ریگستان یا صحرا کا شمار کرئہ ارض کے بے آب و گیاہ علاقوں میں ہوتا ہے جہاں زندگی نام کی کوئی شے نہیںہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو فقط کچھ خاردار ریگستانی سوکھی ہوئی جھاڑیاں (جس کی جڑیں زمین کی گہرائی سے پانی جذب کرتی ہیں) اور بعض اوقات پانی کی تلاش میں ادھر اُدھر گھومتے ہوئے ریگستانی بودوباش کے حامل حیرت انگیز نامیے (Organisms)دن کے وقت بے ابر شفاف آسمان سے خارج ہوتی شمسی توانائی کی حد ت سے یہ خشک اور بنجر علاقے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
یہی وجہ ہے کہ شدید ترین گرم ماحول میں کوئی بھی چندگھنٹوں سے زیادہ نہیں گزار سکتا۔ سوائے ان ماہرین ارضیات اور دیگر تحقیقی اداروں کے جن کے پاس خاص حفاظتی لباس اور پانی کے ساتھ ضروری سازوسامان ہمہ وقت تحقیق کی غرض سے دستیاب ہوتے ہیں لیکن ان علاقوں میںراتیں بھی اچھی نہیں ہوتیں، کیوں کہ جب سورج ریگستان کے اُفق کے پار شفق کی سرخی کے ساتھ غروب ہوتا ہے تودرجۂ حرارت میں رات گزرنے کے ساتھ بڑی تیزی کے ساتھ کمی ہونے لگتی ہے۔
اب اگر کوئی بے سروسامانی کی حالت میں اس ماحول کے گھیرے میں آجائے تو سردی سے کانپتے ہوئے زندگی کی بازی بھی ہار جاتا ہے۔ ان علاقوں میں کبھی بارش ہوتی بھی ہے تو بہت ہی قلیل وقت اور مقدا ر میں ہوتی ہے ،البتہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ سالہا سال میں جب کبھی شدید بارش ہوتی ہے تو ریگستانی علاقے سرسبزوشاداب ہوجاتے ہیں۔ تمام خوابیدہ پودے اور جانداروں میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ جاتی ہے۔ وہ پودے اور نوزائیدہ بیج اور کچھ نامیے جو برسوں سے تراب میں نیم مردہ حالت میں تھے اچانک بیدار ہو کر خشک اور بنجر علاقوں کو پھولوں کا گہوارہ بنادیتے ہیں لیکن وقتی طور پر کیونکہ یہ جس تیزی کے ساتھ بیدا ر ہوتے ہیں۔
اس تیزی کے ساتھ خوابیدہ بھی ہو جاتے ہیں اور پھراچانک بارش کے انتظار میں کئی سال گزار دیتے ہیں ۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے۔مجموعی طور پر ان علاقوں میں سالہا سال تک تندوتیز چلتی ہوئی ہوائوں کی حکمرانی ہوتی ہے، جس کی زد میں آکر چٹان کی سب سے اوپری تہہ شکست و ریخت ہو کر ریت اور مٹی کے ملبے میں بکھر جاتی ہیں جسے چلتی ہوئی ہوا (wind) ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہے اور جب ہوا کی ولایسٹی کم ہو جاتی ہے تو کہیں جمع کردیتی ہے جسے ہوائوں کا تسرفی (Erosion) منتقلی اور مرکوزیت (Deposition)کا عمل کہا جاتا ہے۔ یہ ہوائوں کا منفی اور مثبت کردار ہوتا ہے جو قدرت کی مجسمہ سازی کا ایک اہم نمونہ ہوتا ہے۔
جہاں تک ریگستان کی تخلیق کا تعلق ہے تو یہ گرم اور سرد دونوں علاقوں سے منسلک ہوتی ہیں۔ یعنی جہاں کی آب و ہوا گرم ہو تبخیری عمل تیز اور بارش کم ہو یا کم بارش اور سرد آب و ہوا یا پھر تراب کے تسرفی عمل سے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ ایسے علاقے جو اہم پہاڑی سلسلوں کے عقب (Leewerd) میں پستی کی طرف جلتی ہوں وہ خشک ہوتے ہیں۔ تقریباً
30 ڈگری سینٹی گریڈ شمال اور 30 ڈگری سینٹی گریڈ جنوب پر بلند دباؤ والے علاقے ہوتے ہیں ،جس کی وجہ سے یہاں بارش کم ہوتی ہے، کیوںکہ یہ ہوائیں ان عرض البلاد (Latitude) پر مشرق سے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر ریگستانی پہاڑی سلسلوں کے مغربی جانب پایا جاتاہے۔ اور یہ حقیقت بھی ہے اشیاء ، سائبیریا ،کیلی فورنیا اور نیواڈا شمالی نصف کردہ (Northern Hemisphere)اور آسٹریلیا، جنوبی افریقا اور چیلی جنوبی نصف کرئہ (Southern Hemisphere میں آتا ہے۔ ان کے اندرونی علاقے جو پہاڑی سلسلوں سے گھرے ہوتے ہیں وہ ریگستانی آب و ہوا کی زد میں ہوتے ہیں۔
’’آئس لینڈ‘‘ کا شمار ریگستانی علاقوں میں ہوتا ہے جو سرد آب و ہوا کی وجہ سے کوئی ہریالی نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے یہ تسرفی عمل کی زد میں ہوتا ہے۔ بعض علاقوں مثلاً اسیکنڈی نیویا (Scandinavia)کے پار جب برف پگھلتی ہے یا غائب ہو جاتی ہے تو پھر ریگستان میں ’’ایولین‘‘ ہوا کے ماتحت باریک ذرات) کے رسوب (Sediment) پائے جاتے ہیں جو نباتاتی غلاف بننے سے پہلے جمع ہو جاتے ہیں، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پر (ایولین)ہوائوں کے کٹائو اور گھنائو(Erosion and abrasion)کے عمل سے ایک اور بہت ہی باریک دانے دار ریت کے رسوب حاصل ہوتے ہیں جسے ’’لویس‘‘ (Loess) حاصل ہوتا ہے۔
ان تمام صورت حال میں ہوا ایک طاقتور منفی ایجنٹ بن جاتا ہے، جو عمل ’’ڈیفلیشن‘‘ (Deflation)کے تابع ہوتا ہے، جس سے مراد ہوائوں کی رفتار کے ذریعہ ہجرت کرنا، مثلاً چین (مغربی بیجنگ کئی سومیٹر ’’لویس‘‘ سے ڈھکا پایا گیا ہے۔ دنیا بھر میں ’’ڈیفلیشن‘‘ کا عمل بہت ہی خشک ریگستانی علاقوں میں واضح طور پر نظرآتا ہے۔ جہاں پہ کم رفتار والی ہوا بھی باریک ذرّات کو ریگستان کے فرش سے اڑا کر لے جاتی ہے جب کہ طوفانی ہوا ریت کے طوفان کو جنم دیتی ہے۔ یہ گرد و غبار کو جنم دیتی ہے۔ یہ گردو غبار ان ہوائوں کو جو ریگستانی گرائونڈکے ساتھ ہوتی ہیں ہزاروں فٹ کے ریت سے پر کردیتا ہے۔
اس طرح کے ریت کے طوفان ایشیا اور افریقا کے ریگستانوں میں بکثرت پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ جہاں سفر کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتاہے۔ ایک لمبے عرصے تک ہوا کے اس عمل سے ریگستانی گرائونڈ کے تمام نرم اجزاء گردو غبار بن کر غائب ہو جاتا ہے،جس کی وجہ سے اندرونی چٹانیں سطح پر آشکار ہو جاتی ہیں۔ یہی ہے کہ زیادہ تر ریگستانوں میں کوئی شے نظر نہیں آتی سوائے برہنہ چٹانوں کے، ان علاقوں میں ریگستانی فرش چھوٹے پتھروں پر مشتمل پا یاگیا ہے لیکن یہ اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ہوائیں ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑا کر نہیں لے جاسکتے۔
تمام پتھر مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ جکڑ کر ہموار سطح کی تشکیل کرتے ہیں جسے پختہ فرش (Pavement) والی جگہ کہتے ہیں۔ 1930ء اور 1954ء میں خشک اور نیم خشک علاقوں میں غیر معیاری ’’فارمنگ‘‘ کی وجہ سے ہوا کے منفی عمل کی زد میں آگئے، جس نے قدرتی گرائونڈ کے نباتاتی غلاف کو تباہ کردیا، جس کی وجہ سے وہاں خطرناک قسم کے سوتیلے طوفان سے جنم لیا۔ مثلاً متحدہ ریاست کا مغربی حصہ کا عظیم پلین۔1973ء میں ایک ملین افراد جو سہارا ریگستان کے جنوبی حد بندی خشک علاقہ ساحل بری طرح متاثر ہوا۔ وہ تمام گردوغبار اوردیگر اجزاء جو چلتی ہوتی ہوا اپنے ساتھ اُڑالے جاتی ہے۔
آخر کار ولایسٹی میں کمی کے ساتھ کہیں نہ کہیں ریگستان میں جمع کردیتی ہے ،جس سے خاطر خواہ ذخائر بنتی ہے۔ جو دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔ یہ باریک دانے دار زردی مائل رنگ کا رسوب ہوتا ہے اور غیر تہہ دار ہوتا ہے۔ اس کو ’’لویس‘‘ کہتے ہیں، لیکن طاقت ور ہوا اسے پہاڑوں کی بلندی (wind load side) پر لے جاتی ہے اور پھر نیچے کی طرف (Leeward Side) پر مرکوز کردیتی ہے، جس سے ریت کا ایک ڈھیر جمع ہونے لگتا ہے۔ یہ چلتی ہوئی ہوا کا مثبت کردار ہوتا ہے،جس کو ریت کا ٹیلہ (Sand Dunes) کہتے ہیں جو ایک طرح کی پہاڑی ہوتی ہے جو ابتدا میں تو نرم اور بھربھری ہوتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کی شکل چاند سے مشابہت رکھتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی ایک قسم کو ’’ہارکن‘‘ ریت کا ٹیلہ (Barchan dunes)کہاجاتا ہے۔
یہ ان علاقوں میں عام طور پر پائے جاتے ہیںجہاں ریگستان میں ہوا محدود پیمانے پر ریت کو سپلائی کرتی ہے۔ بعض حالت میں بڑی مسلسل حرکت کرتے ہوئے ریت کے زراعت اوپر کی جانب ہوا کے رُخ پر ڈھلوان کے ساتھ ریت کے کرسٹ کے اوپر سے رسوب اڑا کر دوسری طرف جمع کردیتی ہے۔اگرعام طور سے ہوا ایک ہی سمت سے آرہی ہے تو یہ عمل ٹیلوں کے ہجرت کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔ ہموار علاقوں میں ہوا کی کارکردگی اس وقت تک جاری رہتی ہے۔ جب تک ان علاقوں میں شجرکاری کی مہم کا آغاز نہ کردیا جائے ،تاکہ ریت اپنی جگہ سے کم سے کم ہجرت کرے۔
بعض اوقات ان علاقوں میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ گھاس ، درخت اورپودوں کی شجرکاری کی جائے ،تاکہ ریت کے ٹیلوں سے ریت کی ہجرت پر قابو پایا جاسکے تاکہ شاح راہ، ریل روڈ اور زرعی زمین اور قریبی عمارتوں کو محفوظ رکھاجائے۔ اس ملک کے لئے حفاظتی جال اوردیوار بھی بنائے جاتے ہیں، تاکہ ریت ان علاقوں کو اپنی زد میں نہ لے سکے۔ ہوائیں جن علاقوں کی پہاڑیوں سے ریت اڑا کر لاتی ہے وہاں موجود پہاڑیوں پر گھنائو’’ڈیفلیشن‘‘کے مشترکہ عمل (ریت اورہوا) سے عجیب اور عقل کو دنگ کرنے والی شکلوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔اس بنجر اور خشک ریگستان میں یہ اشکال قدرت کی مجسمہ سازی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔