• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواں سال کے اوائل میں ترکی میں آنے والے خوفناک زلزلے کے بعد دنیا میں ایک بار پھر زلزلہ مزاحم عمارتوں پر بحث ہورہی ہے کہ نہ صرف نئی تعمیر ہونے والی عمارتوں کو زلزلہ مزاحم تعمیر کیا جائے بلکہ پہلے سے تعمیرشدہ عمارتوں کو زلزلوں سے محفوظ بنایا جائے۔

ویسے تو دنیا کے ہر خطے میں زلزلے آتے ہیں لیکن کچھ ممالک میں دیگر کے مقابلے میں زلزلے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ جاپان اور چلی کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے، جو زلزلوں سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جاپان کو دُہرے خطرات کا سامنا رہتا ہے، جہاں زلزلوں کے ساتھ ساتھ سمندری طوفان بھی گھروں اور عمارتوں کو بہا لے جاتے ہیں۔

ہر ملک میں عمارتوں کی تعمیر سے متعلق سینکڑوں اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ چلی اور جاپان جیسے ممالک میں، جنہیں باقاعدگی سے زلزلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بہت سے اضافی قوانین بنائے گئے ہیں کہ عمارتیں ان آفات کو ممکنہ حد تک برداشت کر سکیں۔ 

چلی بحر الکاہل کے اس مقام پر واقع ہے، جو دنیا کے سب سے زیادہ زلزلے کے شکار علاقوں میں شمار ہوتا ہے، اور گزشتہ50 برسوں میں ریکٹر اسکیل پر کم از کم 7 شدت کے ایک درجن سے زیادہ زلزلوں کا سامنا کر چکا ہے۔ لیکن ان شدید زلزلوں میں جانی نقصان کم رہا ہے۔ 

یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کا دفتر برائے آفات بھی اس کی تعریف کرتا ہے اور اس کی ایک وجہ چلی کے سخت تعمیراتی قوانین کو قرار دیتا ہے۔ چلی میں1960ء میں دنیا کا سب سے بڑے زلزلہ آنے کے بعد تعمیراتی قوانین کو اپ ڈیٹ کیا گیا تھا، جس کے بعد وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ عمارتیں اس طرح تعمیر کی جائیں جس سے وہ سخت رہنے کی بجائے زلزلہ کی لہروں کے ساتھ ڈول سکیں۔

زلزلہ مزاحم عمارتیں کیسے تعمیر کی جائیں؟

جب زلزلہ آتا ہے، تو اس سے اُفقی قوتیں پیدا ہوتی ہیں، جو عمارتوں کو ہلاتی ہیں۔ چونکہ عمارتیں کنکریٹ سے بنی ہوتی ہیں، جو مضبوط ہوتی ہیں لیکن ان میں لچک کم ہوتی ہے، یہ قوتیں کنکریٹ کو کھینچ کر اس میں شگاف ڈال سکتی ہیں۔ 

معمار اس کا تدارک Rebar نامی ایک لچکدار اسٹیل کے مواد کو شامل کرکے کرتے ہیں، جسے ’ری انفورسمنٹ اسٹیل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کنکریٹ میں Rebarکا استعمال اس کی مجموعی طاقت اور قوت برداشت کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’ریبار‘ میں لچکدار خصوصیات ہیں جس سے عمارت کو اس کی اصل شکل میں واپس آنے میں مدد ملتی ہے۔

جھٹکے برداشت کرنے والا مواد

عمارتوں کو ’بیس آئسولیشن‘ سسٹم کے ساتھ بھی لگایا جا سکتا ہے تاکہ اسپرنگس یا رنرز کے استعمال سے عمارت کو اس کی بنیادوں سے الگ کیا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زلزلہ آنے کی صورت میںپیدا ہونے والی حرکت، عمارت کی ساخت پر دباؤ نہیں ڈالے گی۔ 

یہ نظام جاپان میں استعمال کیا جاتا ہے، جہاں عمارتوں کو جھٹکوں کے دوران مستحکم رہنے میں مدد دینے کے لیے جھٹکا برداشت کرنے والے مواد جیسے کہ ربڑ کے موٹے بلاکس پر تعمیر کیا جاتا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ 1995ء میں کوبی کے زلزلے کے بعد، جس میں 6ہزار سے زیادہ افراد جان سے گئے تھے، جاپان نے عمارتوں کو ’زلزلہ مزاحم‘ بنانے کے لیے وسیع تحقیق کی، جس میں پرانے ڈھانچے کی مرمت بھی شامل ہے۔ چلی کی طرح، اس نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت قوانین بنائے ہیں کہ عمارتیں زلزلوں کو برداشت کرنے کے قابل ہیں۔

زلزلہ مزاحم عمارتوں کے فوائد

امریکا میں تعمیراتی کارکردگی کے لیے عمارتوں کی درجہ بندی کے نظام کو چلانے والی ’یو ایس ریزیلینسی کونسل‘ کا کہنا ہے کہ ’’زلزلے سے ہونے والی موت، چوٹ اور املاک کے نقصان کی بنیادی وجہ عمارت کو نقصان پہنچنا ہے‘‘۔ اس کا کہنا ہے کہ اس بات کو یقینی بنانا کہ عمارتیں زلزلوں کا مقابلہ کر سکیں، نہ صرف جانیں بچاتی ہیں بلکہ ان آفات کے معاشی اثرات کو بھی کم کرتی ہیں۔ اس کے ماحولیاتی فوائد بھی ہیں، کیونکہ ملبہ نہیں ہوتا، اور تعمیر نو پر کوئی خرچ اور اخراج نہیں ہوتا۔

ترکی کو 2023ء کے اوائل میں آنے والے زلزلے کے بعد 85 ارب ڈالر تک کے اخراجات کا سامنا ہے، اس میں سے 70 ارب ڈالر سے زیادہ کی ضرورت گھروں کی مرمت کے لیے ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رِسکس رپورٹ 2023ء کے مطابق، قدرتی آفات جیسے زلزلے، سیلاب اور جنگل کی آگ، آئندہ دو برسوں میں دنیا کو درپیش سب سے شدید خطرات میں سے ہیں۔ 

ماحولیاتی تبدیلیوں اور زلزلوں کےمابین کسی بھی ممکنہ روابط کے بارے میں تحقیق کی جا رہی ہے، لیکن ناسا کے جیو فزیسٹ پال لونڈگرین نے بتایا کہ، ’’ہم اس وقت یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ موسمیاتی عوامل کسی بڑے زلزلے کو متحرک کر سکتے ہیں‘‘۔

یو ایس جیولوجیکل سروے کا کہنا ہے کہ زلزلوں اور موسم کے درمیان واحد تعلق یہ ہے کہ ماحولیاتی دباؤ میں بڑی تبدیلیاں جیسے بڑے طوفان، ’سست زلزلے‘ کو متحرک کر سکتے ہیں، جو طویل عرصے تک توانائی خارج کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں زمینی جھٹکےنہیں آتے۔