کراچی پولیس آفس (کے پی او) پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد قانون نافذ کرنے والوں کے جوابی ایکشن کے دوران تمام دہشت گرد ہلاک ہوگئے، ایک دہشت گرد عمارت کی چوتھی منزل پر جبکہ دو چھت پر مارے گئے۔
پاک فوج کی ایس ایس جی کی دو ٹیموں کی قیادت میں کلیئرنس آپریشن میں سندھ رینجرز کے جوان بھی شریک تھے، آپریشن مکمل ہونے کے بعد پولیس اور رینجرز اہلکاروں نے نعرے لگائے۔
حملے میں 2 پولیس اور 1رینجرز اہل کار شہید ہوئے جبکہ چوتھا مقتول سینیٹری ورکر تھا۔
دوسری جانب اسپتال انتظامیہ کے مطابق کراچی پولیس آفس پر حملے میں 4 افراد شہید اور 17 زخمی ہوئے ہیں۔
اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شہید ہونے والے افراد میں رینجرز سب انسپکٹر تیمور، پولیس ہیڈ کانسٹیبل غلام عباس، کے پی او کے لفٹ آپریٹر سعید اور سوئپر اجمل شامل ہیں۔
انتظامیہ کے مطابق جناح اسپتال سے ایک زخمی کو نجی اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
آپریشن مکمل ہونے کے بعد شارع فیصل کے دونوں اطراف کو ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ کراچی پولیس آفس میں کمانڈوز کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا گیا، اس دوران پولیس آفس میں ایک اور زور دار دھماکا ہوا، جس سے عمارت کا کچھ حصہ گر گیا اور شیشے بھی ٹوٹ گئے۔
سندھ حکومت کےترجمان مرتضیٰ وہاب کے مطابق حملے میں 2 پولیس اور ایک رینجرز اہلکاروں سمیت 4 افراد شہید ہوگئے جبکہ 18 زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ شام 7 بجکر 10 منٹ پر کیا گیا تھا، جس کے بعد ہیڈ کوارٹرز کی لائٹس اور دروازے بند کر دیے گئےتھے۔
حملہ آور دو گاڑیوں میں کراچی پولیس آفس پہنچے تھے، دونوں گاڑیوں کو بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عملے نے چیک کیا، ایک گاڑی عمارت کے عقب، دوسری سامنے کھڑی ہوئی ملی۔
صدر پولیس لائن کے احاطے میں کھڑی کار کے چاروں دروازے کھلے ہوئے ملے تھے۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے چھت پر پہنچ کر پوزیشن لے لی تھی۔
پولیس افسر نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دہشت گرد پولیس وردی میں کے پی او میں داخل ہوئے۔
پولیس چیف کی کے پی او پر حملے کی تصدیق
کراچی پولیس چیف نے کے پی او پر حملے کی تصدیق کردی۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی کا کہنا ہے کہ میرے دفتر پر حملہ ہوا ہے، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کمانڈوز عمارت میں داخل ہوگئے ہیں۔
ترجمان رینجرز کا کہنا ہے کہ رینجرز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، رینجرز نے پولیس کے ہمراہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کے پی او کی لائٹس بند کر دی گئی ہیں، پولیس نفری نے کراچی پولیس آفس (کے پی او) کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے آپریشن کو خود مانیٹر کیا
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی پولیس آفس پر حملہ آور دہشگردوں کے خلاف آپریشن کو خود مانیٹر کیا۔
ترجمان کے مطابق وزیراعلیٰ نے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت آپریشن میں حصہ لینے والوں کی بہادری کو سراہا۔ انہوں نے بتایا کہ تین دہشت گرد تھے اور تینوں جہنم واصل ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں اور افسران نے بڑی جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ کراچی پولیس آفس کو کلیئر کر دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے آپریشن میں شہید ہونے والوں کیلئے گہرے دکھ کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن میں 11 زخمیوں کا بہترین علاج کروایا جائے گا۔ ہم شہداء کے اہلخانہ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ قوم دہشت گردوں کے خلاف متحد ہے۔
شارع فیصل پر ٹریفک بند کردیا گیا
شاہراہ فیصل کو آواری ہوٹل کی جانب سے نرسری تک دونوں طرف سے بند کردیا گیا تھا۔
ٹریفک پولیس کا کہنا تھا کہ ٹریفک کو آواری سے کینٹ اور تین تلوار بھیجا گیا، جبکہ لکی اسٹار سے صدر کی طرف بھیجا گیا، نرسری سے آنے والے ٹریفک کو کورنگی روڈ کی طرف منتقل کردیا گیا، جبکہ کورنگی سے ٹریفک کو ڈیفنس موڑ سگنل سے ہینو چورنگی کی طرف موڑ دیا گیا۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا حملے کا نوٹس
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایڈیشنل آئی جیز کے دفتر پر حملے کا نوٹس لیتے ہوئے مختلف ڈی آئی جیز کو پولیس فورس بھیجنے کی ہدایت کردی۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ ایڈیشنل آئی جی کے دفتر پر حملے کے ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے، کراچی پولیس چیف کےدفتر پرحملہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ مجھے تھوڑی دیر کے بعد متعلقہ افسر سے واقعے کی رپورٹ چاہیے، میں خود صورتحال مانیٹر کر رہا ہوں۔
وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر رینجر بھی جائے وقوع پر موجود ہے۔
گورنر سندھ کا دہشت گرد حملے پر اظہار تشویش
گورنرسندھ کامران ٹیسوری نے دہشت گرد حملے پر اظہار تشویش کیا اور آئی جی پولیس سندھ سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے دہشت گردوں کےخلاف بھرپور ایکشن لینے کی ہدایت کردی۔
کامران ٹیسوری نے کہا کہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے، انتہائی اہم عمارت پر حملہ باعث تشویش ہے۔