سندھ دھرتی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ روایت کے مطابق سکندراعظم بھی یہاں آیا اور کچھ دن قیام پذیر رہا۔ یہاں قدیم ترین تہذیب و ثقافت کے آثار پائے جاتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں موہن جو دڑو جیسے بین الاقوامی اہمیت کے حامل شہر کے کھنڈرات موجود ہیں جبکہ تاریخی اہمیت کے حامل کئی قلعے بھی موجود ہیں جنھیں سندھی زبان میں ’کوٹ‘ کہا جاتا ہے۔
ان میں سے ایک قلعہ سندھ کے دورافتادہ مقام تھرپارکر کے ایک چھوٹے اور پس ماندہ شہر نوکوٹ میں واقع ہے۔ اسے ’’تھر کا دروازہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ صحرائے تھر کے داخلی راستے پر تعمیرشدہ ہے۔ یہ میدانی اور ریگستانی علاقوں کے سنگم پر واقع ہے، جہاں حدنگاہ تک ریت ہی ریت دکھائی دیتی ہے۔ میر پورخاص سے تقریباً 75کلومیٹر کے فاصلے پر نوکوٹ شہر میں واقع یہ قلعہ تھر پارکرکی تہذیب و تمدن کا عکاس ہے۔
1783ء میں میر فتح علی خان تالپور نے ہلانی کی لڑائی میں کلہوڑوں کو شکست دینے کے بعد اپنی حکمرانی قائم کی اور خود کو سندھ کا پہلا رئیس یا حکمران قرار دیا۔ اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے اس نے اپنے بھائیوں میر غلام، میر کرم اور میر مراد کو حکومت میں شامل کرلیا اور حیدرآباد کو اپنا دارالحکومت قرار دیا، جبکہ میر فتح علی خان تالپور کے بھتیجے نے خیرپور میں خاندان کی ایک شاخ قائم کی۔ ایک اور رشتہ دار، میر تھرا خان نے جنوب مشرقی سندھ میں میرپور خاص کے آس پاس کے علاقے میں منکانی شاخ قائم کی (میر پور خاص شہر کی بنیاد ان کے بیٹے میر علی مراد تالپور نے رکھی تھی)۔
اس دور میں عمرکوٹ پر جودھپورکا مہاراجہ قابض تھا جبکہ جنوب میں تھر والی اراضی پر تھر کے سرکش اور باغی ’’سوڈھے (ٹھاکر) سرداروں‘‘ کا قبضہ تھا۔ کلہوڑہ دور میں وہ محصولات (خراج) کی ادائیگی کرتے تھے لیکن تالپور خاندان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سوڈھوں نے محصولات دینے سے انکار کردیا، جس کے بعد میر فتح علی خان تالپور نے یہ فیصلہ کیا کہ سوڈھوں سے محصولات کی وصولی کے لیے سخت رویہ اختیار کیا جائے گا۔
اس مقصد کے لیے تھر میں مختلف مقامات پر قلعے تعمیر کروائے گئے جہاں حکومتی کارندوں کو بذریعہ قوت سوڈھوں سے محصولات وصول کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ 1812ء میں میر کرم علی خان تخت پر بیٹھا اور اس نے 1813ء میں جودھپور کے مہاراجہ سے عمرکوٹ حاصل کیا اور تھر میں کچھ قلعے بھی تعمیر کروائے۔
تھر میں تعمیر کردہ نو کوٹ قلعہ کے حوالے سے متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک کے مطابق اس کی تعمیر میر علی مراد خان تالپور نے 1789ء میں کروائی۔ اس کی تعمیر کا بنیادی مقصد سوڈھوں اور انگریزوں کے مقابلے میں دفاع اور انھیں زیر کرنا تھا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ بعدازاں 1814ء میں میر کرم علی خان تالپور نے قلعے کو تباہی سے بچانے کے لیے حفاظتی اقدامات کیے اور اس کی مرمت کروائی۔ دوسری رائے کے مطابق 1814ء میں میر کرم علی خان تالپور نے دفاعی و رہائشی مقاصد کے تحت نوکوٹ قلعہ کی تعمیر کروائی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی تعمیری لاگت تقریباً 8 لاکھ روپے سے زائد تھی۔
قلعے کی لمبائی تقریباً 640فٹ اور چوڑائی 440فٹ ہے۔ قلعہ کی تعمیر پکی اینٹوں سے کی گئی ہے جبکہ انھیں جوڑنے کے لیے مٹی کا گارا اور چونا استعمال کیا گیا ہے۔ نوکوٹ قلعے کے دو حصے ہیں ایک فوجی اور انتظامی حوالے سے اہمیت کا حامل تھا تو دوسرا رہائش کے لیے مختص تھا۔ قلعے کی دیواریں چوڑی اور کشادہ ہیں۔ دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث اندرونی حصے کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔
مغربی فصیل کے اندرونی حصے میں تالپور حکمرانوں کے محلات اور بارہ دری وغیرہ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے منہدم ہوچکی ہیں۔ اس قلعے کے آہنی چٹان جیسے نو مضبوط برج اور دو مرکزی دروازے ہیں، تین برج شمال، جنوب اور مغربی دیوار کے درمیان ہیں۔ ان برجوں میں سب سے مضبوط برج کا قطر (ڈایا میٹر) 44.6 فٹ اور اس کا گھیراؤ (سرکمفرنس) 139 فٹ ہے۔
شاہی دروازے سے اندر داخل ہونے کے بعد وسیع احاطے کے ساتھ سامنے اور دائیں طرف طویل سرنگ نما برآمدے اور کمانی دار چھت والی بیرک نما کوٹھریاں بنی ہوئی ہیں، جن میں کوئی کھڑکی نہیں ہے اور نہ ہی روشنی کا کوئی دوسرا انتظام ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان میں بارود، بندوقوں اور توپوں کا ذخیرہ رکھا جاتا تھا جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ ان میں خطرناک قیدیوں کو رکھا جاتا تھا یا پھر یہاں پھانسی گھاٹ ہوا کرتا تھا۔ پھانسی گھاٹ ہونا اس لیے خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ ان بیرک نما کوٹھریوں کی چھتوں پر کچھ لوہے کے کڑے لگے ہوئے ہیں جبکہ بیٹھنے کے لیے اینٹوں کی نشستیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ نوکوٹ قلعہ میں مختلف مقامات پر فوجی بیرکیں بھی تعمیر کی گئی تھیں، جہاں تالپوروں کی فوج کے سپاہی رہا کرتے تھے مگر اب ان کی حالت انتہائی شکستہ ہے۔
انگریزوں نے جب اس علاقے پر قبضہ کیا تو اس علاقے کو آباد کرنے کے لیے قلعے کے جنوب میں کئی چھوٹی چھوٹی عمارتیں اور ایک بازار تعمیر کروانے کا منصوبہ بنایا لیکن اس پر پور ی طرح عمل نہ ہوسکا کیونکہ 1938ء میں ریلوے لائن بچھنے سے اسٹیشن تقریباً 6میل دور بنا اور لوگ بھی ذرائع نقل و حمل کی آسانی کی وجہ سے وہیں آباد ہوگئے۔
قلعہ نوکوٹ عرصہ دراز تک مضبوط قلعہ سمجھا جاتا رہا لیکن وقت کے بے رحم تھپیڑوں اور حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے اب یہ خستہ حال ہوچکا ہے۔ محلات، بارہ دری اور قدیم پھانسی گھاٹ سمیت قلعے کے دیگر حصے منہدم ہوچکے ہیں جبکہ اندرونی حصے کی دیواریں بوسیدگی کا شکار ہیں اور ان میں دراڑیں پڑگئی ہیں۔ اس تاریخی قلعے کو اصل حالت میں قائم رکھنے پر توجہ دے کر اسے سیاحتی مرکز کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔