میری آنکھوں نےآنسو گیس کی دھند میں رقص کرتے ہوئے نوجوانوں کو دیکھا۔ میں نے رائفلوں کو دیکھ کر سینے کے بٹن کھولتے ہوئے سرفروشوں کو دیکھا۔ میں نے واٹر کینن کی زہریلی بوچھاڑوں سےچھاتی تان کر مقابلہ کرنے والوں کو دیکھا۔ زندہ دلان ِ لاہور کو روح کی گہرائیوں سے سلام۔ کل تک میرا خیال تھا کہ یہاں وقت پتھرا چکا ہے۔ زمین و آسماں کی گردش رک گئی ہے۔ موسموں کے دریا جم گئے ہیں۔ کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ بصارتوں میں کسی نے سلائیاں پھیر دی ہیں۔ سماعتوں میں کسی نے سیسہ بھردیا ہے۔ آوازوں میں سناٹے گونج رہے ہیں۔ آنکھوں سےچپکے ہوئے خواب تعبیروں سے محروم ہو چکےہیں۔ ہمارے چاروں طرف مردہ منظروں کی ایک فلم چل رہی ہے۔ فضائوں میں اڑتی ہوئی راکھ کے بگولے در آئے ہیں۔ اپنے اندر دور تک پھیلی ہوئی قبریں دکھائی دے رہی ہیں مہنگائی وہاں تک پہنچ گئی ہے جہاں کھانے کی ٹیبل پر پڑی ہوئی طشتری میں انسانی گوشت سجا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ہم اپنے ملک کو ایک ایسی سنگلاخ وادی میں لے آئے ہیں جہاںصرف چٹانوں پر کھدے ہوئے موت کے نقشِ پا ہیں۔ لوگوں کے چہروں کو دیکھ کر لگتاہے کہ خوفزدہ کتبے پڑھ رہے ہیں۔ ہر طرف بے یقینی کےپنجروں میں پھڑکتے ہوئے پرندوں کی کرلاہٹیں ہیں۔ باطن میں مسلسل بارشیں مگر باہر تپتی ہوئی ریت۔ آسمان کے آنسو بھی کہیں گم ہو گئے ہیں۔ جمہوریت کے ایوانوں میں ہوتے ہوئے پتلی تماشا کی تاریں نکل آئی ہیں۔ گڑیوں کے لباس چیتھڑوں میں بدل چکے ہیں۔ میرے پاس مایوس موسموں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مگر ہائے پچھلے دو دن، دو تاریخ ساز دن، دو قدم قدم یادگار دن، وہ دو دن جس میں ہر نوجوان ایک کوہ ِ گراں تھا۔ ان دو دنوں میں ایسا کچھ ہوا کہ آنکھوں میں امیدوں کے چراغ جل اٹھے۔ دلِ ناکردہ کار کے ولولے جا گ پڑے۔
باغبانوں نے اس ٹہنی کو نہیں کاٹنے دیا جس پر پھول کھلنے والے ہیں۔ بہار کو لوٹنے کی گھاتیں ناکام بنا دی گئیں۔ گلابوں کی سفید کلیوں پر لہو کی بوندیں نہیں ٹپکنے دیں۔ وہ جہاں خوشی کا گیت شروع ہونے والا ہے وہاں نوحہ غم کی مجلسیں برپا کرنے کی خواہشیں دلوں میں رہ گئیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے پھر کوئی سانحہِ ماڈل ٹائون نہیں ہو سکا۔ وہ لوگ جو ملک میں صرف آنسوئوں کی جھیلیں چاہتے ہیں مگر وہ صرف آنسو گیس کی جھیلیں بنا سکے۔ وہ جو چولہوں سے آہوں کے اٹھتے ہوئے دھویں دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ جنہیں بین کرنے کی صدائوں کی تمنا تھی۔ وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ مایوس ہوئے۔ اب ہمیں یہ کہہ کر روشنی چھوڑ نہیں جائے گی کہ تم اپنےچراغوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔
میں ان فقیروں کی تلاش میں ہوں، جو بادشاہِ وقت کو کاغذ کے پرزے پر لکھ کر بھیج دیا کرتے تھے کہ کیا تم چاہتے ہو ہم دلی کا تخت کسی اور کے حوالے کر دیں۔ تخت دلی کا ہو یا اسلام آباد کا۔ چیف جسٹس چاہے امام ابو یوسف ہوں یا کوئی اور۔ سچائی کی عالم گیر جنگ تاریخ کے ایوانوں میں کبھی نہیں رکی۔ تلواریں بجتی رہی ہیں۔ ڈھالیں ٹوٹتی رہی ہیں۔ نیزوں کی انیوں پر سر بلند ہوتے رہے ہیں... فقیری اور بادشاہی میں بھی تو ایک باریک سا پیازی پردہ ہوتا ہے۔ مجھے ایک فقیر یاد آ رہا ہے جسے بادشاہ بنا دیا گیا تھا۔ پرانے زمانے کی بات ہے ایک بادشاہ مر گیا رواج کے مطابق صبح سب سے پہلے شہر میں داخل ہونے والے شخص کو بادشاہ بنا دیا گیا۔ وہ اتفاق سے فقیر تھا فقیر نے تخت نشیں ہوتے ہی حلوہ پکانے کا حکم جاری کر دیا۔ فقیروں کی دعوتیں ہونے لگیں۔ رفتہ رفتہ کاروبارِ مملکت میں فقیر کی عدم دلچسپی کی وجہ سے حالات ابتر ہوتے گئے۔ خبر آئی کہ ہمسایہ ملک کی فوجیں حملہ آور ہونے والی ہیں۔ بادشاہ نے کہا حلوہ پکائو۔ پھر بتایا گیا کہ فوجیں قریب آ چکی ہیں بادشاہ نے کہا حلوہ پکاتے رہو۔ اطلاع دی گئی کہ فوجوں نے شہر پناہ کا محاصرہ کر لیا ہے۔ بادشاہ نے کہا اور زیادہ حلوہ پکائو۔ پھر بتایا کہ فوجیں شہر میں داخل ہونے والی ہیں۔ بادشاہ نے وہی پرانا کمبل اٹھایا اپنے فقیری کے دنوں والے کپڑے پہنے کاسہ ہاتھ میں لیا اور کسی اور شہر کے سفر پر روانہ ہو گیا۔آپ سوچتے ہوں گے کہ یہ واقعہ میں نے کیوں سنایا ہے۔ دراصل بے مفہوم کہانیوں کا بھی ایک مفہوم ہوا کرتا ہے۔ جیسے ہمارے گھر میں ایک ’’کانی چارپائی‘‘ ہوتی تھی۔ اس کا ایک پایہ بٹھانے کی کوشش کرتے تھے تو دوسرا خراب ہو جاتا تھا دوسرا بٹھاتے تھے تو تیسرا کونا خراب ہو جاتا تھا۔ تیسرے کو ٹھیک کیا جاتا تھا تو چوتھا خراب ہو جاتا تھا۔ میرے بابا نے اس کا نام پاکستان رکھا ہوا تھا۔ اس چھوٹی سی کہانی کی معنویت کھل گئی ہو گی آپ پر۔
پاکستانی قوم جاگ اٹھی ہے۔ صورتحال زیادہ خراب نہیں رہ سکتی۔ بائیس کروڑ لوگوں پر آنسو گیس کے شیل کون برسا سکتا ہے؟ واٹر کینن کتنے پاکستانیوں کو پیچھے ہٹا سکتی ہے؟ مجھے یقین ہے کہ بہت جلد وہ با اختیار لوگ جن کے دلوں میں اس ملک کا درد ہے، عدلیہ میں بیٹھے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں۔ وہ قومی تناظر میں معاملات دیکھتے ہوئے امن و امان کے ساتھ انتخابات کرائیں گے۔ قوم کو حقیقی آزادی کا تحفہ دیں گے۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ میرے خیال میں نون لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان قومی اسمبلی کے انتخابات پر گفت و شنید شروع ہونی چاہئے۔
میں ابھی تھوڑی دیر پہلے سہیل وڑائچ کا ایک انٹرویو سن رہا تھا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہیں کیونکہ نہ تو ان سے کوئی بیانیہ بن رہا ہے نہ ہی ان کے پاس کوئی روڈ میپ ہے اور نہ لوگوں کو دکھانے کے لئے کوئی خواب باقی رہے ہیں۔ یہ پارٹیاں اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہیں۔ پاکستان کے سیاسی مستقبل کی اس سے زیادہ شاندار پیشن گوئی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ان دونوں پارٹیوں کو سوچنا چاہئے کہ سہیل وڑائچ جیسی شخصیت ایسے تجزیے پر کیوں پہنچی۔ صرف اس لئے کہ اس نے اپنے کان اورآنکھیں کھلی رکھی ہوئی ہیں۔