• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آغا جان(قاضی حسین احمد) نے ہم چاروں بہن بھائیوں کو اصحابِ صفّہ کے چبوترے پر امّی کے ساتھ بٹھا کر سورۂ محمّد، سورۃ الفتح اور سورۃ الحجرات ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھائی اور نم آنکھوں سے بار بار ایک ہی دُعا کی کہ’’ اے اللہ! ہمیں اپنی نوکری پر لگائے رکھنا۔ 

اپنے دین کی سربلندی کی جدوجہد میں مصروف رکھنا۔‘‘عُمرے کی ادائی کے بعد مدینہ منوّرہ گئی، تو اُن کی دُعائیں کانوں میں گونجتی محسوس ہوئیں۔کیا رُوح پرور منظر ہے کہ پوری دنیا سے قافلے جُوق در جُوق حرمین شریفین میں اُمڈے چلے آ رہے ہیں اور سب اُمّت کی زبوں حالی پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں۔ فجر کی نماز میں جب امام صاحب نے سورۃ النساء کی آیت نمبر57کی تلاوت شروع کی، تو مقتدیوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔

اِس آیت کا ترجمہ ہے کہ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مَردوں، عورتوں اور بچّوں کی خاطر نہ لڑو، جو کم زور پاکر دَبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اُس بستی سے نکال، جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے۔“

آغا جان کو جُدا ہوئے برسوں بیت گئے، مگر ہم دنیا کے جس کونے میں بھی چلے جائیں، اُن کی وجہ سے عزّت واحترام ملتا ہے۔مجھے یاد آیا کہ وہ ہمیشہ نصیحت کیا کرتے تھے۔’’ دیکھو! جماعت سے چمٹے رہنا۔ یہ تمہیں امانت و دیانت کے راستوں پر بھی چلائے گی اور تمہارے دین و اخلاق کی حفاظت بھی کرے گی۔‘‘ 

عُمرے کی ادائی کے لیے آئے اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ، اپنے امیرِ محترم حافظ نعیم الرحمٰن اور ہماری شعبۂ خواتین کی صدر، ڈاکٹر حمیرا طارق نے جس محبّت و احترام کے ساتھ رخصت کیا، اُس پر اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کیا کہ آغا جان ہمیں بہت محفوظ ہاتھوں میں سونپ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ جماعتِ اسلامی، خواتین کے لیے خصوصاً ایک حفاظت اور محبّت سے بھرپور خاندان ہے،جہاں ہمارا احترام ہے اور بھرپور شرکت کا احساس بھی۔ 

ہماری رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔یہ محض ایک پارٹی ہی نہیں، ایک طرزِ زندگی ہے۔ ایک معاشرت ہے، جہاں رشتوں کا احترام اور میرٹ کی قدر دانی ہے۔ نئے سال کا آغاز آغا جان کی ڈھیر ساری محب توں اور شفقتوں کی یادوں کے ساتھ شروع ہوتا ہے، جو کبھی آنسوؤں کی برسات لے کر آتی ہیں، تو ایک نئے عزم سے بھی نوازتی ہیں۔

مکّۃ المکرّمہ میں دسمبر کی ہواؤں میں آغا جان کے ساتھ گزرے حج اور عُمرے کی یادیں بھی تازہ کیں۔ جب وہ ہمیں غارِ ثور اور غارِ حرا لے کر گئے، تو اُنہوں نے ہمیں مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت کے تین نکات سمجھائے کہ اُنہوں نے بھی نبی کریم ﷺکی پیروی میں وہی طریقہ اپنایا، جو ایک ایرانی عالم، ملا صدراء نے بتائے تھے کہ نبی کریم ﷺنے سب مخلوق سے کٹ کر غارِ حرا میں اپنی خودی کو تلاش کیا۔ ’’من الخلق الی النفس۔‘‘ 

پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑا،’’من النفس الی اللہ۔‘‘ پھر اللہ کا پیغام لے کر مخلوق کی طرف آئے،’’من اللہ الی الخلق۔‘‘ اور پھر مخلوق کو ساتھ لیا اور اللہ کی طرف پلٹے،’’ مع الخلق الی اللہ۔‘‘اُنھوں نے ہمیں میدانِ عرفات میں وہ جگہ بھی دِکھائی، جہاں نبی کریم ﷺپر قرآنِ کریم کی آخری آیت نازل ہوئی، جس کا ترجمہ ہے۔

’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں، اُن کی پابندی کرو)، البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو، تو بے شک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔“(سورہ المائدہ)۔

آغا جان نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے اسی حجۃ الوداع کے سفر میں ایک تہائی دین اُمت کو سِکھایا۔ اِسی لیے آغا جان اجتماعِ عام کے بڑے قائل تھے کہ جماعت کی زندگی میں اجتماعِ عام کی بے حد اہمیت ہوتی ہے اور اس کے ذریعے عام لوگوں تک ہماری دعوت پہنچتی ہے۔ آغا جان کی زندگی میں جماعتِ اسلامی ایک عوامی جماعت بنی، جس کا اہم ذریعہ بڑے پیمانے پر عوامی تحرّک تھا اور ہر جگہ بڑے بڑے اجتماعات منعقد ہوتے رہے تھے۔

وہ، نبی کریم ﷺسے عشق کو ایمان کا اہم جزو سمجھ کر ہمیں سمجھاتے تھے کہ یہ اُمّت کے پاس آخری خزانہ ہے اور دشمن اسے بھی لُوٹنے کے درپے ہے۔ اُمّت صرف نبی کریم ﷺکی ذات ہی پر اکٹھی ہوسکتی ہے۔ اِس لیے اُن سے عشق ہمارا اَن مول خزانہ ہے، جس کی حفاظت ہمارا فرضِ اوّلین ہے۔سخت موسم اور کیسے دشوار گزار راستوں سے حضورِ اکرمﷺنے کیسے بے یقینی کی حالت میں سفر کیا ہوگا۔ 

آج ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں، تیز رفتار ریل کار اور پُرآسائش سفر میں مدینہ منوّرہ، مکّۃ المکرّمہ سے خاصا دُور لگتا ہے، تو کیسے ہمارے پیارے پیغمبر، نبی کریم ﷺ نے غارِ حرا اور غارِ ثور سے گزر کر مدینہ منوّرہ تک کا سفر کیا ہوگا۔جب ہم مدینہ منوّرہ میں داخل ہو رہے تھے، تو ایک نعت کے یہ مصرعے زبان پر آگئے۔؎ ’’مدینے کا سفر ہے اور مَیں نم دیدہ، نم دیدہ۔‘‘ چودھویں کا چاند چمک رہا تھا اور تصوّر میں بچیاں دف لیے نعتیں پڑھ رہی تھیں۔ 

ثنیۃ الوداع، مدینہ منوّرہ کے قریب ایک تاریخی مقام ہے، جو عرب کے چاند، حضرت محمّدﷺ کے مدینہ منوّرہ آنے پر مشہور ہوا، جب آپ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ منوّرہ پہنچے، تو اہلِ مدینہ نے آپﷺ کا والہانہ استقبال کیا اور’’ طلع البدر علینا…‘‘ کا دل نشیں نغمہ گایا، جس نے اس مقام کو تاریخی اہمیت عطا کردی۔ یہ جگہ مسافروں کے استقبال اور وداع کے لیے استعمال ہوتی تھی اور اِسی وجہ سے اسے’’ ثنیۃ الوداع‘‘ کہا جاتا ہے۔

آغا جان ہمیں بتاتے رہے کہ لوگ چھوٹی چھوٹی سنّتوں کو تو بہت اہتمام سے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، جو محبّت و عشقِ رسول ﷺ کی نشانی ہے، مگر اصل اور سب سے بڑی سنّت تو اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنا ہے، جسے ہم لوگ بھول جاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺنے اس دین کے نفاذ اور مدینہ منوّرہ کو اسلامی ریاست بنانے کے لیے اپنے محبوب شہر، مکۃ المکرّمہ سے ہجرت کی، جہاں اللہ کا گھر ہے اور مدینہ منوّرہ کو آباد کیا۔ مَیں سوچتی رہی کہ کیسے حضور نبی کریم ﷺکی میزبانی کی صُورت حضرت ابو ایّوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قسمت کا ستارہ جگمگا اُٹھا۔

اللہ نے دنیا میں بھی اُنہیں کس شان سے رکھا کہ استنبول میں اُنہیں’’ سلطان ایّوبؓ‘‘ کہا جاتا ہے اور اُن کا مقبرہ دن رات زائرین سے بَھرا رہتا ہے۔ اِتنا پُر رونق اور پُرسکون۔ اللہ نے حضور نبی کریم ﷺکی مہمان نواز ی کا کیا شان دار صلہ دیا ہے۔؎’’تیرے ثور و بدر کے باب کے مَیں ورق اُلٹ کے گزر گیا…مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزہ دیا…مَیں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا…تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا۔‘‘

حضور نبی کریم ﷺکے وجودِ مبارک کی شفقت سے مدینہ منوّرہ سراپا محبّت ہے۔ یہاں کی فضاؤں میں عجب محبّت کی چاشنی گُھلی ہے۔ آغا جان اپنے والد کا ذکر کرتے تھے کہ وہ بہت خوش خطی سے اسمِ محمّد ﷺ لکھ کر چاروں طرف بیل بُوٹے بنایا کرتے۔ آغا جان نے مسجدِ نبویؐ کی ایک بڑی تصویر فریم کروا کے اپنے آفس میں لگائی تھی، جس کے نیچے یہ شعر لکھا تھا۔؎’’اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است‘‘ یعنی’’اے خنک شہر کہ جہاں محبوب بستا ہے۔“

حضرت مولانا شاہ احمد نورانی صدیقیؒ اس شعر کو دیکھ کر جُھوم اُٹھے اور کہا کہ’’قاضی صاحب! آپ سے اِسی لیے بہت محبّت ہے۔‘‘ اِن دونوں میں آخر تک انتہا درجے کا محبّت و احترام کا رشتہ قائم رہا۔ دونوں دردِ مشترک اور قدرِ مشترک پر جدوجہد کرتے رہے۔ آغا جان نے یہ رباعی بھی اپنے گھر اور دفتر میں آویزاں کر رکھی تھی۔؎’’تُو غنی از ہر دو عالم، مَن فقیر…روزِ محشر عذر ہائے من پذیر…ور حسابم را تو بینی ناگزیر…از نگاہِ مصطفےؐ پنہاں بگیر۔‘‘ ترجمہ’’اے اللہ! تو دوجہانوں کو عطا کرنے والا ہے، جب کہ مَیں تیرا منگتا و فقیر ہوں۔ روزِ محشر میری معذرت کو پذیرائی بخش کر قبول فرمانا اور مجھے بخش دینا۔ اگر میرے نامۂ اعمال کا حساب ناگزیر ہو، تو پھر اے میرے مولی! اسے میرے آقا، حضرت محمّد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلّم کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔‘‘

مَیں، گنبدِ خضریٰ کے سائے میں اپنے والدین کے لیے دُعاگو ہوں کہ اُنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے دین سے وفاداری رکھنے والی جماعت کا کارکن بنایا۔ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تفہیم القرآن سے اقامتِ دین کا صحیح مفہوم سمجھایا اور اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے کی تحریک کے ساتھ جوڑے رکھا۔لاکھوں لوگوں کو یہاں قافلوں کی صُورت آتا دیکھ کر دل کو تسلّی ہوتی ہے کہ’’ گھبراؤ مت، سحر قریب ہے۔‘‘ 

اِس لیے کہ حضور نبی کریم ﷺکی لُٹی پٹی اُمّت سے قرآنِ کریم میں تین بار سورۃ التوبۃ، سورۃ الفتح اور سورۃ الصف میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ یہ رسولﷺ، ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ غالب ہونے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ دین نے غالب ہونا ہی ہے اور تبدیلیوں کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔

آج آغا جان تو ہمارے درمیان نہیں ہیں، مگر اُنھوں نے اصحابِ صفّہ کے چبوترے پر ہمیں جو دُعائیں دیں، وہ آج بھی بہار کی طرح ہماری زندگیوں میں خُوش بُو اور رنگ بکھیر رہی ہیں۔ الحمدللہ، امّی سمیت ہم سب بہن، بھائی اپنی تحریک میں اُسی جذبے سے مصروفِ عمل ہیں اور یہ سب اُن کے لیے صدقۂ جاریہ ہے کہ یہ بیج اُنہوں نے ہمارے دِلوں میں بوئے تھے۔