رمضان المبارک کی آمد آمد ہے،کراچی میں بھی استقبال رمضان کی تیاریاں اپنے عروج پہ ہیں،تمام بجلی کے کھمبے خیراتی اداروں کے اشتہارات سے مزین ہونا شروع ہوچکے ہیں،کہیں بھوکوں کے کھانا کھلانے کے لئے امداد طلب کی جارہی ہے، کہیں علاج کے اخراجات اٹھانے کے لئے، تو کہیں روزے داروں کے لئے سحر و افطار کا بندوبست کرنے کے لئے،دوسری طرف استقبال رمضان کے لئے پاکستان کے کونے کونے سے غریبوں عرف گداگروں کے قافلے کراچی پہنچنا شروع ہوچکے ہیں ،اور شہر کی اہم شاہراہوں پہ قابض ہوچکے ہیں تاکہ سحر و افطار سے بروقت مستفید ہوسکیں،دسترخوان اہم شاہراہوں پہ ہی بچھائے جاتے ہیں تاکہ ان کی دسترس میں رہیں،پھر رمضان المبارک کے آغازکے ساتھ لوگ دل جمعی سے خیرات جمع کرنے کے لئے ہر وقت مصروف عمل رہتے ہیں، کوئی نت نئے پینافلیکس کی چھپائی،تو کوئی فٹ پاتی کھانےکا مینو سیٹ کرنے لگ جائیں گے یہ جانچے بغیر کہ دسترخوان پر بیٹھے کتنے افراد عادی نشئی، کتنے بغیر روزہ کے ہیں، ایسے میں کیا سحر و افطار کا دسترخوان کسی اور کی زکوۃ و صدقات کے پیسوں سے سجنا کتنا قابل قبول ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب صرف قبول کرنے والا ہی جانتا ہے کوئی اور نہیں، فلاحی کاموں کی تشہیر کرکے دوسروں کی زکوۃ پہ ثواب کمانا،گداگروں کی حوصلہ افزائی کرنا، فقیروں کی رہنمائی کرناکیا پرہیز گاروں کی یہی پہچان ہے؟سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی فلاحی تنظیموں، این جی اوز کی موجودگی میں غربت میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے،شہر میں اتنے ادارے کھانا کھلا رہے ہیں لیکن بھوکوں کی فریاد ہے کہ کم ہی نہیں ہورہی،آخر کیا وجہ ہے ؟ کہیں یہ غربت، بھوک ان فلاحی اداروں کے ایندھن تو نہیں؟ جن کی موجودگی ہی اب اداروں اور ان اداروں کو چلانے والوں کی بقا کے لئے ضروری ہے۔
minhajur.rab@janggroup.com.pk