• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماحولیاتی تبدیلی اور ہر لمحہ بڑھتی آبادی کی ضروریات کو طویل عرصہ تک پورا کرنے کے لیے دنیا میں ’پائیدار ترقی‘ اور ’پائیدار صارفیت‘ کو فروغ دیا جارہا ہے۔ تعمیرات کا شعبہ، کاربن اخراج کے حوالے سے ماحولیاتی تبدیلی کو بڑھاوا دینے کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے، اس لیے تعمیرات کے شعبہ میں پائیدار طور طریقے اپنانے پر زور دیا جارہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ، سائنسی کہانیوں میں اب ایسے فصیل بند شہروں کو مستقبل کی آبادیاں دکھایا جا رہا ہے جو ماحول، توانائی، خوراک اور پانی سمیت تمام ضروریات زندگی کے معاملے میں خودکفیل ہیں۔ ’آرکولوجی‘ نامی یہ تصور سب سے پہلے ماہر تعمیرات پاولو سولیری نے 1969ء میں پیش کیا تھا اور یہ تصور پیش کرنے کے ایک سال بعد اس تصور کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے امریکا میں ایک تجرباتی قصبے پر کام کا آغاز کیا۔

اس تصور سے ہی مستقبل کے شہروں پر مبنی سائنسی کہانیاں بنیں جہاں رہائشیوں کو کام سمیت کسی بھی چیز کے لیے عمارت نما شہر سے باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ایسی کہانیوں پر بنی ہالی ووڈ فلمیں ’ڈریڈ‘ اور ’اسکائی اسکریپر‘ اس کی مثالیں ہیں۔ ان سائنسی کہانیوں سے متاثر ہو کر چند حقیقی شہر بھی بن سکتے ہیں۔

سعودی عرب میں مجوزہ اسمارٹ سٹی ایک منصوبہ ہے، جس کے تحت ایک 200 میٹر چوڑا، 500 میٹر اونچا اور 170 کلومیٹر بڑا شہر بسایا جائے گا جس میں 90 لاکھ لوگ بس سکیں گے۔ یہ شہر شمسی اور ہوا کی توانائی استعمال کرے گا تاہم یہ خوراک کے معاملے میں خود کفیل نہیں ہو گا۔

آرکولوجی تصور جیسی چند عمارات پہلے ہی سے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر قطب جنوبی میں تحقیقی مراکز کافی حد تک خود کفیل ہوتے ہیں جس کی وجہ ان کا ایک دور دراز علاقے میں موجود ہونا ہے۔ مکمرڈو اسٹیشن میں تقریباً تین ہزار محققین اور عملے کے اراکین رہائش پذیر ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس اسٹیشن کو ہر سال خوراک اور ایندھن کی ضرروت ہوتی ہے۔ لیکن کیا ہم آرکولوجی یعنی عمارت نما شہر بنا سکتے ہیں؟ ایسی کسی بھی عمارت کی بنیاد بہت بڑی ہونی چاہیے کہ وہ اس کے وزن کو سہارا دے سکے۔

مونیکا اینزپرجر بی ایس پی کنسلٹنگ کی اسٹرکچرل انجینئر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’آپ کچھ بھی بنا سکتے ہیں۔ مگر ایسی عمارت کی بنیاد پر بہت خرچہ ہو گا۔ ‘ ایسی کسی عمارت کی تعمیر میں ایک بڑا چیلنج اس کی اونچائی کی وجہ سے ہوا کا اثر ہو گا۔ ایک عام گھر پر اس کا اتنا اثر نہیں ہوتا لیکن دبئی کے برج الخلیفہ جیسی اونچی عمارت کو بناتے ہوئے ہوا کے دباؤ یعنی ورٹیکس کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جب ہوا کسی ایسی عمارت کی سطح سے ٹکراتی ہے تو دوسری جانب ایک کم دباؤ کا خلا پیدا ہو جاتا ہے جسے پر کرنے کے لیے ہوا تیزی سے اس طرف کا رخ کرتی ہے۔ تیز ہوا کی اسی حرکت سے اونچی عمارات ہلتی ہیں۔ اس کی وجہ سے عمارت گر بھی سکتی ہے۔

امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں 1940ء میں ٹاکوما نیرو برج گر گیا تھا جب تیز ہوا سے ہلتے ہوئے زیادہ فریکوئنسی کی وجہ سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔ اس اثر کو کم کرنے کے لیے ایک آلہ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ عمارت کا ڈیزائن بناتے ہوئے بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ ہوا کے گزر میں کس طرح خلل پیدا کیا جائے اور اس کے دباؤ کو کم کیا جائے۔ 

برج الخلیفہ سمیت کئی ایسی اونچی عمارات کے آرکیٹیکٹ ایڈریئن اسمتھ کا کہنا ہے کہ ورٹیکس کے اثر کو کم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اونچائی پر عمارت کی شکل بدل دی جائے۔ ’اگر آپ عمارت کی شکل میں اونچائی کے ساتھ تبدیلی نہیں کریں گے تو ورٹیکس حرکت کی لہریں پیدا کرے گا اور وہ عمارت کے اسٹرکچر سے مل کر بتدریج تباہی مچا دے گا۔ اسی لیے ایک دیوار جیسی عمارت کی بجائے، جیسی فلم ڈریڈ میں دکھائی گئی، آرکولوجی کے تصور کے تحت ایک مختلف قسم کی عمارت بنائی جا سکتی ہے جس کی مثالیں چند قدیم تہذیوں میں موجود ہیں۔

توانائی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ شمسی پینل یا ہوا کی ٹربائن آرکولوجی کی بیرونی سطح پر بآسانی نصب کی جاسکتی ہیں لیکن یہ توانائی کا مکمل حل نہیں کیوںکہ یہ صرف مخصوص اوقات میں ہی موثر ہوں گی۔ اس لیے ایسی کسی بھی عمارت میں بجلی کا متبادل نظام ہونا ضروری ہو گا۔ ایسے میں جوہری ری ایکٹر ایک حل ہو سکتے ہیں۔ 

جدید جوہری ری ایکٹر حجم میں چھوٹے اور بجلی کی پیداوار کے لیے بہتر ثابت ہوئے ہیں جن کو ایس ایم آر کہا جاتا ہے۔ بڑے ری ایکٹر کے مقابلے میں یہ زیادہ محفوظ ہوتے ہیں اور جوہری مواد کی چوری روکنا بھی آسان ہوتا ہے۔ تاہم جوہری فضلے کی اسٹوریج ایک چیلنج ہوگا۔

خوراک کی پیداوار بھی اہم ہے۔ کاشتکاری کے روایتی طریقے ایسی کسی بھی عمارت میں ناممکن ہوں گے تاہم ایسے طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں جن کو ورٹیکل ہائیڈروپونک فارمنگ کہا جاتا ہے۔ ان کی مدد سے ہوا بھی ترو تازہ رہ سکتی ہے۔ تاہم ان کو روشنی کی ضرورت ہو گی جس سے توانائی کی طلب بڑھے گی اور جگہ کی کمی درکار خوراک کی پیداوار مشکل بنا سکتی ہے۔

بلند و بالا عمارات کا مستقبل سب کے لیے ایک جیسا نہیں ہے۔ 2021ء میں چین نے 500 میٹر سے اونچی عمارات پر پابندی عائد کر دی تھی جبکہ 250 میٹر سے اونچی عمارات پر بھی کافی پابندیاں عائد ہیں۔ تاہم زمین پر ہر لمحہ بڑھتی آبادی نے کہیں تو بسنا ہے۔ نئی زمین پر شہروں کو وسعت دینا کب تک ممکن ہو گا؟ یہی سوال ہے جو اونچائی کی جانب شہروں کو وسعت دینے کے تصور کو مضبوط کرتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کے واضح ہوتے اثرات کی وجہ سے اس مواد میں بھی تبدیلی ہو سکتی ہے، جس سے شہر بنتے ہیں۔ سیمنٹ کی صنعت سے خارج ہونے والا کاربن ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک متبادل ماس ٹمبر ہو سکتا ہے جو لکڑی کے پلوں سے تیار کردہ ایک مواد ہے۔ اس کی تیاری میں سیمنٹ یا کنکریٹ سے بہت ہی کم توانائی درکار ہوتی ہے۔ اور یہ کاربن کو فضا سے کم کرتی ہے۔ کہنے کو تو آرکولوجی ممکن ہے تاہم اس کیلئے انجینئرنگ کی دنیا میں تخیلاتی قوت درکار ہو گی تاکہ توانائی، خوراک اور دیگر وسائل کی ضروریات کا احاطہ کیا جا سکے۔