• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
دنیا دلچسپ صورتحال دیکھ رہی ہے وہ ممالک جو اپنے وجود کو نظریاتی بنیاد مانتے ہیں یعنی اسرائیل اور پاکستان دونوں ہی اس وقت ملتے جلتے آئینی بحران سے دوچار ہیں۔ دونوں میں ادارے طاقت ور ترین بننے کے خواہاں ہیں] دونوںجگہوں کی جمہوریت پر سوالات اٹھ رہے ہیں، دونوں ممالک میں لوگ اپنے طریقے اور بیانیے پر سڑکوں پر ہیں] بیانیے متضاد ہیں لیکن فرق اتنا ہے کہ پاکستان کی معیشت بہت تباہ حال ہے جب کہ اسرائیل کی معیشت کو دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کہا جاتا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ اسرائیل کی آبادی صرف 93لاکھ ہے جب کہ پاکستان کی آبادی 24کروڑ ہے، دونوں ممالک دنیا میں آبادی کی شرح میں سب سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھنے والے ملک ہیں، دونوں خود کو اپنے اپنے مذہب کا قلعہ تصور کرتے ہیں، ایک یہودیت کا اور دوسرا اسلام کا، ایک امریکہ کی پشت پناہی سے علاقے کا چوہدری ہے، دوسرا ٹائیگر بننے کا شوق رکھتا ہے، اسرائیل کے مخلوط حکومت کے وزیراعظم نتن یاہو نے گزشتہ ہفتے متنازع قسم کی عدالتی اصلاحات کا اعلان کیا جس کا بنیادی مقصدوزیراعظم کو کسی قسم کی قانونی خلاف ورزیوں سے عدالتی اور قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے، نتن یاہو پر مالی کرپشن کے الزامات عائد ہیں، حزب اختلاف کا خیال ہے کہ وہ کسی قسم کی قانونی پکڑ سےبالاترہونا چاہتا ہے،اسرائیل میں اس وقت بڑے پیمانے پر مظاہرین میں اعتدال پسندسیکولرقوتیں، یونیورسٹیوں کے طلبہ، ٹریڈ یونینز شامل ہیں بلکہ وہاں کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین جو کہ ان مظاہروں سے خود کو باہر رکھے ہوئے تھی اب وہ بھی ان مظاہروں میں شامل ہو چکی ہے لیکن ان میں سب سے زیادہ موثر مظاہروں میں اترنے والے وہ ریزرو فوجی ہیں جو اسرائیل کی ملٹری قوت میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں، یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک طرح کا پورا اسرائیل ہی فوج ہے کیونکہ وہاں تمام شہریوں کولازمی فوجی تربیت سے گزرنا پڑتا ہے اور انہیں کسی بھی ہنگامی صورتحال کیلئے تیار رہنے کے احکامات موجود ہیں اور جس طریقے سے برطانیہ میں شہریوں کو کورٹ سروس کے لئےبلایا جاتاہے اور رضا کارانہ طور پر شہری کراؤن کورٹ کے مقدموں میں عدالت کے ساتھ شریک ممبرہوتے ہیں، اسی طرح اسرائیل میں شہریوں کو فوجی آپریشنز میں شرکت کے لئے بلایا جاتاہے۔ حالیہ جوڈیشل اصلاحاتی بل نے جس کے تحت وزیراعظم کے مالیاتی سکینڈلزکے ساتھ ان تمام جارحیت کے احکامات کو بھی تحفظ مل جائےگا جو وہ اپنے اردگردکے ممالک میں کرتا ہے یوں تواسرائیل کوپہلے سے ہر طرح کی جارحیت کے لئے مادرپدر آزادتحفظ حاصل ہے۔ اسرائیلی حکومتی اقدامات کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے لے کر اسرائیل کی اپنی عدالتوں میں کسی قسم کی روک تھام یا رکاوٹ نہیں ہے لیکن اب وہ تمام احکامات وزیراعظم بلاشرکت غیرے اپنے ہاتھ میں لیناچاہتا ہے، اب عوامی ردعمل دیکھتے ہوئے اور ملک میں تقسیم دیکھتے ہوئے نتن یاہو نے ان اصلاحات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اسرائیلی عوام اس بات پر راضی نہیں ہیں، نتن یاہو اپنی قوم کو حضرت سلیمانؑ کی فہم و فراست اور صبرکی مثالیں دے کر مظاہرین کوانتہا پسندقراردے رہا ہے جب کہ وہاں سب سے اہم نکتہ جس پرمظاہرین کو ڈر ہے کہ اگر پارلیمنٹ کا دوبارہ اجلاس ہواتوججوں کی تقرری کا اختیار9 رکنی کمیٹی سے لیکر پارلیمنٹ میں چلا جائے گا جب کہ پاکستان میں اس کا الٹ ہے یہاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے یہ اختیارلے کرپارلیمنٹ کو دینے کی بات ہو رہی ہے کیونکہ ہمارے ہاں عدلیہ کے پاس یہ اختیار ہونے کے سبب اس بات کا خطرہ موجودہے کہ اقربا پروری عام ہونے کے سبب چند ہی برسوں میں تمام ججز چند خاندانوں کے نمائندے بن کے رہ جائیں گے، کیونکہ میرٹ کی بجائے اپنے عزیز و اقارب کی تقرریاں ہمارے ہاں کی عام پریکٹس ہے، خیر اسرائیل میں جوہو رہا ہے اس سے عوام تقسیم ہیں جس کامطلب ہے فوج تقسیم ہے، اسرائیل میں آرتھوڈوکس یعنی انتہا پسند کٹر یہودیوں کیلئےخصوصی مراعات کی ہمیشہ مخالفت کی ہے، نتن یاہو بھی اسی آرتھوڈوکس مکتبہ فکرکانمائندہ ہے، عدالتوں نے خصوصی طورپر ان آرتھوڈوکس کے لئے ملٹری سروس سے استثناکی مخالفت کی ہے کیونکہ یہ آرتھوڈوکس فلسطین پر جارحیت اور مغربی کناروں پر نئی بستیاں آباد کرنے کے پُرزورحمایتی ہیں اور اسرائیل کی توسیع پسندی کے پیچھے انہی کا نظریہ کارفرماہے، اس لئے یہ آرتھوڈوکس عدالتوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، ابھی امریکی صدرجوبائیڈن نے حالات کوبھانپتےہوئے اصلاحات کو واپس لینے کا دباؤ ڈالا ہے، تاہم امریکہ چاہتا ہے کہ نتن یاہو سے مڈل ایسٹ اورفلسطین کے ایشو پر فیصلہ کن کام لیا جائے اور اس مسئلے کو ایک دفعہ بھرپور فوجیت سے حل کر دیا جائے، لگتا ہے کہ اسرائیل اس عوام کے اندر جارحیت کے خلاف سوچ کے آگے بے بس ہوتاہوا نظرآرہا ہے۔
یورپ سے سے مزید