• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعر: ڈاکٹر شمیم آزر

صفحات: 200، قیمت: درج نہیں

شاعری پر لکھنے کے لیے شاعر کا تعارف ضروری نہیں کہ شاعر کا تعارف اُس کی شاعری ہی ہوا کرتی ہے۔ اگر تعلقات کی بنیاد پر لکھا جائے، تو کچھ رعایتی نمبر بھی دینے پڑتے ہیں۔ مَیں نے ڈاکٹر شمیم آزر کو اُن کے زیرِ نظر مجموعۂ کلام ہی کی وساطت سے جانا ہے۔ جب کتاب پڑھی، تو اُن کی شاعری کے ساتھ وہ بھی کُھلتے چلے گئے۔عرصۂ دراز سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی ہیں، اِس حوالے سے یقیناً اُن کی مصروفیات ہوں گی، لیکن اُن کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ’’ کُل وقتی‘‘ شاعر ہیں۔ اُن کی عُمر اُن کی تصویر سے عیاں ہے، لیکن اپنے اسلوب میں تازہ تر دِکھائی دیتے ہیں۔ روایت سے اُن کا گہرا تعلق ہے، لیکن اُن کی پوری شاعری جدید طرزِ احساس سے عبارت ہے۔ 

شمیم آزر نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور اپنے شب و روز سے محبّت کشید کی ہے۔اُنھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں، لیکن اُن کا اصل میدان نظم نگاری ہے۔ اُن کی زیادہ تر نظمیں موضوعاتی ہیں، جن میں زندگی رواں دواں دِکھائی دیتی ہے۔ اُن کی نظموں میں زندگی کے تجربات بھی ہیں اور ذاتی مشاہدات بھی۔ شعبۂ حادثات کی ایک رات، بے نام انتظار، اندیشے، مَیں آدمی ہوں اور تحریک، یہ وہ نظمیں ہیں، جنہوں نے مجھے اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔ اُن کی غزلوں میں رومانی کیفیات اور جمالیاتی عُنصر غالب ہے، لیکن نظموں میں معاشرتی اور سماجی زندگی کا عکس نمایاں ہے۔ کتاب کا دیپاچہ، کینیڈا میں مقیم پاکستان کے نہایت معتبر شاعر، ولی عالم شاہین نے لکھا ہے جو خود بھی نظم کے بہترین شاعر ہیں۔