• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکتوبر میں انتخابات خطرے میں نظر آرہے ہیں، صدر مملکت

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو اکتوبر 2023ء میں بھی انتخابات خطرے میں نظر آنے لگے۔

جیونیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں گفتگو کے دوران صدر مملکت نے کہا کہ آئین خطرے میں ہے اور انہیں اکتوبر 2023ء میں بھی انتخابات خطرے میں نظر آرہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل کی ٹائمنگ بہتر ہوسکتی تھی ،ترقی یافتہ جمہوریتوں میں اتفاق رائے تلاش کیا جاتا ہے ۔

صدر مملکت نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی میں چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات محدود کرنے کے بل کی ٹائمنگ ایک سوالیہ نشان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اللّٰہ رحم کرے وہ دعا کرتے ہیں کہ ججز آپس میں اشتراک پیدا کریں، جب ان کے فیصلوں میں اتفاق نہ نظر آئے تو عوام آپس میں لڑتے ہیں۔

ڈاکٹر عارف علوی نے یہ بھی کہا کہ عدالتی اصلاحات بل ابھی دیکھا نہیں کہنا قبل از وقت ہے کہ کیا فیصلہ کروں گا، اس وقت بحران کا سامنا ہے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں کوئی رائے دوں بھی تو کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کی رائے ہے، غصے اور دباؤ میں بعض اوقات لوگ وہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جو نہیں کرنے چاہیے۔

صدر مملکت نے کہا کہ اداروں پر بھی جب دباؤ پڑتا ہے تو کریکس نظر آنے لگتے ہیں، تمام اداروں میں آج کل پریشانی کے یہ کریکس نظر آرہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے لیے کسی نے کہا سیکیورٹی نہیں دے سکتے کسی نے کہا فنڈز اور کسی نے کہا آر او نہیں دے سکتے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ہر جگہ یہ طریقہ ہوتا ہے کہ بیٹھ کر بات کرلو کچھ لے دے کر سمجھوتہ کرلو۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے جو وعدے کیے گئے ضروری ہے کہ قوم کو ساتھ لے کر چلا جائے، جمہوری طاقتیں آپس میں لڑیں تو خطرہ رہتا ہے، آئین کو مسخ نہ کیا جائے۔

صدر مملکت نے کہا کہ ہم دہشت گرد کی تعریف پر بھی کنفیوژڈ ہیں اس لیے شاید دہشت گردوں کو پکڑ نہیں پارہے، میں نے کہا کہ اگر کسی کی آڈیو ریکارڈ کرنی بھی ہے تو مجسٹریٹ سے اجازت لی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ دو سال سے کہہ رہا ہوں کہ نجی گفتگو سننے کا کسی کو حق نہیں، کسی کی آڈیو ویڈیو لیک کرنا غیرقانونی اور غیراخلاقی حرکت ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اب تو آڈیو لیکس پر تحقیقات بالکل بے کار لگتی ہیں، سیاست میں پولرائزیشن خطرناک ہے، میری نیت پولرائزیشن کم کرنے کی تھی ہوئی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سے کبھی درخواست نہیں کی کہ عمران خان سے ملاقات کریں، پی ٹی آئی چیئرمین اور عوام سے بھی کہا کہ آئین خطرے میں ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ عمران خان سے بھی کہا کہ مجھے اکتوبر کے الیکشن پر بھی خدشہ ہے، موجودہ حکومت محسوس کرتی ہے کہ ہم نے قربانی دی ملک کو سنبھالا، عوامی رائے مختلف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کو پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے کا کریڈٹ دیتا ہوں، بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ میں حالات خراب تھے، کوئی دوسرا نعرہ ملک توڑ سکتا تھا۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ تعجب ہوگا کہ اگر کوئی کہے کہ کچھ عرصے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں بڑھی، خط میں لکھا کہ 2021ء میں انسانی حقوق کی صورتحال خراب تھی 2022ء میں مزید خراب ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے تو صحیح بات کی کہ انسانی حقوق سے متعلق احتیاط کی جائے، یہ نہیں ہوسکتا کہ باہر میں ظلم کروں اور گھر میں امن رہے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ عمران خان کے دور میں جب ایسی بات ہوتی تھی انسانی حقوق کے وزیر سے بات کرتا تھا، پی ٹی آئی دور میں بھی معاملات پر توجہ دلائی تھی۔

انہوں نے کہا کہ میں بار بار اس وقت وزیراعظم کو یاد دلاتا رہا کہ ایوارڈ صدر کا اختیار ہے، عمران خان کے دور میں بھی کچھ ایوارڈز پر مجھے بھی تعجب ہوا۔

صدر مملکت نے کہا کہ عدلیہ میں تقسیم پہلے بھی تھی جسٹس صفدر شاہ کو پیدل پاک افغان سرحد پار کرنا پڑی، جسٹس سعید الزمان صدیقی کا میں ڈاکٹر تھا وہ میرے والد کے دوست تھے۔

قومی خبریں سے مزید