یکے بعد دیگرے منظرِ عام پر آنے والی آڈیو ویڈیو لیکس کے تدارک کے معاملے پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال سمیت سپریم کورٹ کے تمام ججز کو خط لکھ دیا۔
خط میں عمران خان کی جانب سے معاملے پر گزشتہ سال اکتوبر میں دائر آئینی درخواست فوری سماعت کے لیے مقرر کرنے اور سپریم کورٹ سے آرٹیکل 14 کے تحت شہریوں کے پرائیویسی کے حق کے تحفظ کی بھی استدعا کی گئی ہے۔
عمران خان کا اپنے خط میں کہنا ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے مشکوک اور غیر مصدقہ آڈیوز ویڈیوز آنے کا سلسلہ جاری ہے، یہ آڈیوز ویڈیوز مختلف موجود اور سابق سرکاری شخصیات اور عام افراد کی گفتگو پر مبنی ہیں۔
خط میں انہوں نے کہا ہے کہ منظرِ عام پر آنے والی آڈیوز ویڈیوز غیر مصدقہ مواد پر مشتمل ہوتی ہیں، ان آڈیو ویڈیوز کو تراش خراش اور کاٹ چھانٹ کر ڈیپ فیک سمیت دیگر جعلی طریقوں سے بنایا جاتا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے خط میں کہا ہے کہ ایسی آڈیوز بھی آئیں جن کے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وزیرِ اعظم آفس اور ہاؤس سے متعلق تھیں، ان آڈیوز سے تاثر ملتا ہے کہ وزیرِ اعظم آفس یا ہاؤس کی خفیہ نگرانی معمول ہے، تاثر ملتا ہے کہ پی ایم آفس یا ہاؤس میں ہونے والی بات چیت کی خفیہ ریکارڈنگز معمول تھا۔
ان کا خط میں کہنا ہے کہ ایوانِ وزیرِ اعظم ریاست کا حساس ترین ایوان ہے جہاں قومی حساسیت پر تبادلۂ خیال ہوتا ہے، ایوانِ وزیرِ اعظم کی سیکیورٹی پر نقب سے عوام کی سلامتی، تحفظ، مفادات و حیات پر سنگین اثرات پڑتے ہیں، شواہد موجود ہیں کہ ان غیر مصدقہ و جعلی آڈیوز ویڈیوز سے تنقیدی آوازوں کو دبایا جانا مقصود ہے۔
سابق وزیرِ اعظم کا خط میں کہنا ہے کہ مجھ سمیت کئی سابق سرکاری شخصیات اور عام افراد ان غیر مصدقہ لیکس کا نشانہ بن چکے ہیں، دیگر بہت سے افراد کے ساتھ سینیٹر اعظم سواتی کی پرائیویسی کے بنیادی آئینی حق کو پامال کیا گیا۔
انہوں نے خط میں کہا ہے کہ پاکستان میں آئین کی تخلیق کے دوران متعدد حقوق کو دستور کا حصہ بنایا گیا، دستور کا آرٹیکل 4 ہر شخص کو قانون کا تحفظ اور قانون کے تحت سلوک کا حق دیتا ہے، یہی دستور ہر فرد کی عزت و ناموس اور چادر و چار دیواری کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، دستور کے تحت میسر یہ حقوق ناقابلِ جواز ڈھٹائی اور صریح دیدہ دلیری سے پامال کیے جا رہے ہیں۔
خط میں عمران خان نے کہا ہے کہ میں نے اکتوبر 2022ء میں ان آڈیو لیکس پر عدالت کے روبرو ایک آئینی درخواست دائر کی تھی، بد قسمتی سے اب تک میری یہ درخواست سماعت کے لیے مقرر نہ کی جا سکی، میری درخواست کے بعد معاملات بہتری کے بجائے مزید ابتری کے شکار ہو گئے۔
ان کا اپنے خط میں کہنا ہے کہ آئین کی صریح خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا محاسبہ نہیں ہوا، ان میں ملوث کردار مزید بے خوف ہو کر اس جعلی مواد کو فروغ دے رہے ہیں، حال ہی میں سابق وزیرِ اعلیٰ اور سپریم کورٹ کے جج کی مبینہ گفتگو سوشل میڈیا پر جاری کی گئی۔
خط میں چیئرمین تحریکِ انصاف نے کہا ہے کہ واضح ہو چکا ہے کہ اب عوام معمول کے تحت اس خفیہ نگرانی و ریکارڈنگز کا نشانہ بن رہے ہیں، ان ریکارڈنگز کو کانٹ چھانٹ، توڑ مروڑ اور رد و بدل کر کے منظرِ عام پر لانے کا سلسلہ جاری ہے۔
اپنے خط میں چیئرمین پی ٹی آئی، سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال اور معزز ججز کے سامنے 8 سوالات بھی اٹھا دیے:
انہوں نے کہا ہے کہ سوال ہے کہ کونسا قانون عوام کی اس طرح نگرانی اور خفیہ ریکارڈنگز کی اجازت دیتا ہے؟
عمران خان نے کہا ہے کہ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ قانون اس نگرانی اور ریکارڈنگز کا حق کسے دیتا ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ اس نگرانی اور ریکارڈنگز کی حدود و قیود کیا ہیں؟
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس نگرانی اور ریکارڈنگز کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟
انہوں نے کہا ہے کہ اس سوال کا جواب بھی لازم ہے کہ اس نگرانی اور ریکارڈنگز کی حفاظت کا کیا انتظام ہے؟
سابق وزیرِ اعظم نے پوچھا ہے کہ کیا کسی کی مرضی سے شہریوں کی باہم بات چیت خفیہ طور پر ریکارڈ کرنا گوارا کیا جا سکتا ہے؟
انہوں نے پوچھا ہے کہ قانون سے انحراف اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟
عمران خان نے دریافت کیا ہے کہ آیا ہمارے وہ حساس ترین ایوان جہاں اہم ترین معاملات پر فیصلہ سازی ہوتی ہے محفوظ ہیں؟
انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اگرآئین کے تحت فراہم کردہ حقوق اہم ہیں تو عوام ان سوالات کے جوابات کے جاننے کے حق دار ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین، سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے خط میں یہ بھی کہا ہے کہ استدعا ہے کہ غیر مصدقہ و غیر مجاز آڈیو لیکس پر میری درخواست سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔