• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

6 فروری 2023ء کو تباہ کن زلزلے جنوبی اور وسطی ترکیہ میں آئے۔ جس سے ترکیہ اور شام میں بڑے پیمانے پر مالی اور جانی نقصان ہوا۔7.8 کی شدت کے ساتھ آنے والے زلزلے کے بعد متعدد آفٹر شاکس آئے۔ اطلاعات کے مطابق ترکیہ وشام میں حالیہ زلزلے کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد37ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ بلند و بالا عمارتیں گرنے سے ہزاروں افراد ملبے تلے دب کر جاں بحق اور شدید زخمی ہوئے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دونوں ملکوں میں دو کروڑ ساٹھ لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ اقوامِ متحدہ نے خدشہ ظاہرکیاہے کہ زلزلے کے نتیجے میں ترکیہ اور شام میں اموات کی تعداددوگنی ہوسکتی ہے متاثرین کے لئے 4کروڑ 28لاکھ ڈالرفوری امدادکی اپیل کی گئی ہے۔

ترکیہ اور شام میں آنے والے حالیہ قیامت خیز زلزلے میں جسے اہلِ ایمان کے لیے اللہ کی طرف سے انتباہ، ابتلا، آزمائش کا لمحہ اور قیامتِ صغریٰ کہا جاسکتا ہے، تادمِ تحریر اس المناک سانحے میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، ہزاروں شدید زخمی ہیں، بے شمار مکانات منہدم ہوگئے ہیں اور متعدد شہر شدید تباہی سے دوچار ہوئے ہیں۔ تباہ کن زلزلے کی صورت میں یہ بدترین سانحہ ترکیہ ،شام اور اسلامیانِ ملت کے لیے سخت آزمائش کا لمحہ ہے۔ قیامت کی اس گھڑی میں گناہوں پر ندامت، توبہ و مناجات، خصوصی دُعائوں کے اہتمام اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

ارشادِ ربّانی ہے: (ترجمہ) ’’اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، کسی قدر خوف، بُھوک، مال اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے، تو (آزمائش کی اس گھڑی میں) صبر کرنے والوں کو اللہ کی خُوشنودی کی بشارت سُنادیجیے، کہ جب اُنہیں کوئی (آزمائش اور) مصیبت پیش آتی ہے تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، اُن پر اُن کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ (سُورۃ البقرہ / 155۔ 157)

ایک اور مقام پر فرمایا گیا: ’’ہاں، جنہوں نے صبر کیا اور نیک عمل کیے، یہی ہیں جن کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔‘‘ (سُورۂ ہُود /11)

ہر حال میں صبر و استقامت، دین سے وابستگی اور تسلیم و رضا اہلِ ایمان کی علامت اور بندگانِ خدا کی بنیادی نشانی ہے، صبر و شُکر ہی بندۂ مومن کا وہ ہتھیار ہے، جسے وہ ہمیشہ تھامے رکھتا ہے، تقدیر کے فیصلوں پر راضی رہنا، اُنہیں تسلیم کرنا اور صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا، اہلِ ایمان کا شِعار ہے۔ وہ آزمائش کی ہر گھڑی اور امتحان میں اللہ سے اپنے تعلّق کو اُستوار رکھتے ہیں۔ اُسی سے اپنی اُمیدیں وابستہ کرتے اور اُسی سے لَو لگاتے ہیں۔

رسولِ اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے،’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی مومن بندے سے اہلِ دنیا میں سے اُس کے کسی عزیزکی رُوح قبض کرلیتا ہُوں، پھر وہ اس پر صبر کرتا ہے اور ثواب کی اُمید کرتا ہے تو اُس کے لیے جنّت کے سوا میرے پاس کوئی اجر نہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)

’’زلزلہ‘‘ قدرتی آفت کی بدترین شکل ہے۔ یہ کبھی بھی ہو اور کہیں بھی ہو، اللہ کی طرف سے شدید ابتلاء و آزمائش کا قیامت خیز لمحہ اور انتباہ ہے، اس حوالے سے قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے، ’’لوگو، اپنے پروردگار سے ڈرو، بلاشبہ، قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہے، جس دن تم اُسے دیکھ لو گے، ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچّوں کو بھول جائے گی اور حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے اور تُو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے، حالاںکہ وہ درحقیقت مدہوش نہ ہوں گے، لیکن اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘ (سُورۃ الحج / 1،2)

جب کہ ’’سُورۃ الزّلزال‘‘ کے آغاز میں فرمایا گیا: ’’جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی اور وہ اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی، انسان کہنے لگے گا کہ اسے کیا ہوگیا ہے، اُس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی، اس لیے کہ تیرے رب نے اُسے حکم دیا ہوگا۔‘‘ (سُورۃ الزّلزال / 1۔5)

آزمائش کے اس لمحے اور شدید ترین زلزلے کی اس قیامت خیزگھڑی میں اجتماعی طور پر گناہوں پر ندامت، توبہ کا دامن تھامنے اور اللہ کی طرف رجوع کی فوری ضرورت ہے۔ وہ رحمٰن و رحیم، غفور الرّحیم، بہت زیادہ بخشنے والا، گناہوں کو معاف کرنے والا اور توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔ گناہ گار اور خطا کار ہونے کے باوجود اگر انسان کا دل نیکی اور توبہ کی طرف مائل ہو تو اُس کے لیے رحمت، مغفرت اور توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔ اللہ کی بارگاہ تک رسائی میں مایوسی اور نااُمیدی کی کوئی تاریک گھاٹی نہیں، البتہ گناہوں پر ندامت، خُلوص اور صداقت شرط ہے۔ اس حوالے سے قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے: ’’(اے پیغمبرﷺ) آپؐ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہونا، اللہ تو تمام گناہ بخش دیتا ہے، (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (سُورۃ الزّمر آیت 53)

ایک مقام پر فرمایا گیا :’’اور جو شخص گناہ کے بعد توبہ کرلے اور نیکو کار ہوجائے تو اللہ اُسے معاف کردے گا، کچھ شبہ نہیں کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (سُورۃ المائدہ، آیت 39)

رسولِ اکرم ﷺ نے ایک حدیثِ قدسی میں بیان فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو بندہ میرا قرب حاصل کرنے کے لیے اور میری اطاعت و فرماں برداری کی راہ میں میری طرف بالشت بھر آگے بڑھتا ہے، میں اُس کی طرف ہاتھ بھر بڑھتا ہوں، اور جو میری طرف ہاتھ بھر آگے بڑھتا ہے، میں گز بھر اُس کی طرف بڑھتا ہوں، اگر میرا بندہ چلتا ہُوا میری طرف آئے تو میں دوڑتا ہُوا اُس کی جانب بڑھتا ہوں۔‘‘

بیش تر مواقع پر قدرتی آفات اور آسمانی مصائب اللہ کی طرف سے مقررکردہ طرزِ زندگی سے انحراف، سرکشی اور بغاوت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ درحقیقت اللہ کی جانب سے انتباہ اور یاد دہانی ہوتے ہیں کہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی اور اُس کی نافرمانی چھوڑکر اللہ کے دامنِ رحمت میں پناہ تلاش کی جائے۔ ’’سُورۂ توبہ‘‘ میں ارشاد ہوتا ہے: ’’کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم اُنہیں سال میں ایک دو مرتبہ کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا کردیتے ہیں، کیا یہ یاد دہانی بھی انہیں اس بات پر آمادہ نہیں کرتی کہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور نصیحت پکڑیں۔‘‘ (سُورۃ التّوبہ / 126)

ہمیں یہ حکم ہے کہ اللہ کی رحمت سے کسی صورت اورکبھی بھی مایوس نہ ہوں، اُس کے دامنِ رحمت سے وابستہ رہنے، دین پر عمل کرنے، عبرت و نصیحت حاصل کرنے میں ہی عافیت ہے۔ اللہ کی رحمت کا دامن جس قدر وسیع ہے، اُس کے عفو وکرم اور درگزر کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی رحمت سے مایوس ہوجانے والوں سے بھی ناراضی کا اظہار فرماتا ہے، اس حوالے سے ارشاد ہُوا: ’’اللہ کی رحمت سے صرف گُم راہ ہی مایوس ہوسکتے ہیں۔‘‘ (سُورۃ الحجر / 56)

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اجتماعی طور پر خود فراموشی، خدا فراموشی، دین سے انحراف، گناہوں سے آلودہ زندگی، اللہ کے احکام، اُس کی تعلیمات، قرآن و سنّت اور اسلامی نظام سے بغاوت اور اس کی مخالفت چھوڑ کر دین کے دامن میں پناہ لیں۔ اسلامی اقدار اور تعلیمات سے اپنے تعلّق اور رشتے کو مضبوط کریں۔ دوسری طرف ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہم محسنِ انسانیت، نبیِ رحمت ﷺ کے اُمتّی ہیں۔ آپﷺ رحمت و شفقت، ایثار و ہمدردی کے پیکر تھے، انسانیت کی خدمت، اُس کی فلاح، اسے دین کی راہ پرگامزن کرنا، توحید کے نُور سے منورکرنا اور خدمتِ خلق کا جذبہ دل میں ہمیشہ موجزن رکھنا، آپﷺ کے اُسوۂ حسنہ اور سیرتِ طیبّہ کا امتیازی پہلو ہے۔

مشکل کی اس گھڑی، آزمائش کے اس لمحے اور ملّی زندگی کے اس موڑ پر ہمیں یک قلب اور یک جان ہوکر اپنے مسلمان بھائیوں اور زلزلہ زدگان کو ہر موقع پر یاد رکھنا چاہیے، بڑھ چڑھ کر اور دل کھول کر ان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے۔ یہ خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کا اہم مصرف ہے، ان کی بڑھ چڑھ کر مدد کرنا ہمارا دینی، ملّی اور قومی فریضہ ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’پوری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو اُس کے کنبے سے اچّھا سلوک کرتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ/باب الشفقۃ و الرّحمۃ علی الخلق)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’رحم کرنے والوں پر رحمٰن بھی رحم کرتا ہے، زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (ترمذی / کتاب البِرّ و الصِّلۃ)

حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم ایمان والوں کو باہمی محبّت اور مہربانی میں ایک جسم کی مانند دیکھو گے، جب جسم کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو تمام بدن کے اعضاء بیماری اور تکلیف کے زیرِ اثر آجاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم/باب تراحم المومنین)

حضرت ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اُس پر ظلم کرتا ہے، نہ اُس سے کنارا کرتا ہے، جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت براری میں مصروف رہے، اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت براری کو پورا کرنے میں رہتا ہے اور جس کسی نے کسی مسلمان کا ایک دُکھ بانٹا، اللہ تعالیٰ نے روزِ قیامت کی مشکلات میں سے اُس کی ایک ایک مشکل کو دُور کردیا اور جس کسی نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اُس پر پردہ ڈالے گا۔‘‘ (صحیح بخاری/باب لایظلم المسلم)

اسلام کی یہ سُنہری تعلیمات ہمیں اس امر کا پابند کرتی ہیں کہ ہم مشکل اور آزمائش کی اس گھڑی میں ترکیہ اورشام کے بھائیوں کی ہر طرح مدد کریں، خدمتِ خلق، فلاحِ انسانیت، ایثار و ہمدردی کے اُن جذبات کا مظاہرہ کریں، جو ہمارے دین کا شِعار اور ہماری دینی، مِلّی اور تہذیبی اقدار کے آئینہ دار ہیں۔ اس موقع پر ہمیں جسدِ واحد اور تسبیح کے دانوں کی طرح متّحد ہوکر اخوّت و اجتماعیت، یگانگت اور دینی و مِلّی اتّحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خدمتِ خلق اور ایثار و ہمدردی کے اُس جذبے کو عام کیا جائے، جو ہمارے دینِ متین کا امتیاز اور ہمارے قومی و مِلّی مزاج کی رُوح ہے