکار ممالک کو بھیجنے کے لیے امدادی خوراک کے تعین کے لیے ایسا کیا۔ اس کے ساتھ ہی پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر ورسائی معاہدے سے ابھرنے والی تنظیم لیگ آف نیشنز نے غذائیت کا مطالعہ کیا اور اس نے1935ء میں عالمی سطح پر ایک معیاری درجہ بندی قائم کی جس کی رو سے ایک بالغ شخص کے لیے روزانہ 2500 کیلوریز ضروری قرار پائی۔

اب بڑے پیمانے پر ایک مرد کے لیے مقبول عام معیار 2,500کیلوریز اور عورت کے لیے 2,000 کیلوریز یومیہ ہے۔ تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چہ مختلف کھانوں میں توانائی کی قدریں یکساں ہوں تو بھی وہ ایک جیسے صحتمند یا غذائی فوائد نہیں دے سکتے۔ ماہر جینیات جائلز ییو اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’درحقیقت ہم کیلوریز نہیں کھاتے بلکہ ہمارے جسم کو کھانے سے کیلوریز نکالنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔ ہم کس قسم کا کھانا کھاتے ہیں، گاجر، ڈونٹ یا گوشت، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہمارے جسم کو اس سے کیلوری حاصل کرنے کے لیے مختلف ڈگریوں میں کام کرنا پڑتا ہے۔‘

ہم سپر مارکیٹ میں کھانے والی اشیا کے پیکٹ پر جو لیبل دیکھتے ہیں، وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کھانے والی اشیا میں کتنی کیلوریز ہیں لیکن یہ آپ کو اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیتے کہ ہمارا جسم اس میں سے کتنا جذب کر سکے گا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہم جو پروٹین کھاتے ہیں اس کی ہر 100 کیلوریز میں سے ہم صرف 70 کیلوریز جذب کرتے ہیں۔ لہٰذا جتنی پروٹین کیلوریز چاہیے اس کے لیے ہمیں 30 فیصد پروٹین اضافی لینا ہوگی تاکہ ہم مطلوبہ کیلوریز کو جذب کر سکیں۔ دوسری طرف چکنائی بہت زیادہ توانائی کی حامل ہوتی ہے اور یہ توانائی حاصل کرنے کا ایک بہت ہی کارآمد ذخیرہ ہے۔ اگر ہم 100 کیلوریز چربی لیتے ہیں تو ہمارے جسم کو تقریباً 98 سے 100 کیلوریز چربی ملتی ہے۔‘ اگر آپ 100 کیلوریز چپس کھاتے ہیں تو آپ 100 کیلوریز گاجر کے مقابلے میں کہیں زیادہ کیلوریز جذب کریں گے۔

ییو کا استدلال ہے کہ کیلوریز کو ڈائٹ پلان کے طور پر شمار کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا، جب تک کہ آپ کھانے کی اقسام پر غور نہ کریں۔ اور معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ ہم میں سے کوئی بھی کسی خاص کھانے سے کتنی توانائی حاصل کرے گا یہ اس کے انفرادی نظام اور روزمرہ معمولات پر منحصر کرے گا جیسے کہ عمر، نیند کی مقدار، ہمارے پاس کتنے گڈ بیکٹیریا اور ہارمونز ہیں، ہم اپنا کھانا کیسے چباتے ہیں وغیرہ۔ الٹرا پراسیسڈ فوڈ میں پروٹین اور ریشے ضائع کردیے جاتے ہیں جبکہ ان میں چکنائی، چینی اور نمک شامل کیا جاتا ہے جس سے کھانے میں کیلوریز بھرپور ہو جاتی ہیں لیکن غذائیت میں وہ کم ہوتی ہے۔

ییو کی دلیل ہے کہ کیلوریز کی گنتی آپ کو غیر صحت بخش کھانے کی طرف مائل کر سکتی ہے۔ مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا: ’کیلوریز آپ کو ایک مقدار دیتی ہیں۔ یہ غذائیت سے متعلق مواد کے بارے میں نہیں بتاتیں۔ یہ آپ کو یہ نہیں بتاتی کہ اس میں کتنی چکنائی، چینی، کاربوہائیڈریٹس، فائبر اور وٹامن ہے۔ کیلوری کے ساتھ میرا یہی مسئلہ ہے۔ یہ تیز آلہ نہیں ہے۔‘

کیلوریز کا متبادل جولز

کھانے کی صنعت سے باہر، توانائی کو کیلوریز سے نہیں بلکہ جولز میں ناپا جاتا ہے۔ کچھ فوڈ کمپنیاں اب خوراک کی قدر کلوجولز میں دے رہی ہیں۔ لیکن کیلوریز نے عوام کے تصور کو اس قدر اپنی گرفت میں لے لیا ہے کہ جو لوگ یہ نہیں جانتے کہ کیلوریز کیا ہیں، وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بہت زیادہ کیلوریز کا استعمال آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ برٹش نیوٹریشن فاؤنڈیشن کے بریجٹ بینیلم جیسے کچھ ماہرین ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ کیلوریز سے گریز نہ کریں۔ 

وہ کہتی ہیں کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود کیلوری کی ایک فعال اہمیت ہے۔ برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اپنی توانائی کے استعمال اور اس کے حصول میں توازن رکھنا چاہیے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اگر آپ کبھی کبھار بہت زیادہ کھا لیتے ہیں تو پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ اس کے ساتھ وہ یہ تجویز کرتے ہیں کہ بس اگلے دنوں میں اس کا اثر زائل کرنے کے لیے کم توانائی لیں۔

صحت سے مزید