طبی ماہرین بہترین صحت، تر وتازہ رہنے اور طویل عمر پانے کے لیے جن چیزوں پر زور دیتے ہیں، ان میں پھلوں اور سبزیوں کا وافر مقدار میں باقاعدگی سے کھانا بھی شامل ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگ پھل اور سبزیاں چھیل کر استعمال کرتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ انھیں چھلکے کے ساتھ کھانا ہی پسند کرتے ہیں۔
طبی نقطہ نگاہ سے کیا بہتر ہے؟ پھل اور سبزیاں چھلکے کے ساتھ کھانا یا چھیل کر؟ اکثر لوگ پھل اور سبزیاں استعمال کرتے وقت اُنھیں چھیل دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنا ضروری نہیں۔ چھلکوں میں اہم غذائی اجزا ہوتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کے پھینکے گئے چھلکے ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بھی بنتے ہیں۔
پھلوں اور سبزیوں میں وٹامنز، منرلز، فائبر اور کئی اہم نباتاتی کیمیکلز بشمول اینٹی آکسیڈینٹس ہوتے ہیں جو جسم کے خلیوں کا تحفظ کرتے ہیں۔ غذائیت سے بھرپور ایسے کھانے نہ کھانے کی وجہ سے کئی بیماریاں مثلاً دل کے امراض یا ٹائپ 2 ذیابطیس ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی تجویز ہے کہ روزانہ کم از کم 400 گرام پھل اور سبزیاں کھانی چاہئیں مگر یہ کئی لوگوں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ تو کیا چھلکوں سمیت پھل اور سبزیاں کھانا غذا میں اہم اجزا شامل کر کے اس مسئلے کو حل کر سکتا ہے؟
اس سے فائدہ تو لامحالہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سات سبزیوں چقندر، سرسوں، گاجر، شکر قندی، مولی، ادرک اور سفید آلو کے اندر کئی اہم وٹامنز بشمول وٹامن سی اور رائبو فلیون (بی 2) اور آئرن اور زنک جیسی معدنیات شامل ہوتی ہیں۔ امریکی محکمہ زراعت کے مطابق چھلکوں سمیت سیب کھائے جائیں تو ان سے 15 فیصد زیادہ وٹامن سی، 267فیصد زیادہ وٹامن کے، 20فیصد زیادہ کیلشیم، 19 فیصد زیادہ پوٹاشیم اور 85 فیصد زیادہ فائبر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی چھلکوں میں فلیونائڈز اور پولیفینولز جیسے اہم کیمیکلز ہوتے ہیں جو جراثیم کش خصوصیات کے ساتھ ساتھ جسم کی اندرونی صفائی میں مدد دیتے ہیں۔
چھلکے پھینکنا ماحول پر بھی منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق بچا ہوا کھانا بشمول پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے عالمی سطح پر خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسز میں 8 سے 10 فیصد کا حصہ ڈالتے ہیں۔ لینڈ فلز پر سڑے ہوئے کھانے سے میتھین گیس خارج ہوتی ہے جو دنیا کی سب سے خطرناک گرین ہاؤس گیس ہے۔ صرف51لاکھ آبادی والا ملک نیوزی لینڈ اکیلے ہر سال13ہزار 658 ٹن سبزیوں کے چھلکے اور 986 ٹن پھلوں کے چھلکے پھینکتا ہے۔ چھلکوں کی غذائی خصوصیات اور کچرے میں ان کے کردار کے باوجود لوگ کیوں ان کے چھلکے پھینکتے کیوں ہیں؟
کچھ پھل اور سبزیوں کو تو چھیلنا لازم ہوتا ہے کیونکہ ان کے باہری حصے یا تو ہضم نہیں ہو سکتے، ذائقے میں اچھے نہیں ہوتے، یا نقصان پہنچا سکتے ہیں مثلاً کیلے، کینو، تربوز، خربوزہ، انناس، آم، ایووکاڈو، پیاز اور لہسن کے چھلکے۔ اس کے علاوہ انھیں چھیلنا ترکیب کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر کئی سبزیاں مثلاً آلو، چقندر، گاجر، کیوی اور کھیرے کے چھلکے کھائے جا سکتے ہیں مگر پھر بھی لوگ انھیں چھیل دیتے ہیں۔
جراثیم کش ادویات کا ڈر
کچھ لوگ پھلوں اور سبزیوں کو اس لیے چھیل دیتے ہیں کیونکہ انھیں ڈر ہوتا ہے کہ ان کی سطح پر جراثیم کش ادویات کے ذرات ہوں گے۔ یہ ضرور ہے کہ چھلکوں یا اس سے کچھ نیچے جراثیم کش ادویات کے ذرات رہ جاتے ہیں مگر یہ پودے کے انواع پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ مگر زیادہ تر آلودگی کو پھل یا سبزی کو اچھی طرح دھونے سے صاف کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی تجویز ہے کہ لوگ پھلوں اور سبزیوں کو ٹھنڈے پانی سے دھوئیں اور سخت برش سے رگڑیں تاکہ ان پر موجود مٹی، جراثیم کش ادویات اور کیمیکلز اُتارے جا سکیں۔
اس کے علاوہ پکانے کے طریقے مثلاً ابالنے یا دم کے ذریعے بھی جراثیم کش ادویات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ مگر جراثیم کش ادویات کے تمام ذرات دھونے یا پکانے سے دور نہیں ہوتے۔ اور ایسے لوگ جنھیں اس کی فکر ہوتی ہے وہ شاید انھیں چھیلنا جاری رکھیں۔ کچھ ممالک میں فہرستیں موجود ہوتی ہیں جن میں پھلوں اور سبزیوں میں جراثیم کش ادویات کی مقدار کے بارے میں لکھا ہوتا ہے، جیسا کہ برطانیہ میں پیسٹیسائیڈ ایکشن نیٹ ورک کی فہرست۔ اس سے آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سے پھلوں اور سبزیوں کو چھیلنا چاہیے اور کن کو بغیرچھیلے کھا لینا چاہیے۔
اگر آپ کو پھلوں اور سبزیوں کے چھلکوں کے بارے میں مزید معلومات درکار ہوں اور جاننا ہو کہ آپ ان کا کیا کر سکتے ہیں تو ماہرین سے آپ کو کئی مشورے مل جائیں گے۔ ان سے کھاد بنائی جا سکتی ہے، کینچوؤں کو کھلایا جا سکتا ہے، یا پھر کھانے میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ریسرچ اور تخلیقی صلاحیت کے ذریعے آپ نا صرف کچرا کم کر سکتے ہیں بلکہ غذا میں پھلوں اور سبزیوں کی غذائیت کی مقدار بھی بڑھا سکتے ہیں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ اہم بات ہے اور اس کی کوشش کرنی چاہیے؟ نیز اس کے ذریعے آپ اقوامِ متحدہ کے ایک پائیدار ترقی کے ہدف یعنی 2030ء تک غذائی زیاں کو نصف کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔