(گزشتہ سے پیوستہ)
اس تانگوں والے اڈے پر گھوڑوں کو پانی پلانے کے لئے ایک حوض(جوبچہ) بھی ہوتا تھا۔ لاہور کارپوریشن سے پاس شدہ تانگوں کا رنگ پیلا ہوتا تھا جب کہ پرائیویٹ تانگوں کا رنگ مختلف ہوتا تھا۔ ویسے یہ تانگے بھی کارپوریشن سے پاس شدہ ہوتے تھے۔ کیا دور تھا جب تانگوں پر بھی نمبر لگے ہو تے تھے ۔ ہمیں یاد ہے کہ پرائیویٹ تانگے والے سو روپے سے کم کہیں نہیں جاتے تھے، ان تانگوں اور گھوڑوں کو خوب سجایا جاتا تھا زیادہ تر سفید رنگ کے گھوڑے ہوتے تھے اس طرح ٹیکسالی دروازے کے شروع میں بھی ایک تانگوں کا اڈہ اور پانی پلانے کا حوض تھا۔ حضرت علی ہجویریؒ کے مزار مبارک سے ٹیکسالی چوک تک چار رویہ سڑک تھی دو سڑکیں صرف تانگوں کے آنے جانے کے لئے تھیں ان دونوں سڑکوں پر کوئی رکشہ، بس، سکوٹر وغیرہ نہیں آسکتا تھا ۔البتہ سائیکل سواروں کو اجازت تھی آج ان دونوں سڑکوں کا کوئی وجود نہیں رہا اس راوی روڈ پر مسیحی برادری کا بہت وسیع گورا قبرستان ہے، انتہائی ڈرائونا اور پراسرار قبرستان ہے،یہ قبرستان 1830ء میں قائم کیا گیا،خیر اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ لاہور شہر کی سب سے بہترین بلکہ امیروںکی سواری کبھی تانگہ تھی ۔ہمیں یاد ہےلاہور کے کئی امیر گھرانوں نے اپنا تانگہ اور گھوڑا رکھا ہوا تھا بلکہ بھاٹی دروازے،لوہاری دروازے اور ا کبری دروازے میں کئی حویلیوں اور بڑے گھروں میں ہم نے خود گھر کے صحن میں تانگہ اور گھوڑا بندھا دیکھا ہے ۔ہیرا منڈی کا ایک بڑا مشہور کردار ماما مودا تھا ،ہم نے آج سے کوئی تیس برس قبل مامے مودے کا انٹرویو ان کے گھر میں زمین پر بیٹھ کر کیا تھا اس انٹرویو کی کیسٹ آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہے ۔ماما مودے کو ہیرا منڈی کا بچہ بچہ جانتا تھا اس بازار میں کوئی بھی مسئلہ پیدا ہوتا تو ماما مودا ثالث کا کردار ادا کیا کرتا تھا اور اگر پولیس کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو تب بھی وہ اس سے مدد لیتی تھی، ماما مودا کے پاس انگریزوں کی دی ہوئی کوئی سند بھی تھی ،یہ بات ہمیں لاہور کے والٹن ایئرپورٹ کے جی ایم سلیمان ملک نے ایک بار بتائی تھی، اس سند یا سرٹیفکیٹ میں بازار حسن کے حوالے سے کوئی تحریر بھی تھی۔خیر اب تو ہیرا منڈی فوڈا سٹریٹ اور جوتوں کی مارکیٹ میں تبدیل ہو چکی ہے ۔کبھی ان جگہوں پر گانے والیاں بیٹھا کرتی تھیں،حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ گانے والیاں قیمہ کریلے بڑے شاندار اور لذیذ بنایا کرتی تھیں۔ ہیرا منڈی میں سب سے زیادہ دکانیں پان اور سگریٹ کی ہوا کرتی تھیں بعض گلیوں میں چار چار دکانیںپان اور سگریٹ کی تھیں۔ آج وہاں چند ایک پان کی دکانیں موجود ہیں اس بازار کی ایک پوری تاریخ ہے بڑے نامور سیاست دان یہاں آتے تھے اور انہوں نے یہاں پر شادیاں بھی کیں۔
ترنم سینما کے بعد سٹی سینما بنایا گیا، سٹی سینما ان دونوں سینما گھروں سے بہتر اور خوبصورت تھا اب دونوں سینما نہیں۔ ترنم سینما کی جگہ ترنم پلازہ بن چکا ہے یہاں پروٹسٹنٹ فرقے کا 1908ء میں قائم کیا گیا چرچ بھی ہے اصل چرچ تو کب کا گرچکا 1995میں نیا چرچ بنا دیا گیا مگر اس پر دو پرانی تختیاں آج بھی موجود ہیں جن پر لکھا ہے :
IN MEMORY OF REV.G.L THAKER DAS WHO FOUNDED THIS CHIL REH IN 1908
شاہی محلہ کیا تاریخی علاقہ ہے، ایک طرف بادشاہی مسجد ،ایک طرف چرچ، ایک طرف گوردوارہ اور مندر بھی ہے ۔لاہور میں شاید ہی کسی علاقے میں اس طرح کی صورت ہو۔بھاٹی گیٹ، شاہی محلہ،پانی والا تالاب، سید مٹھا بازار ،تحصیل بازار، ٹبی گلی اور اس سے ملحقہ علاقے ناصرف بڑے تاریخی ہیں بلکہ بڑی دلچسپ اور خوبصورت روایات کے امین بھی ہیں، ہیرا منڈی کی تاریخ ماما مودا کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔
سید مٹھا بازار میں حضرت پیر سید ابی غفار حسینی کا مزار مبارک ہے وہ زبان کے اتنے شیریں اور میٹھی بات چیت کرتے تھے کہ ان کا نام سید مٹھا پڑ گیا ہم نے ان کے مزار مبارک پر حاضری دی ۔یقین کریں اس قدر سکون ملا کہ بیان سے باہر ہے کچھ دیر کے لئے اس فانی دنیا کی تمام نعمتیں ہمارے لئے بے معنی اور بے وقعت ہو گئیں، آج کل ان کے 850ویں عرس مبارک کی تقریبات جاری ہیں بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے۔
عزیز قارئین !آپ کو ایک دلچسپ بات بتائیں اندرون لاہور کےہر دروازے، گلیوں، بازاروں، کوچوں اور احاطوں میں ایک یا دو مزار مبارک ضرور ہیں ۔یہ بڑی نیک ہستیاں ہیں ہم نو گزا پیر اور سید مٹھا بازار سے شاہی محلہ سے ہوتے ہوئے تحصیل بازار کی طرف چلے۔راستے میں طبلے اور موسیقی کے آلات بنانے والی دو،تین دکانیں ہیں کبھی یہاں پر موسیقی کے آلات بنانے اور مرمت کرنے والوں کی بے شمار دکانیں ہوا کرتی تھیں تحصیل بازار سے حویلی دھیان سنگھ کی طرف جا رہےتھے تو راستے میں بوہڑ(برگد) کا ایک بڑا ہی خوفناک درخت نظر آیا ۔محلے کے ایک نوجوان نصیر نے بتایا کہ رات کو ہوا نہ بھی چل رہی ہو تو یہ درخت ہلتا ہوا نظر آتا ہے ،کچھ اور بھی محلے والوں نے اس کی تصدیق کی خیرہم اس درخت سے بچ بچا کر اس تاریخی حویلی کے سامنے جا کھڑے ہوئے جہاں سے برصغیر کے قدیم اور نامور تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج لاہور کا آغاز ہوا تھا۔ خیر ایک سابق وائس چانسلر نے اس کو یونیورسی بنا کر اس کا نام ہی بگاڑ دیا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور اب رہی سہی کسر کچھ اور لوگ پوری کر رہے ہیں۔ (جاری ہے)