• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میرے والد خادم محی الدّین نے مجھے شُدھ سنگیت کی پہچان کروائی، انہوں نے ہی مجھے اسٹیج سے رُوشناس کروایا۔ بڑے بخاری صاحب نے اچھے ادب کی طرف اشارہ کیا، کچھ راہ بھی دکھائی۔ چھوٹے بخاری صاحب نے آواز کے اتار چڑھائو اور مائکرو فون کے آداب سکھائے۔ ای ایم فارسٹر علم و فضل کا خزانہ تھے۔ انگریزی ادب میں ان کا مقام ایسا تھا ،جو ایک صدی میں دو ایک لوگوں ہی کو ملتا ہے۔ 

دوسروں کی بات ایسے سنتے ، جیسے اُن سے کچھ سیکھ رہے ہوںاور دائود رہبر، مَیں نے ابھی تک کوئی ایسی قرون وسطیٰ شخصیت نہیں دیکھی، ذاتی دُکھوں کو اپنی ذات پر حاوی نہ ہونے دینا ، اپنے رویّے میں شامل نہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ صاحبِ طرز ہونے کی کیفیت اور موسیقی سے حد درجہ عشق ہونے کے باوجود خود اپنی گائیکی کو کسی پر مسلّط نہ کرنا۔ ن-م راشد، مجھ میں راشد صاحب کی کوئی بات بھی نہ آئی، جب تک مَیں راشد صاحب سےنہیں ملاتھا ،سمجھتا تھا کہ مجھے اور کچھ آتا ہو یا نہ آتا ہو، مَیں شاعری اور اس کی نزاکت فوراً پکڑ پاتا ہوں۔ راشد صاحب کے پاس اُٹھنا بیٹھنا ہوا ،تو معلوم ہوا کہ جسے مَیں اردو شاعری سمجھتا تھا ،وہ اصل میں ہائے اللہ، اوئی اللہ قسم کی چیز ہے ، جب کہ اُردو میں اچھی شاعری اتنی بہت سی ہے بھی نہیں‘‘۔

یہ ہے ،اُس خط کا اقتباس، جو ضیاء محی الدّین نے اپنے بھانجے شوکت زین العابدین کو لکھاتھا۔ یہ اُن دنوں کا ذکر ہے، جب شوکت زین العابدین اُن سے متعلق ایک کتاب لکھ رہے تھے۔ ضیاء محی الدّین پانچ بہنوں کے سب سے چھوٹے بھائی تھے ،ان سے پہلے ان کے تین بھائی فوت ہوچُکے تھے۔ پانچ بہنوں کی ولادت کے بعد ان کی پیدائش، والدین کے لیے ایک بڑی خبر تھی۔ والد ،خادم محی الدّین تدریس، موسیقی اور ڈرامے کے شعبوں سے وابستہ تھے اور موسیقی اور ڈرامے کے موضوع پر چند کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ضیاء ان کے اکلوتے بیٹے تھے، تو ان کی خواہش تھی کہ وہ ضرور بڑا آدمی بنے اور ان تمام شعبوں میں نام پیدا کرے، جن سے وہ خود وابستہ تھے۔ 

ضیاء محی الدّین، سینٹرل ماڈل اسکول میں پڑھتے تھے، اسی اسکول میں خادم محی الدّین نے ایک اسٹیج ڈراما کروایا ،جس کا نام ’’دیوتا‘‘ تھا۔ اس ڈرامے میں ضیا ء صاحب نے ایک چھوٹے سے اسکول کے طالب علم کا کردار نہایت خود اعتمادی سے ادا کیا ۔ اسکول سے نکلے ،تو گورنمنٹ کالج ،لاہور میں داخلہ لے لیا، جہاں انہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے، جہاں ایک جانب پطرس بخاری، رفیع پیر، ذوالفقار علی بخاری ،رشید احمد اور شوکت تھانوی کی صحبت میسر آئی، تو دوسری طرف اعجاز بٹالوی، ضیاء جالندھری اور ظہور آذر جیسے دوست ملے۔ ان کے سپرد مختلف پروگرام ہوئے ،جن میں احباب کے انٹرویو ز، یونی وَرسٹی کےطلبہ کا پروگرام اور نیوز براڈ کاسٹنگ شامل تھے۔ 1951ء میں انہیں ’’کولمبو پلان ‘‘کے تحت ’’آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن‘‘ میں تربیت کے لیے منتخب کرلیا گیا اور اس فیلو شِپ نے ضیاء محی الدّین کی زندگی بدل کے رکھ دی۔

ضیاء محی الدّین کہتے تھے کہ’’ آسٹریلیا میں مجھے احساس ہوا کہ میری منزل ریڈیو نہیں،تھیٹر ہے۔‘‘ چناں چہ وہ ایک طرف براڈ کاسٹنگ کی تربیت حاصل کرتے رہے ،تو دوسری جانب بطور ایکٹر، ڈائریکٹر اور مصنّف تھیٹر میں بھی حصّہ لیتے رہے۔ آسٹریلیا میں قیام کے دوران ہی انہوں نے ریڈیو پاکستان کو اپنا استعفیٰ بھجوا دیا تھا۔ اب ان کی اگلی منزل لندن تھی، زیڈ اے بخاری کو جب ان کے عزائم کا پتا چلا ،توانہوں نے ضیاء محی الدّین کی حوصلہ افزائی کی اور نہ صرف ان کا استعفیٰ فوری طور پر منظور کرلیا ،بلکہ انگلستان میں کچھ لوگوں سے ملاقات کا مشورہ بھی دیا۔

آسٹریلیا میں قیام کے دوران انہیں افسانہ نگاری کا بھی شوق ہوا، ان کے کچھ افسانے لاہور اور کراچی کے ادبی پرچوں ادبی دنیا ، افکار اور ادب لطیف میں شایع بھی ہوئے ،مگر بعد میں انہوں نے اپنے ان تمام افسانوں کو ڈِس اون کردیا۔ اسی زمانے میں ان کی دوستی قرۃ العین حیدر اور ابنِ انشا سے ہوئی۔ انہوں نے خود بتایا کہ ’’ہمارے سارے گھرانے میں لکھنے لکھانے کی ایک روایت تھی، میرے تایا پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال تھے ،جوکئی اہم کتابوں کے مرتّب اور مترجّم تھے، اُن کے بیٹے دائود رہبر مستقل لکھتے لکھاتے تھے، ابّا جی ریڈیو ٹاک، ہلکے پھلکے خاکے اور ڈرامے لکھتے تھے۔ مگر میرے لاشعور میں کہیں پطرس بخاری کی ذات تھی، جس سے لکھنے اور انگریزی ادب پڑھنے کی راہیں کُھلیں۔ انگلستان جاکر مَیں نے شیکسپیئر کا کھیل دیکھا ،تو پتا چلا کہ یہ تو معرفت کا وہ مقام ہے ،جسے دیکھا جائے ، کھنگالا جائے اور پڑھا جائے۔‘‘

ضیاء محی الدّین لندن میں ’’رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس‘‘ سے وابستہ ہوئے، جس نے ان کا اندازِ زندگی ہی بدل کر رکھ دیا۔ اب ڈراما ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ وہ بی بی سی سے بھی بطور پروڈیوسر وابستہ ہوئے، جہاں انہوں نے ڈیڑھ سال بطور پروڈیوسر خدمات انجام دیں۔ پھر 1956ء میں اپنے والد کی علالت کی وجہ سے چند ماہ کے لیے پاکستان آئے۔ اسی سفر میں کراچی جانے کا اتفاق بھی ہوا ،جہاں انہوں نے خواجہ معین الدّین کا ڈراما’’ لال قلعے سے لالو کھیت تک‘‘ دیکھا، جو انہیں اس قدر پسند آیا کہ بعد میں انہوں نے یہ ڈراما پیش بھی کیا۔ ان کا ایک اور پسندیدہ ڈراما’’ مرزا غالب بندر روڈ ‘‘پر تھا ،جسے انہوں نے پروڈیوس بھی کیا۔ 

کراچی سے لاہور آئے ، توفرید احمد اور محسن شیرازی کے ساتھ شیکسپیئر اور کئی دوسرے ادباء کے چند ڈرامے اسٹیج کیے،جوبہت پسند کیے گئے۔ 1960ء میں انہیں انگلستان سے آئی ہوئی ایک ٹیم نے ای ایم فارسٹر کے ناول ’’اے پیسیج ٹو انڈیا ‘‘پر بننے والے ڈرامے کے لیےمنتخب کیا اور انہیں ڈاکٹر عزیز کا کردار عطا کیا۔ اس ڈرامے پر بعد ازاں فلم بھی بنی۔ ڈاکٹر عزیز کے اس کردار نے ضیاء محی الدّین کو شہرت کےآسمان پر پہنچا دیا۔ اور وہ ایک بین الاقوامی اداکار کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ ’’اے پیسیج ٹو انڈیا‘‘ کے بعد ان کی اگلی فلم’’ لارنس آف عربیا ‘‘تھی، جس میں انہوں نے ایک گائیڈ کا کردار ادا کیا۔ اس کے بعدانہوںنے ہالی وڈ کی کئی اور فلموں میں بھی کام کیا ،جن میں ’’سی می گوئنگ سائوتھ‘‘،’’ بی ہولڈ اے پیل ہورس‘‘،’’ ڈیڈ لیئر دین دی میل‘‘،’’ خرطوم‘‘، ’’ورک اِز اے فور لیٹر ورڈ‘‘، ’’بومبے ٹالکی‘‘، ’’اشانت ‘‘اور’’ دی آسام گارڈن‘‘ کے نام شامل ہیں۔پھر 1963ء میں، جب وہ انگلستان ہی میں تھے کہ ان کے والد خادم محی الدّین انتقال کرگئے۔

اگلے برس پاکستان میں ٹیلی ویژن کا قیام عمل میں آیا، تو وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ضیاء محی الدّین کواس ادارے کے مشیر کے عُہدے پر خدمات انجام دینے کی پیش کش کی، مگربعض مسائل کی وجہ سے یہ بات آگے نہ بڑھ سکی۔ 1971ء میں ضیاء محی الدّین نے پاکستان ٹیلی ویژن کوایک ٹاک شو کا آئیڈیا پیش کیا ،جس کا پہلا پروگرام جنوری 1971ء میں نشر ہوا، اس پروگرام کا نام’’ ضیاء محی الدّین شو‘‘ تھا۔ اس شو نے ضیاء صاحب کو شہرت کے بام ِعروج پر پہنچادیا۔ 

یاد رہے، یہ پاکستان ٹیلی ویژن پر پیش کیا جانے والا پہلا ٹاک شو تھا۔اس پروگرام میں جن شخصیات نے شرکت کی ،اُن میں جوش ملیح آبادی، مشتاق احمد یوسفی، خوش بخت عالیہ، محمّد علی، شمیم آرا، وحید مراد، صبیحہ خانم، حفیظ جالندھری، رونا لیلیٰ، نیّر سلطانہ، نیلو، منور ظریف، ناہید صدیقی، مہاراج کتھک، اعجاز حسین بٹالوی، اشفاق احمد، صفدر میر اور نور جہاں غرض اس زمانے کی بیشتر اہم شخصیات شامل ہیں۔ اسی پروگرام کے ذریعے پاکستان کی فنی دنیا کو معین اختر ، خالد عباس ڈار اور عالم گیر جیسے فن کار میسّر آئے۔

ٹاک شو کی کام یابی کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن پر پیش کیا جانے والا ضیاء محی الدّین کا اگلا پروگرام’’ پائل‘‘ تھا، جس میں اداکارہ ناہید صدیقی رقص پیش کرتی تھیں ، جب کہ اسکرپٹ ضیاء صاحب کا ہوتا تھا اور کمپیئرنگ کے فرائض بھی وہی انجام دیتے تھے۔1975ء میں پاکستان ٹیلی ویژن نے ان کا پروگرام’’ ضیاء محی الدّین کے ساتھ‘‘ پیش کیا ،جو ادبی و سماجی مسائل پر مبنی تھا۔ اسی دوران انہوں نے آغا ناصر کے ترجمہ کردہ ڈرامے’’ مارخیم ‘‘میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔

نیز، انہوں نے چند اورفلموں میں بھی مرکزی کردار ادا کیے، جن میں ’’مجرم کون ؟‘‘ اور’’سہاگ ‘‘ شامل ہیں۔ ویسے تو انہوں نے ضیاء سرحدی کی ایک فلم ’’آخری شب ‘‘میں بھی کام کیا ،مگر وہ مکمل نہ ہوسکی۔’’ مجرم کون؟‘‘ اسلم ڈار کی فلم تھی، جب کہ سہاگ کے ہدایت کارفرید احمد تھے ،مگرضیاء محی الدّین پاکستانی فلمی صنعت کے معیارات پر پورےنہ اُتر سکے۔1975ء کے لگ بھگ ضیاء محی الدّین ’’پی آئی اے آرٹ اکیڈمی ‘‘ سے بھی بطور ڈائریکٹر وابستہ ہوئے۔ جس کے ذریعے انہوں نےایران، مصر، متحدہ عرب امارات، برطانیہ ، کوریا، چین، اسپین، الجزائر، مراکش، تیونس، اردن، روس، مالٹا، فرانس، جاپان غرض دنیا بھر میں پاکستانی ثقافت کو متعارف کروایا، مگر بہت جلد یہ اکیڈمی اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکارہو کر بند ہوگئی۔ اور ضیاء محی الدّین مستقل طور پر برمنگھم میں مقیم ہوگئے۔

لیکن گاہے گاہے وطن بھی آتے رہے ،جہاں انہوں نے کچھ ٹیلی ویژن پروگرامز میں بھی حصّہ لیا اور پڑھنت (ریڈنگ) کا ایک سلسلہ شروع کیا ،جس میں وہ سال کی آخری شام 31 دسمبر کو اُردو کے نثری اور شعری شاہ کاروں کو اسٹیج پر پیش کرتے تھے۔ پڑھنت کے اس سلسلے میں وہ مرزا غالب، رتن ناتھ سرشار، مرزا فرحت اللہ بیگ، میر باقر علی داستان گو، محمّد علی ردولوی، شاہد احمد دہلوی، مشتاق احمد یوسفی، ابنِ انشا اور اسد محمّد خان کی نثر اور ن ۔ م راشد، فیض احمد فیض، میرا جی، زہرا نگاہ اور عشرت آفرین کی شاعری کو اس انداز سے پیش کرتے تھے کہ سُننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا۔ مشتاق احمد یوسفی نے ضیاء محی الدّین سے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ضیاء اگر کسی مُردہ سے مُردہ ادیب کی تحریر پڑھ لیں، تو وہ زندہ ہوجاتا ہے‘‘۔اور یہ بھی کہ ’’روزِ محشر مَیں اپنا اعمال نامہ ضیاء محی الدّین سے پڑھنے کو کہوں گا۔‘‘

1986ء میں انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن سے فیض احمد فیض کی شاعری پرمبنی پروگرام ’’فیض صاحب کی محبّت میں‘‘ پیش کیا۔پھر 1995ء میں ان کے بھانجے شوکت زین العابدین نے ان کا ٹیلی ویژن پروگرام ’’ضیا کے ساتھ‘‘ پیش کیا۔ 2002ء میں انہوں نے’’جو جانے، وہ جیتے‘‘ کے نام سے ایک پروگرام کی میزبانی کی، جو کون بنے گا کروڑ پتی سے متاثر ہوکر تیار کیا گیا تھا۔پروگرام کے پروڈیوسر ایوب خاور،جب کہ ری سرچ اور اسکرپٹ رائٹنگ راقم کے ذمّے تھی۔ 

ایوب خاور سے ان کے تعلقات عمر بَھر قائم رہے۔ ایوب خاور نے ایک نجی ٹیلی ویژن کے لیے ان کا ایک خصوصی پروگرام بھی ریکارڈ کیا، جو اب تک نشر نہیں ہوسکا، مگر اب اس کے نشر ہونے کا وقت آچُکا ہے۔ ضیاء محی الدّین مرثیہ خوانی سے بھی خصوصی شغف رکھتے تھے۔ میر انیس ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ انہوں نے محمّدی ٹیپ بینک کے چند دستاویزی پروگراموں کو بھی اپنی آواز سے سجایا، جو پاکستان ٹیلی ویژن اور نجی ٹیلی ویژن سے نشر ہوئے۔

2004ء میں ضیاء محی الدّین کو کراچی میں پرفارمنگ آرٹس کا ایک ادارہ قائم کرنے کی پیش کش ہوئی، جو انہوں نے بخوشی قبول کرلی اور یوں، ’’نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس‘‘ کا وجود عمل میں آیا۔جس وقت ناپا کا آغاز ہوا، ضیاء صاحب کی عُمر 72سال ہوچُکی تھی، مگر پھر بھی وہ 18 سال تک اس ادارے میں خدمات انجام دیتے رہے اور کراچی کی نئی نسل کو تھیٹر، موسیقی اور اداکاری کا ایک شان دار ادارہ دینے میں کام یاب ہوئے۔ اس ادارے کی شہرت سرحد پار بھی پہنچی۔ بالی ووڈ کے معروف ہدایت کار، اداکاروں نے، جن میں مہیش بھٹ، نصیر الدّین شاہ، اوم پوری اور انوپم کھیر وغیرہ شامل ہیں، یہاں اپنے کھیل پیش کیے۔

یہ ضیاء صاحب کی اَن تھک محنت اور مستقل مزاجی ہی کا ثمر ہے کہ یہ ادارہ اب کراچی ہی نہیں، پاکستان کی شناخت بن چُکا ہے۔ یہاں سے تربیت حاصل کرنے والے فن کار آج ٹیلی ویژن اور فلمی دنیا میں اپنا اور ادارے کا نام روشن کررہے ہیں۔ دو برس پہلے ضیاء محی الدّین اس ادارے کی سربراہی سے سبک دوش ہوگئے تھے، مگر اس کے باوجود اس سے اپنا ناتا نہ توڑ سکے اور بطور پروفیسر ایمریطس ادارے سے وابستہ رہے۔ ضیاء محی الدّین انگریزی اخبارات میں کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ ان کی متفرق تحریریں’’ A Carrot is a Carrot ‘‘اور’’The God of My Idolatry ‘‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔ تھیٹر کے موضوع پر بھی ان کے مضامین کے مجموعے کا اُردو ترجمہ ’’تھیٹریات‘‘ کے نام سے شایع ہوا، جس کے مترجم خالد احمد تھے۔

ضیاء محی الدّین نے تین شادیاں کی تھیں۔ ان کی پہلی اہلیہ کا نام سرور تھا، جن سے ان کے دو بیٹے ہیں، دوسری بیوی ناہید صدیقی تھیں اور تیسری عذرامحی الدّین، جن سے ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے ضیاء محی الدّین کوتمغہ امتیاز، ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے سرفراز کیا تھا۔ 20 جون 1931ء کو فیصل آباد میں جنم لینے والے اس نابغہ روزگار فن کار نے 13 فروری 2023ء کو کراچی میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ اور ڈی ایچ اے فیز 8 کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ گوکہ اسٹیج پراپنے فن کے اَن مٹ نقوش رقم کرنے والا فن کار ہمیشہ کے لیے اسٹیج سے اوجھل ہوچُکا ہے، مگر وہ اپنے چاہنے والوں کے دل میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔