• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ رات کو آسمان پر بے شمار ستارے دیکھتے ہیں، لیکن آپ کے سب سے قریب ستارہ رات کو نہیں بلکہ دن کو نظر آتا ہے یعنی ہمارا سورج، جی بالکل ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے۔ رات کو آسمان پر دکھنے والے تمام ستارے ہماری سورج کی طرح کے ہی ہیں، کچھ سورج سے بڑے، کچھ اس کے جتنے اور کچھ اس سے چھوٹے۔ یہ سب ستارے ہمارے سورج سے اتنادور ہے کہ ان ستاروں میں سے کسی ایک ستارے تک بھی ہم کوئی ربوٹک مشن نہیں بھیج سکے اور نا ہی مستقبل قریب میں بھیج سکتے ہیں۔ 

ہمارا سورج ہمارا قریب ترین ستارہ ہے، اس کی روشنی ہم تک 8 منٹ 21 سیکنڈ میں پہنچتی ہے۔ کوئی بھی شے ہمیں تب ہی نظر آتا ہے جب اس کی روشنی یا روشنی اس سے منعکس( reflect )ہو کر ہماری آنکھ تک پہنچے۔ چونکہ سورج کی روشنی 15 کروڑ کلومیٹر کا سفر طے کر کے 8 منٹ 21 سیکنڈ میں ہم تک پہنچتی ہے، اس لیے ہم ہمیشہ 8 منٹ 21سیکنڈ پرانا سورج دیکھ رہے ہوتے ہیں، کیوںکہ جب تک سورج کی روشنی ہم تک نہیں پہنچے گی وہ ہمیں نظر نہیں آئے گا۔ 

اگر سورج طلوع بھی ہوجائے تو آپ کو 8 منٹ 21 سیکنڈز کے بعد ہی نظر آئے گا، اور سورج غروب بھی ہوجائے تب بھی آپ کو 8 منٹ 21 سیکنڈ تک نظر آتا رہے گا۔آسمان پر نظر آنے والے ستارے ہم سے کتنی دور ہیں۔ سورج کے بعد ہم سے قریب ترین ستارہ تقریبا ~4.5 نوری سال (روشنی ایک سال میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے وہ ایک نوری سال کہلاتا ہے) دور ہے۔ آپ کائنات کی وسعت کا اندازہ لگا لیجئے۔ رات میں آسمان کی طرف دیکھیں تو آپ کو کئی لاکھ ستارے نظر آئیں گے لیکن یہ آسمان پر موجود ستاروں کا چھوٹا ساحصہ ہے ۔

کائنات میں تقریباً 2,000,000,000,000 کہکشائیں ہیں یعنی 2 ٹریلین۔ ماہرین فلکیات بالکل نہیں جانتے کہ ان 2 ٹریلین کہکشاؤں میں سے ہر ایک میں کتنے ستارے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بہت دور ہیں۔ لیکن ہم ملکی وے میں ستاروں کی تعداد کا اچھا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وہ ستارے بھی متنوع ہیں اور مختلف سائز اور رنگوں میں آتے ہیں۔ 

ماہرینِ فلکیات آج تک یہ نہیں جان سکے کہ ہر کہکشاں میں کتنے ستارے ہیں

ہمارا سورج، ایک سفید ستارہ، درمیانے سائز، درمیانے وزن اور درمیانے درجے کا گرم ہے۔ اپنے مرکز میں 27 ملین ڈگری فارن ہائیٹ (15 ملین ڈگری سیلسیس)۔ بڑے، بھاری اور گرم ستارے نیلے رنگ کے ہوتے ہیں، جیسے لیرا برج میں ویگا۔ چھوٹے، ہلکے اور مدھم ستارے عام طور پر سرخ ہوتے ہیں، جیسے Proxima Centauri۔ سورج کے علاوہ، یہ ہمارے قریب ترین ستارے، سرخ، سفید اور نیلے ستارے مختلف مقدار میں روشنی دیتے ہیں۔ 

اس ستارے کی روشنی کی پیمائش کرکے خاص طور پر اس کےرنگ اور چمک کا ماہرین فلکیات اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری کہکشاں میں کتنے ستارے ہیں۔ اسی طریقہ سے، انہوں نے دریافت کیا کہ ملکی وے میں تقریباً 100 بلین ستارے ہیں۔ کائنات میں تقریباً 200 بلین ٹریلین ستارے ہیں۔یہ تعداد اتنی بڑی ہے، اس کا تصور کرنا مشکل ہے۔ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نے اب تک کی سب سے دور دراز کہکشاں کو دیکھا ہے، جو بگ بینگ کے تقریباً 325 ملین سال کے اندر بنی تھی۔ اگرچہ اس نے بہت سی کہکشائیں دیکھی ہیں جو غیر معمولی طور پر بہت دور دکھائی دیتی ہیں، لیکن یہ وہ پہلی کہکشائیں ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ اتنی ہی دور ہیں جتنی کہ وہ دکھائی دیتی ہی۔

ماہرین فلکیات ریڈ شفٹ نامی میٹرک کا استعمال کرتے ہوئے کائناتی اشیاء کے فاصلے کی پیمائش کرتے ہیں۔ کائنات کے پھیلاؤ کی وجہ سے، کوئی چیز زمین سے جتنی زیادہ دور ہوتی ہے، اتنی ہی تیزی سے ہم سے دور ہوتی ہے۔ ڈوپلر ایفیکٹ کی طرح، جس میں کوئی آواز اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ سننے والے کی طرف بڑھ رہی ہے یا اس سے دور ہے، کہکشاں سے آنے والی روشنی کا رنگ جتنی تیزی سے دور ہوتا ہے اتنا ہی سرخ ہوتا جاتا ہے۔ کہکشاں اس کے اصل رنگ کے حساب سے کتنی سرخ دکھائی دیتی ہے اس کا موازنہ کرکے، ماہرین فلکیات اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ کہکشاں واقعی کتنی دور ہے۔

جیمز ویب کے ذریعے کہکشاؤں کے ابتدائی مشاہدات میں، ماہرین فلکیات صرف ہر کہکشاں کی ریڈ شفٹ کا تخمینہ لگا سکتے تھے ۔ ان مشاہدات نے 12 اور اس سے اوپر کی سرخ شفٹوں والی کہکشاؤں کے اشارے فراہم کیے یعنی ایسا لگتا ہے کہ وہ 30 ملین نوری سال سے زیادہ دور ہیں اور بگ بینگ کے 400 ملین سال کے اندر بن چکے ہوں گے لیکن بہت سے سائنس دانوں نے ان نتائج کو شک کی نگاہ سے دیکھا۔" اب، JWST Advanced Deep Extragalactic Survey (JADES کے حصے کے طور پر، محققین نے تقریباً 10.4 سے 13.2 کے درمیان چار انتہائی دور دراز کہکشاؤں کی ریڈ شفٹوں کی تصدیق کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بگ بینگ کے 325 ملین اور 450 ملین سالوں کے درمیان تشکیل پائے۔ سب سے زیادہ دور کہکشائیں ہمارے کائناتی پڑوس میں موجود کہکشائوں سے کس طرح مختلف ہیں۔ 

کائناتی تحقیق کے لئے 1977ء میں دونوں وائجر اول اور دوم کے خلائی سفر کا آغاز ہوا تھا۔ سائنسی امریکن رپورٹ کے مطابق تحقیقات کی عمر کو مزید چند سالوں تک بڑھانے کے لیے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ دونوں وائجر کی ختم ہوتی توانائی کو بچانے کے لیے مزید کچھ سسٹم بند کیے جائیں، تاکہ 2030ء تک وہاں سے سگنل مل سکیں۔ پچھلے تین سالوں میں ٹیم نے وائجر اول اور دوم کے ہیٹر بند کر دیے ہیں اور حیرت انگیز طور پر دونوں وائجر نے اس درجہ ٔحرارت سے نیچے کام جاری رکھا ہوا ہے، جس پر ان کا تجربہ کیا گیا تھا۔ اعلیٰ انجینئرنگ کا کمال ہے کہ خلاء میں تقریباً نصف صدی کے بعد دونوں وائجر خلائی جہاز باقی ہیں۔ 

ناقابل یقین بات یہ ہے کہ دونوں وائجر ریڈیو ایکٹو پلوٹونیم ری ایکٹرز (radioactive plutonium reactors) سے چلتے ہیں، جس نے چھوٹے آن بورڈ کمپیوٹرز کو بجلی کی گرم فراہمی کو برقرار رکھا ہے جو کئی دہائیوں سے بغیر وقفے کے چل رہے ہیں۔ ان مشنز کا بنیادی مقصد Jupiter اور Saturn، اور ان کے چاند کی معلومات حاصل کرنا اور تصاویر بھیجنا تھا، اپنے سفر میں 1990ء میں، وائجر اول نے سورج سے 3.7 بلین میل دور زمین کی ایک تصویر کھینچی تھی، جس میں ایک چھوٹا سا blue dot دکھائی دے رہا ہے۔ناسا کا وائجر اول اور دوم کائنات کا پہلا ایسا مشن ہے جو ہم سے بہت دور ہے اور مسلسل دور ہوتا جا رہا ہے، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دونوں وائجرز میں پاور کم ہونے کی وجہ سے، آہستہ آہستہ مزید اجزاء اور آلات کو بند کرنے کی ضرورت ہے، اگر سب کچھ واقعی ٹھیک رہا تو شاید ہم دونوں مشنز کو 2030ء تک بڑھا سکتے ہیں۔ 

اس سلسلے میں پاور کو محفوظ رکھ کر مشنز کو چند سال اور آگے بڑھانے کے لیے سائنس داں غوروفکر کر رہے ہیں۔کائناتی فاصلوں کی پیمائش نوری سال کے حساب سے کی جاتی ہے۔ روشنی ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ ایک دن میں چھیاسی ہزار چار سو 86400 سیکنڈز ہوتے ہیں۔ ایک دن میں روشنی پچیس ارب بانوے کروڑ کلومیٹر کا سفر طے کر جاتی ہے۔ روشنی ایک سال میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے اسے نوری سال کہا جاتا ہے۔ جب تک ہم اپنے نظام شمسی کے اندر موجود فاصلوں کو ناپتے ہیں تو ہمیں ان پیمائشوں کے لئے کلومیٹر اور میل کا پیمانہ کافی رہتا ہے لیکن اگر ہم اپنے نظام شمسی سے باہر نکل کر اسی پیمانے کے تحت ستاروں کے درمیانی فاصلوں کو ناپنا چاہیں تو یہ ناممکن ہے۔ 

مثال کے طور پر ایلفا سینٹوری (Alpha Centaury) نامی ستارہ ہم سے چار اعشاریہ پچیس 4.25 نوری سال کی مسافت پر ہے۔ یہ اتنا زیادہ فاصلہ ہے کہ “ایک ایسا خلائی جہاز جس کی رفتار 60000 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو ،وہ خلائی جہاز بغیر کسی وقفے کے 76000 سال تک اسی رفتار سے چلتا رہے، تب جا کر یہ خلائی جہاز ایلفا سینٹوری ستارے تک پہنچے گا۔یاد رہے کہ وائجرز خلائی جہاز اسی رفتار سے ہمارے پڑوسی ستارے کی طرف جا رہا ہے۔ اسے زمین سے اڑان بھرے چھیالیس برس ہوگئے ہیں، ان چھیالیس سالوں میں وہ ہم سے 26 ارب کلومیٹر سے بھی زیادہ دور جا چکا ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید