• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواتین کی آزمائشوں کی داستان جدوجہد تاریخ کا حصہ بن گئی

دنیا کی آبادی کا نصف حصہ عورتوں پر مشتمل ہونے کے باوجود دنیا بھر میں عام طور پر اور پاکستان میں خاص طور پر پارلیمان میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پارلیمان میں عوام کی صحیح نمائندگی کے لئے عورتوں کی اپنی آبادی کے تناسب سے موجودگی ضروری ہے۔ جنوبی ایشیا عورتوں کی حکمرانی کے لحاظ سے دنیا بھر میں ممتاز رہا ہے۔ پاکستان میں بے نظیر بھٹو، ہندوستان میں اندرا گاندھی، بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا اور حسینہ واجد ، سری لنکا میں سری وامو بندرا نائیکے ،اور چندریکا کمارا ٹنگے صدارت اور وزارت عظمیٰ جیسے عہدوں پر فائز رہیں لیکن مجموعی طور پر سیاست میں عورتوں کی شرکت کم رہی۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ 2002کے عام انتخابات کے بعد دنیا بھر کے مقابلے میں پارلیمان میں عورتوں کی اوسط تعداد میں اضافہ ہوا۔ یوں نہ صرف عورتوں بلکہ سیاسی پارٹیوں اور جمہوریت کے لئے نئے مواقع اور چیلنجز پیدا ہوئے۔ زیر نظر مضمون میں ہم پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں خواتین کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے۔

سینیٹ بنانے کا مقصد یہ تھا کہ وفاقی اکائیوں کو مساوی نمائندگی دی جائے تا کہ فیصلہ سازی اور قانون سازی میں صوبوں میں پائے جانے والی عدم مساوات کو ختم کیا جا سکے۔پاکستان میں جب پہلی مرتبہ سینیٹ کا قیام عمل میں آیا تو اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 45 تھی اور اس میں صرف ایک خاتون رکن گجرات کی سمیعہ عثمان فتح تھیں ،جن کے حصے میں پاکستان کی پہلی خاتون سینیٹر ہونے کا اعزاز آیا۔ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ وہ 1973میں سینیٹر بنیں اور 1975 تک رہیں۔ 

انہوں نے اقتصادی امور اور شماریاتی ڈویژن کی فنانس، پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کمیٹیوں میں کام کیا۔ان کے بعد جھنگ سے آصفہ فاروقی 1975-1977 سینیٹر رہیں۔ انہیں پاکستان کی دوسری خاتون سینیٹر ہونے کا اعزازحاصل ہوا،ان کا تعلق بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔1977میں سینیٹ میں نشستوں کی تعداد پینتالیس سے بڑھا کر63 کر دی گئی لیکن 1977میں ضیا الحق نے مارشل لا لگا دیا۔ اور پھر کہیں 1985میں جا کے آئین کو بحال کیا گیا۔اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے لئے انتخابات کرائے گئے۔ سینیٹ کے ارکان کی تعداد 63 سے بڑھا کر 87کر دی گئی۔ 1985سے 1988 تک سینیٹ میں کوئی خاتون رکن نہیں تھی۔

مارشل لا کے بعددوسرے انتخابات 1988 میں ہوئے اور 87 ارکان والے سینیٹ میں صرف ایک عورت منتخب ہوئی۔ یہ بلوچستان کی ڈاکٹر نور جہاں پانزئی تھیں جن کا تعلق پاکستان مسلم لیگ جونیجو گروپ سے تھا۔وہ 1994تک سینیٹر رہیں۔ وہ 21مارچ1991 سے20مارچ 1994تک سینیٹ کی ڈپٹی چیئر پرسن رہیں۔ انہیں پاکستان سینیٹ کی پہلی خاتون ڈپٹی چیئرپرسن ہونے کا اعزازحاصل ہے۔ 1994میں دو خواتین سینیٹ کی رکن بنیں۔ یہ فضہ جونیجو اور نسرین جلیل تھیں۔وہ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کی ڈپٹی کنوینر تھیں۔اور پہلی مرتبہ 1994میں چھ سال کے لئے سینیٹر منتخب ہوئیں۔وہ کامرس، خارجہ امور، کشمیر اور شمالی علاقہ جات، صحت، سماجی بہبود اور اسپیشل ایجوکیشن کی سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی رکن رہیں۔

فضہ کا تعلق پی ایم ایل جے اور نسرین جلیل کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے تھا اور دونوں کراچی کی ہیں۔ یہ دونوں خواتین اگلے چھ سالوں یعنی 2000تک سینیٹ میں رہیں۔ ان دو خواتین کے علاوہ لاہور کی بیگم نادرہ خاکوانی ایک نشست خالی ہوجانے کی وجہ سے پانچ ماہ کے لیے سینیٹر بنیں۔ (22-9-1996سے 20-3-1997 تک۔) 1994 سے 2000 تک سینیٹ کے ارکان کی مجموعی تعداد 87رہی۔ان میں خواتین کی نمائندگی 2.29% تھی۔ (اس میں نادرہ خاکوانی کی پانچ ماہ کی مدت شامل نہیں)۔

1997میں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر فوجی آمریت کا سامنا کرنا پڑا اور 1997-2007تک جنرل پرویز مشرف حکمران رہے۔اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ سے لے کر لوکل گورنمنٹ تک ہر سیاسی فورم پر عورتوں کے لئے آئینی اور قانونی کوٹہ متعارف کروایا۔ سینیٹ کے ارکان کی تعداد بڑھا کر سو 100ارکان کر دی گئی۔ سینیٹ میں عورتوں کا کوٹہ17فی صد کر دیا گیا۔ان میں ہر صوبے سے چار خواتین اور وفاقی دارالحکومت سے ایک خاتون شامل تھیں۔ یعنی سینیٹ میں عورتوں کی سترہ مخصوص نشستیں ہو گئیں۔

2002کے انتخابات بھی اسی کوٹے کے تحت کرائے گئے۔ یوں پہلی مرتبہ عورتوں کی ایک بڑی تعداد سینیٹ میں پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔2003میں اٹھارہ فی صد عورتیں سینیٹ کی رکن بنیں۔ ان میں سے سترہ مخصوص نشستوں پر اور ایک جنرل سیٹ پر آئی تھیں۔2009 اور 2013 میں ہونے والے انتخابات میں بھی مخصوص نشستوں کی یہی تعداد تھی۔ دونوں انتخابات میں عورتوں کی تعداد کم ہو کر سترہ فی صد پر آگئی۔

اگر ہم سینیٹ میں عورتوں کی نمائندگی پر نظر ڈالیں تو بہت زیادہ صنفی تفاوت نظر آتا ہے۔سینیٹ کی تاریخ میں عورتوں کی نمائندگی بہت معمولی رہی ہے۔جنرل سیٹ اور ٹیکنوکریٹ سیٹ پر بھی عورتیں شاذ ہی منتخب ہو کر آئیں۔سینیٹ میں عورتوں کی مخصوص نشستوں کا کوٹہ بہت دیر سے متعارف کروایا گیا۔ بہرحال مخصوص نشستوں کی وجہ سے عورتوں کی مجموعی نمائندگی میں قدرے اضافہ ہوالیکن ان مخصوص نشستوں کی وجہ سے عورتیں جنرل اور ٹیکنوکریٹس سیٹس سے غائب ہو گئیں۔ (بشکریہ: پلڈاٹ، باری سرور اور ڈاکٹر نائمہ تبسم)۔

سینیٹ میں خواتین کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے پہلے کچھ اور خواتین سینیٹرز کا مختصر سا تعارف ہو جائے:

عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر ستارہ ایازکا تعلق ضلع صوابی ، خیبر پختونخواہ سے ہے۔ سینیٹر بننے سے پہلے وہ صوبائی اسمبلی کی رکن اور 2008-2013 میں سماجی بہبود اور عورتوں کی خود مختاری کے محکمے کی صوبائی وزیر تھیں۔ وہ مارچ 2015-2021 تک سینیٹر رہیں۔

بلوچستان کی ثنا جمالی آزاد امیدوار کی حیثیت سے 2018سے سینیٹ کی رکن ہیں۔ وہ بلوچستان کے نوویں وزیر اعلیٰ میر جان محمد خان جمالی کی صاحبزادی ہیں۔

سینیٹر سسی پلیجو نے سندھ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا اور سندھی اخبارات میں کالم بھی لکھے۔ اس سے پہلے وہ جنرل سیٹ پر 2002 اور 2008 کے انتخابات جیت کرسندھ کی صوبائی اسمبلی کی رکن بھی رہی ہیں۔ ان کاتعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔

سینیٹر راحیلہ مگسی کا تعلق پی ایم ایل نواز سے ہے ۔وہ سینیٹ میں 2015-2021 تک رہیں۔

سینیٹر نگہت مرزا کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے، انہوں نے اسلامی اور سیاسی فلسفے پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ وہ سینیٹ میں 2015-2021 تک رہیں۔ ’’تعلیم سب کے لئے‘‘ کے نظرئیے کی زبردست حامی ہیں۔

قرتہ العین سینیٹ میں سندھ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ وہ 2018سے سینیٹ کی رکن ہیں۔

نزہت عامر صادق 2012سے مخصوص نشست پر سینیٹ کی رکن ہیں۔اس سے پہلے 2008 کے عام انتخابات میں وہ پاکستان مسلم لیگ نون کی طرف سے مخصوص نشستوں پرقومی اسمبلی کی رکن بنیں۔ تھیں۔انہوں نے 1975میں پشاور کے کنٹونمنٹ کالج سے بی اے کیا تھا۔ وہ سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کی چیئر پرسن رہیں۔ 

اس حیثیت سے انہوں نے ستمبر 2015 میں باکو آذر بائیجان میں ایشیائی سیاسی پارٹی ویمن ونگز کانفرنس APP میں شرکت کی۔ کانفرنس کی کارروائی کے دوران انہیں APP کادو سال کے لئے چیئر پرسن منتخب کیا گیا۔کانفرنس کے علاوہ بھی انہوں نے آذر بائیجان کی قیادت کے ساتھ دو طر فہ دلچسپی کے امور پر میٹنگز کیں۔اور آذر بائیجان کی پارلیمنٹ اور دیگر اہم مقامات کا دورہ کیا۔

جنوری 2023 میں انہوں نے انطالیہ ترکیہ میں ایشین پارلیمینٹیرین اسمبلی میں پاکستانی وفد کی قیادت کی اور بلا مقابلہ تیرھویں اجلاس کی ریپورٹئیر منتخب ہوئیں۔ انہوں نے مختلف ممالک کے وفود کے ساتھ الگ سے بھی میٹنگز کیں۔

نزہت صادق ڈرافٹنگ کمیٹی ، کلائیمٹ چینج، ڈیفنس پروڈکشن،فیڈرل ایجوکیشن اور پروفیشنل ٹریننگ اورفنانس کمیٹی کی رکن رہی ہیں۔ وہ سینیٹ کی لائبریری کمیٹی کی چئیر پرسن بھی رہیں۔

دو دسمبر 2022 کو 78سال کی عمر میں وفات پانے والی نجمہ حمید 2009 سے 2021 تک سینیٹ کی رکن رہیں۔ وہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے ویمن ونگ کی صدر بھی رہیں۔

سیدہ صغریٰ امام نے 1994میں ہارورڈ سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد وہ خارجہ امور کے ایک امریکی تھنک ٹینک کے لئے نیو یارک میں کام کرتی رہیں ۔ انہوں نے یو این ڈی پی میں بھی کام کیا۔1998-99 میں وہ ضلع کونسل جھنگ کی کی چئیر پرسن بھی رہیں۔2002-3 میں وہ پنجاب اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔ ان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ وہ 2009 میں سینیٹر منتخب ہوئیں۔ ان کا تعلق پاکستان کے مشہور سیاسی گھرانے سے ہے۔ وہ وہ فخر امام اور سیدہ عابدہ حسین کی بیٹی ہیں۔

سعدیہ عباسی مارچ 2021میں تیسری مرتبہ مخصوص نشست پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے سینیٹر منتخب ہوئیں۔وہ درج ذیل اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی رکن ہیں:

کیبینٹ سیکریٹریٹ، پلاننگ،پٹرولیم، ڈیولپمنٹ اینڈ اسپیشل انیشئٹو،فنانس، ریوینیواینڈ اکنامک افئیرز اور خارجہ امور۔

گل بشریٰ سینیٹ کے 2015کے انتخابات میں سینیٹر منتخب ہوئیں۔ان کا تعلق پختونخواہ ملی عوامی پارٹی بلوچستان سے ہے۔ وہ کلائمٹ چینج، وفاقی تعلیم اور ٹریننگ، نیشنل فوڈ سیکوررٹی اینڈ ریسرچ اور پارلیمانی امور کی کمیٹی سے وابستہ ر ہیں۔

عائشہ رضا فاروقی پی ایم ایل نون کی جانب سے پہلے قومی اسمبلی کی رکن اور پھر سینیٹر 2015-2021 رہیں۔ وہ پولیو کے خاتمے کی وزیر اعظم کی مہم کی فوکل پوائنٹ تھیں۔انہوں نے لمز سے ایم بی اے اور پنجاب لا کالج سے ایل ایل بی کیا ہے۔پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے دوران وہ اسلام آباد کے مختلف علاقوں کی سرپرائز وزٹ کیا کرتی تھیں۔

کراچی سے ایم کیو ایم کی خالدہ طیب 2021میں جب سینیٹر منتخب ہوئیں تو وہ تین ماہ قبل ہی بیوگی کے صدمے سے دوچار ہوئی تھیں لیکن اس کے باوجود وہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالنے اسلام آباد گئیں۔

بلوچستان کی عابدہ محمد عظیم آزاد امیدوار کی حیثیت سے 2018 میں منتخب ہوئیں۔ ان کے عہدے کی معیاد 2024 تک ہے۔ ڈاکٹر زرقا سہروردی تیمور کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ وہ مارچ 21-27 کے لئے منتخب ہوئیں۔خیبر پختونخواہ سے پی ٹی آئی کی فلک ناز بھی اسی مدت کے لئے منتخب ہوئی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت سے پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد بھی اسی مدت کے لئے منتخب ہوئیں۔

ایم کیو ایم کی خالدہ عطیب کے عہدے کی معیاد بھی اتنی ہی ہے ۔سندھ سے تعلق رکھنے والی پی پی پی کی پلوشہ زئی خان مارچ 2021سے 2027تک سینیٹر رہیں گی اور اسی پارٹی کی ڈاکٹر خالدہ سکندر مہندرو 2024 تک سینیٹر رہیں گی۔ خیبر پختونخواہ کی ڈاکٹر مہر تاج روغنی پی ٹی آئی سے منسلک ہیں اور مارچ 2024تک سینیٹر رہیں گی۔ بلوچستان عوامی پارٹی باپ کی ثمینہ ممتاز زہری کی ایوان بالا کی رکنیت مارچ 2027تک ہے۔ نسیمہ احسان بھی بلوچستان سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے سینیٹر بنیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی شیری رحما ن کلا ئمٹ چینج کی وزیر اور سینیٹ میں اپنی پارٹی کی پارلیمانی لیڈر ہونے کے ساتھ پارٹی کی نائب صدر بھی ہیں۔ وہ جناح انسٹیٹیوٹ کی بانی چیئر ، چار مرتبہ پارلیمنٹ کی رکن ،سفارت کار، صحافی اور سول سوسائٹی ایکٹوسٹ رہی ہیں۔ انہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز نشان امتیاز مل چکا ہے۔

وہ پاکستان ہلال احمر کی چیئر،امریکہ میں پاکستان کی سفیر اور وفاقی وزیر اطلاعات، سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کی چیئر بھی رہی ہیں۔ اپنی حالیہ کتاب Womensplaining میں انہوں نے بائیس خواتین ایکٹوسٹس، لیڈرز اور اکیڈمکس کی آرا شامل کی ہیں۔ اس کے علاوہ ناہید جعفری کے ساتھ مل کے انہوں نے ایک کتابــ’’کشمیری شال کے پانچ سو سال‘‘بھی لکھی ہے۔2018 میں سینیٹ کی قائد حزب اختلاف منتخب ہو کر انہوں نے تاریخ رقم کی اور سینیٹ کی پہلی خاتون قائد حزب اختلاف ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر رخسانہ زبیری پیشے کے لحاظ سے انجینئیر ہیں اور ایک طویل عرصے سے پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔سینیٹ میں ان کے موجودہ عہدے کی معیاد 2018- 2024ہے۔ 1977کے عام انتخابات میں وہ سندھ اسمبلی میں مخصوص نشست پر منتخب ہوئی تھیں۔2003 کے سینیٹ کے الیکشن میں وہ سندھ سے مخصوص نشست پر سینیٹر بنیں اور 2009میں ریٹائر ہوئیں۔2018کے انتخابات میں وہ دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئیں۔وہ ویمن انرجی کی بانی چئیر پرسن ہیں اور ایک جاپانی تنظیم کی مدد سے سولر گرڈ سسٹم پر کام کر رہی ہیں۔ 

وہ 2008 میں سارک کی ویمن ان انرجی ورکنگ گروپ کی کنوینر رہیں۔وہ صدر کی متبادل انرجی کی ٹاسک فورس کی رکن رہنے کے علاوہ انجینئیرنگ اور سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق مختلف اداروں اور کمیٹیوں کی رکن رہی ہیں۔ شمسی توانائی کے استعمال کو مقبول بنانے کے لئے انہوں نے متعدد اقدامات کئے ہیں۔

پختونخواہ کی سینیٹر روبینہ خالد کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ ان کا تعلق ایک سیاسی خانوادے سے ہے۔ انہوں نے خیبر لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔وہ پہلی مرتبہ 2012میں اور پھر 2018کے انتخابات میں سینیٹرز بنیں۔ روبینہ خالد سینیٹ کی مختلف کمیٹیوں سے وابستہ ہیں جیسے باچا خان ائیرپورٹ کی زبوں حالی، معاشرے کے پچھڑے ہوئے لوگ،ڈیفنس پروڈکشن، انفارمیشن، براڈکاسٹنگ اینڈ نیشنل ہیریٹیج، انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن اینڈ کامرس۔ وہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کلچرل اسٹڈیزکی سرگرم رکن ہیں۔ وہ پاکستان کے ڈیزائینرز اور دستکاروں کی معاشی صورتحال بہتر بنانے کے لئے کام کر رہی ہیں۔ 2012 میں انہوں نے ہندکو کانفرنس میں حصہ لیا اور اسی سال’ زینب کو انصاف دلائو‘ مہم کا حصہ بھی رہیں۔

سینیٹر ثمینہ عابد کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ وہ 2015 کے سینیٹ انتخابات میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئیں۔خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کے ویمن ونگ کی صدر بھی ہیں۔ سینیٹر کی حیثیت سے وہ چترال ہسپتال سمیت مختلف اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے دورے کرتی رہی ہیں۔

کرشنا کوہلی پیپلز پارٹی کی طرف سے 2018 میں سینیٹر بنیں، وہ دوسری ہندو خاتون ہیں جنہیں یہ عہدہ ملا ہے۔ اس سے پہلے وہ انسانی حقوق کے لئے اور جبری مشقت کے خلاف کام کرتی رہی ہیں ۔2018میں بی بی سی نے ان کا نام سب سے زیادہ با اثر خواتین کی فہرست میں شامل کیا۔وہ نگر پارکر کے ایک غریب کوہلی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ تین سال تک ان کا گھرانہ عمر کوٹ کے ایک وڈیرے کی نجی جیل میں بیگار مزدوری کے لئے قید رہا۔پولیس کے چھاپے کے نتیجے میں انہیں رہائی ملی۔

وہ نہم جماعت میں پڑھ رہی تھیں کہ ان کی شادی ہو گئی۔شادی کے بعد بھی انہوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور 2013 میں سندھ یونیورسٹی سے عمرانیات میں ایم اے کیا۔2007 میں انہوں نے تیسرے مہر گڑھ یوتھ ہیومن رائٹس ٹریننگ کیمپ میں شرکت کی تھی۔کرشنا تھر کے محروم طبقات کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئیں اور 2018 میں سینیٹر منتخب ہوئیں۔2019 میں انہوں نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والے سینیٹ کے اجلاس کی صدارت کی۔

پاکستان تحریک انصاف کی سینیٹر ڈاکٹر ثانیہ نشتر ایک فزیشن اور کارڈیالوجسٹ ہیں۔وہ غربت میں تخفیف اور سماجی تحفظ کے لئے وزیر اعظم کی معاون خصوصی رہیں ۔ان کا درجہ وفاقی وزیرکے برابر تھا اور وہ احساس پروگرام کی چئیر پرسن بھی رہیں۔ 2021 میں خیبر پختونخواہ سے سینیٹر منتخب ہوئیں۔عالمی ادارہ ء صحت کی شریک چئیر بھی رہ چکی ہیں اور اقتصادی گلوبل فورم کی رکن بھی ہیں۔

فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک فافن بہت عرصے سے سینیٹ میں خواتین کی کارکردگی کا جائزہ لیتا رہا ہے۔ اس کی رپورٹوں کے مطابق خواتین سینیٹرز مردوں کے مقابلے میں زیادہ فعال اور سرگرم رہی ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق سینیٹ کے 95ویں سیشن میں 2013-2014 کے مالیاتی سال کی وفاقی بجٹ ڈیبیٹ میں نو خواتین سینیٹرز نے حصہ لیا۔ان خواتین کا تعلق اے این پی، پی ایم ایل نواز، پی پی پی پی اور دیگر دو جماعتوں سے تھا۔ سینیٹ کے100ویں اجلاس میں عورتوں کے حق میں دو پرائیویٹ ممبرز بل بھی پیش کئے گئے:اینٹی ریپ لاز بل 2013 میں ایک ترمیم پیش کی گئی جس کا مقصد ریپ کا شکارہونے والی خاتون کی میڈیا میں شناخت کو خفیہ رکھنا تھا۔اور پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف ویمن ایٹ ورک پلیس ترمیمی بل 2014 جو پاکستانی عورتوں کے لئے خوش آئند تھے۔

2017-2018میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی کارکردگی جائزہ سے پتا چلتا ہےکہ اس عرصے میں مرد ارکان کے ساتھ خواتین ارکان نے 39فیصد پارلیمانی کارروائیوں میں حصہ لیا، ان کی حاضری کاتناسب مردوں سے بہتر رہا۔ اس وقت سینیٹ کی 19اور قومی اسمبلی کی70نشستوں کے ساتھ عورتیں پارلیمنٹ کا بیس فی صد حصہ ہیں۔ان خواتین نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں36فی صد کارروائیوں میں قائدانہ کردار ادا کیا۔

اس کے علاوہ مرد رفقا کے تین فی صد اضافی ایجنڈا میں بھی ان کی حمایت کی۔اس عرصے میں پارلیمینٹری آرڈر آف دی ڈے میں 5654ایجنڈا آئٹمزتھے۔قومی اسمبلی میں پارلیمانی بزنس میں عورتوں کا فی صد حصہ مردوں کے برابر یعنی انچاس فی صد تھا جب کہ سینیٹ میں عورتوں نے پندرہ فی صد پارلیمانی بزنس کو انفرادی اور تین فی صد کو مشترکہ طور پر اسپانسرکیا۔

گلشن سعیدپی ایم ایل ۔Qکی سرگرم کارکن اور سوشل ایکٹوسٹ ہیں۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 1985میں کیا۔ وہ 2003-2013 تک سینیٹر رہیں۔انہیں امیر ترین سینیٹر خاتون مانا جاتا ہے۔ ان کے اثاثوں میں تیرہ کلو سونے کے زیورات اور کروڑوں کی جائیداد شامل ہے۔

سینیٹر رازینہ عالم خان 2004 میں تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کمیٹی کی چیئر پرسن رہیں ۔2015 میں وہ نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈیولپمنٹ کی چیئر پرسن بنیں۔

سینیٹرڈاکٹر نگہت آغا بھی 2004 میں تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کمیٹی کی رکن رہیں۔ 2005میں انہیں سماجی بہبود اور اسپیشل ایجو کیشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا چئیر پرسن چنا گیا۔ ان کا نام سینیٹر تنویر خالد نے پیش کیا تھا اور سینٹر عابدہ سیف نے اس کی تائید کی تھی۔

سینیٹر طاہرہ لطیف 2008-2009 ویمن ڈیولپمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی چئیر پرسن رہیں۔

سینیٹر تنویر خالد کا تعلق پی ایم ایل کیو سے تھا۔ وہ 2005میں کیبنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی چئیر پرسن رہیں۔ انہوں نے سول سوسائٹی کے ساتھ بھی عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لئے کام کیا۔

سینیٹر یاسمین شاہ نے 2015میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اس سے پہلے وہ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل میں تھیں۔ وہ 2002-2008 میں بھی سینیٹ کی رکن رہیں۔2002میں وہ پی ایم ایل کیو کی رکن تھیں۔2021میں ان کی شخصیت اس وقت متنازع ٹہری جب ان کی بی اے کی ڈگری جعلی قرار پائی اور انہیں سزا سنائی گئی۔

سینیٹر ممتاز بی بی اگست 2004میں اس وقت میڈیا کی توجہ کا مرکز بنیں جب حزب اختلاف کی رکن کی حیثیت سے انہوں نے غربت اور مہنگائی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ خودکشی، منشیات، چوری اور قتل جیسی سماجی برائیوں کی جڑ غربت اور مہنگائی ہے۔ انہوں نے غریبوں کے لئے مفت تعلیم اور عوام دوست اقتصادی پالیسیوں کا بھی مطالبہ کیا۔

خیبر پختونخواہ کی انیسہ زیب کا تعلق قومی وطن پارٹی سے ہے اور وہ پارٹی کی مرکزی جنرل سیکریٹری ہیں۔ وہ پہلے سینیٹر اور پھر قومی اسمبلی کی رکن رہی ہیں۔

2003کے سینیٹ کے الیکشن کی امیدواروں میں خیبر پختونخواہ سیڈاکٹر کوثر فردوس، ممتاز بی بی، فوزیہ فخرالزماں، انیسہ زیب طاہر خیلی،نرگس منظور، شاہین سردار علی، عائشہ ممتاز ملک، اور مسرت مشتاق کاکا خیل شامل تھیں۔

بلوچستان سے آغا پری گل، روشن خورشید بھروچہ، کلثوم پروین، شیریں نور،ثمینہ رازق امیدوار تھیں۔

سندھ سے بی بی یاسمین شاہ، سیدہ زاہدہ زیدی، سیما زریں، رخسانہ زبیری، شیریں فاروقی، عابدہ سیف، ملیحہ ملک، نائلہ لطیف، ڈاکٹر نگہت شاہ،اور نیلوفر سید امیدوار تھیں۔

خواتین لیجسلیٹرز نے قومی اسمبلی کے 67فی صد اور سینیٹ کے 64فی صد اجلاس میں شرکت کی

سینیٹ میں پیش کئے جانے والے 145بلز میں سے 13بلز عورتوں نے ذاتی طور پر اور پانچ بل مرد لا میکرز کے ساتھ مل کے پیش کئے۔ خواتین پارلیمینٹرینز نے سوالات پوچھ کر اور کالنگ اٹینشن نوٹسز کے ذریعے حکومت پر کڑی نظر رکھی۔

انہوں نے 1595(50%) سوالات پوچھے اورقومی اسمبلی میں 64(86%) کالنگ اٹین شنزنوٹسز پیش کئے۔جب کہ سینیٹ میں خواتین نے 241(16%) سوالات اور 26(25%)کال اٹینشن نوٹسز پیش کئے۔ اس کے علاوہ سینیٹ میں رول نمبر 218کے تحت خواتین نے48(42%) موشنز پیش کیں۔