• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنےاور دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے نگراں وفاقی ادارے، انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) سے متعلق قانون میں ترامیم سے متعلق فیصلے پروفاقِ پاکستان کی دو اکائیوں، یعنی بلوچستان اور سندھ نے عدم اطمینان اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم صوبہ سندھ میں اس ضمن میں زیادہ شدید ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔

صوبہ سندھ کے سیاست دانوں، حکم رانوں اور عوام سمیت ماہرین کا کہنا ہے کہ ارسا ایکٹ میں ترامیم سمیت خصوصی طور پر پنجاب میں چولستان نہر کی تعمیر سے سندھ خشک سالی کا شکار ہو جائے گی اور ایک خِطّے کو سیراب کرنے کے بدلے سندھ کے بڑے حصے کو بنجر کردیا جائے گا۔ سندھ کے ماہرین اور سیاست دانوں کے خدشات ہیں کہ چولستان نہر کو باقی صوبوں کے حصے سے پانی دے کر باقی صوبوں کا پانی کم کیا جائے گااور یہ ایسی صورت حال میں ہوگا جب پہلے ہی ارسا سندھ سمیت دیگر چھوٹے صوبوں کو اپنے حصے سے کم پانی فراہم کرتا ہے۔

ایسے حالات میں وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا یہ بیان خاص اہمیت کا حامل ہے کہ نہروں کا مسئلہ فیڈریشن سے بڑا نہیں، اس معاملے پر اتفاق رائے ضروری ہے۔ ’’جیو نیوز‘‘ کے پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم کی طرح بعض عناصر اس منصوبے کو بھی متنازع بنا رہے ہیں، حالاں کہ اس پر بات ہوسکتی ہے۔ ان کے مطابق پیپلز پارٹی کو معاملہ اتفاق رائے سے حل کرنے کا یقین دلایا گیا تھا۔ رانا ثناء اللہ کے بہ قول یہ ایک منصوبہ ہےجس کے اچھے اور بُرے اثرات سامنے رکھ کر راستہ نکالا جاسکتا ہے، جب مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوگا تو اس میں فیصلہ ہوگا۔

ایسی صورت حال میں جب سندھ کے طول وعرض میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، وفاقی حکومت کا موقف سامنے آنا وقت کی ضرورت تھی۔ صحرائے چولستان میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت جدید طریقوں کے مطابق کاشت کاری کے منصوبوں کا مقصد دوست ملکوں کو سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرکے قومی معیشت بہتر بنانے اور ملک بھر میں کاشت کاری کوجدید خطوط پر استوار کرنا بتایا گیا ہے جو بالخصوص موجودہ حالات میں مثبت بات ہے۔

لیکن صحرائی علاقے میں پانی پہنچانے کےلیے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کی تدبیر چھوٹے صوبوں، خصوصاً سندھ، میں سخت پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ خدشہ ہے کہ ایسا ہوا تو سندھ کےکھیت بنجر ہو جائیں گے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے عید سے دو روز قبل جو پریس بریفنگ دی، اس میں اس دعوے کے ساتھ کہ ان کی جماعت وفاقی حکومت گرانے کی طاقت رکھتی ہے، وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ نئی نہروں کے منصوبے کی حمایت نہ کریں۔ 

صدرِ مملکت ، آصف علی زرداری کی جانب سے سے منصوبے کی منظوری دینے کے ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ صدر سے کہا گیا تھا کہ اضافی زمین آباد کرنا چاہتے ہیں، صوبوں کو اعتراض نہیں تو کریں، لیکن اس اجلاس کے منٹس بھی غلط بنائے گئے۔ پروپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کو بتایا گیا کہ سندھ حکومت ملوث ہے۔ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صرف سندھ کا نہیں، بلکہ یہ صوبوں کی ہم آہنگی کا معاملہ ہے۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ گرین پاکستان انیشی ایٹیو سے اختلاف نہیں، اس کے لیے عمرکوٹ اور دادو میں زمین دی ہے۔ مراد علی شاہ کے مطابق ملک کے اعلیٰ ادارے کی طرف سے دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کی واضح مخالفت کی گئی تھی۔ انہوں نے صدر زرداری کی طرف سے منصوبے کی منظوری کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ منصوبوں کی منظوری متعلقہ حکومتی اداروں کے دائر کار میں آتی ہے اور اس کے لیے صوبائی اتفاق رائے درکار ہوتا ہے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ وفاقی جمہوری نظام میں مشترکہ مفادات کونسل خاص اہمیت کا حامل ادارہ ہے جو وفاق کی تمام اکائیوں کو یک جا رکھنے، غلط فہمیاں دور کرنے اور مسائل حل کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے بیان اور وفاقی مشیر کے موقف کو اس اعتبار سے ہم آہنگ کہا جاسکتا ہے کہ سی سی آئی کے ذریعے اتفاق رائے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ 

فی الوقت حالات کی نوعیت ایسی بن گئی ہے کہ ایک طرف سی سی آئی کا اجلاس جلد بلانا ضروری معلوم ہوتا ہے تو دوسری جانب اس گمان کی حفاظت کی جانی چاہیےجو وزیراعلیٰ سندھ کے اس بیان سے نمایاں ہے کہ چولستان کینالز کی تعمیرکے لیے مختص شدہ پینتالیس ارب روپے کا تاحال استعمال نہ ہونا سندھ حکومت کی درخواست کا مثبت جواب ہے۔ درحقیقت پورے ملک پر اثر انداز ہونے والے منصوبوں کے لیے تمام صوبوں کو اعتماد میں لے کر ان کی رضامندی سے فیصلے کرنے کے طریقہ کار کی سختی سے پابندی کرنے میں سب کا بھلا ہے اور اس طرح بغیر کسی بد مزگی کےبہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

ماضی سے حال کا سفر

دراصل آج جو مسئلہ ملک میں نمایاں نظر آرہا ہے،وہ بہ ذاتِ خود کوئی نیا نہیں ہے، بلکہ درحقیقت یہ ایک بہت پرانے مسئلے کی جدید شکل ہے۔ وہ پرانا مسئلہ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے ضمن میں موجود شکوک و شبہات، دریائے سندھ پر ڈیمز اور بیراجز بنانے کےخلاف اور اس کے حق میں ہونے والے مباحث سے پیدا ہونے والی صورت حال اور وقتا فوقتاکالا باغ ڈیم کے حق میں اور اس کے خلاف چلائی جانے والی مہمات سے پیدا ہونے والی تلخیوں کا ہے۔ 

ایسے میں ارسا ایکٹ میں ترامیم کا مسئلہ سامنے آنا، اسی طرح گرین پاکستان انیشی ایٹیو کے تحت پاکستان اریگیشن نیٹ ورک کے لیے ٹیلی میٹری سسٹم کے نفاذ، ارسا کی پالیسی کی ازسر نو تشکیل اور چھ نئی اسٹریٹیجیک نہروں کی تعمیر کا فیصلہ معاملے کو پے چیدہ بناگیا ہے۔ مجوزہ نہروں میں سندھ میں رینی نہراور تھر نہر، پنجاب میں چولستان نہر، گریٹر تھل نہر، بلوچستان میں کچھی نہر اور خیبر پختون خوا میں چشم رائٹ بینک کینال (سی آر بی سی) شامل ہیں۔

خصوصی سرمایہ کاری کونسل اور گرین انیشی ایٹیو پروگرام 

خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تحت گرین پاکستان انیشی ایٹو ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کےکئی مقاصد ہیں جن میں ماحولیاتی نظام کی بحالی، موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ، زرعی اور سماجی شجرکاری، پانی کے زیاں کی حوصلہ شکنی اور نوجوانوں کے ساتھ پورے معاشرے کو شجرکاری کی مہم کا حصہ بنانا ہے۔

گرین پاکستان انیشی ایٹیو پلان میں چولستان فلڈ فیڈر کینال، گریٹر تھل کینال (جی ٹی سی)، کچھی کینال تعمیر، رینی کینال ، تھر کینال اور چشمہ رائٹ بینک کینال کی تعمیر بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل یعنی ایس آئی ایف سی ،وزیر اعظم شہباز شریف نےجون 2023 میں تشکیل دی تھی اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی اس کا حصہ بنایا تھا۔

اس خصوصی کمیٹی کا مقصد دفاع، زراعت، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں خلیج تعاون کونسل‘ یعنی خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کے عمل کو بہتر بنانا ہے۔ یہ منصوبہ ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب پاکستان شدید اقتصادی بحران کا سامنا کر رہا تھا ور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے معدوم ہوتے امکانات کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھ رہے تھے اور دوسری جانب ملک میں سیاسی بحران بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

نئی نہریں اور کارپوریٹ فارمنگ کا منصوبہ

ایس آئی ایف سی کے تحت 'گرین پاکستان انیشی ایٹیوشروع کیا گیا ہے جس کے تحت فوج مجموعی طور پر 48 لاکھ ایکڑ بنجر زمین حکومت سے لیز پر لے گی اور اسے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ بنجر علاقوں میں پانی پہنچانے کے لیے دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالی جائیں گی۔ واضح رہے کہ 'کارپوریٹ فارمنگ زراعت کا ایسا نظام ہے جس کے تحت بڑے کاروباری ادارے یا کارپوریشنز کو زرعی مصنوعات کی پیداوار میں شامل کیا جاتا ہے۔

اس کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے کم رقبے پر زیادہ پیداوار حاصل کرنا بھی ہے۔ اس پروگرام کے تحت سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کو پاکستان میں زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی گئی ہے۔اسی لیے سندھ اور پنجاب کے کئی علاقوں کے کسان سراپا احتجاج ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ سے مزید نہریں نکال کر مخصوص علاقوں کو سیراب کرنے کی اس کوشش سے اُن کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔

بعض 'اطلاعات کے مطابق گرین پاکستان انیشی ایٹیوکے تحت تک آٹھ لاکھ بارہ ہزار ایکڑ زمین پنجاب اور سندھ سے حاصل کی گئی ہے۔دستیاب معلومات کے مطابق پنجاب میں چولستان کے علاقے میں یہ زمین دی گئی ہے۔سندھ کی نگراں حکومت کے دور میں صوبے میں 52 ہزار ایکڑ زمین ٹرانسفر کی گئی تھی اوردو لاکھ ایکڑ کی نشان دہی کر کے رپورٹ حکومت کو بھجوا دی گئی ہے۔ ان میں ضلع دادو کے کاچھو کے علاقے، سجاول، بدین اور حیدرآباد کی زمین بھی شامل بتائی جاتی ہے۔

گرین پاکستان انیشی ایٹیوکے تحت ہنگامی بنیادوں پر دریائے سندھ پر چھ نہروں کی تعمیر کو مکمل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے جنہیں اسٹریٹجک کینالز بھی کہا جا رہا ہے۔ ان نہروں کے ذریعے کم از کم پینتیس لاکھ ایکڑ زمین آباد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ان میں دو، دو نہریں پنجاب اور سندھ اور ایک، ایک سندھ اور خیبرپختون خوا میں بنائی جائیں گی۔ اسٹریٹجک کینالز کے اس نیٹ ورک میں چار نہریں پہلے ہی تعمیر کے مختلف مراحل میں ہیں جب کہ پنجاب میں چولستان کینال اور گریٹر تھل کینال فیز ٹو پر ابھی کام شروع نہیں ہوا ہے۔

پنجاب میں چولستان کے علاقے میں دی گئی صحرائی زمین کو سیراب کرنے کے لیے 211 ارب روپے کی لاگت سے چولستان کینال بنائی جا رہی ہے جسے پنجاب اپنے حصے سے پانی دے گا۔ چولستان کینال سے بہاول نگر، بہاول پور کے ریگستان یعنی چولستان میں چھ لاکھ ایکڑ سے زائد بنجر زمین آباد ہو سکے گی۔ اسی طرح گریٹر تھل کینال فیز ٹو سے 15 لاکھ ایکڑ زمین آباد کی جائے گی۔

تحفظّات کا جائزہ

سندھ میں کاشت کاروں کو سب سے زیادہ اعتراض چولستان کینال فیز ون منصوبے پر ہے جس سے اُن کے خیال میں سندھ کو دست یاب پانی کم ہو جائے گا۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے رُکن احسان لغاری کے مطابق نگراں حکومت میں ارسا نے کثرتِ رائے سے پنجاب حکومت کے منصوبے، چولستان کینال کے لیے این او سی دیا تھا لیکن سندھ نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ان کے بہ قول چولستان کینال کی تعمیر سے سندھ اور بلوچستان تو متاثر ہوں گے ہی، لیکن پنجاب کی سرائیکی بیلٹ کی آباد زمینوں کی لیے بھی پانی کم ہو جائے گا۔ تاہم اس ضمن میں پنجاب کا کہنا ہے کہ وہ ان نئی نہروں میں پانی اپنے کوٹے سے دے گا۔

پاکستان میں پانی کی تقسیم کے ادارے ارسا کے مطابق 1991 کے بعد سے پاکستان کو مسلسل پانی کی کمی کا سامنا رہا ہے۔ چند یوم قبل ہی یہ خبر سامنے آئی ہے کہ ملک میں بارشیں نہ ہونے سے دریائے سندھ میں پانی کی کمی کاسوسالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے اور دریا میں پانی ایک صدی کی کم ترین سطح پرآگیاہے۔ایسے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آباد زمینوں کے لیے پانی پورا نہیں ہے تو نئی نہروں کے لیے پانی کہاں سے آئے گا۔

اقتصادی امور کے ماہر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانی محدود ہے۔ اگر گرین انیشی ایٹیو پروگرام کے تحت بنجر زمین آبادکی جائے گی تو پاکستان کی آباد زرعی زمین غیر آباد ہو جائے گی جو پاکستان کی معیشت کے لیے خطرہ ہے۔ ایوانِ زراعت، سندھ، کے جنرل سیکریٹری زاہد بھرگڑی کا کہنا ہے کہ جن کی فصل کا دارومدار نہری پانی پر ہے اور جو اُن کے بہ قول ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہو رہا ہے، انہیں اس فیصلے کے نتیجے میں سخت نقصان ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ بنجر زمین کو آباد کرنے کے اس منصوبے سے ہماری سرسبز زمینیں بنجر ہو جائیں گی، یہ کون سی عقل مندی ہے۔ 

پہلے ہی پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث اہم فصلوں کی پیداوار میں غیر معمولی کمی ہو رہی ہے۔ زاہد بھرگڑی کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی سمیت مختلف عوامل کے سبب سندھ میں فی ایکڑ گنے کی پیداوار بارہ سو من سے کم ہو کر 600 من تک آ گئی ہے۔ اسی طرح فی ایکڑ کپاس اورچاول کی پیداوار میں بھی پچاس فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب سماجی اُمور کے شعبے میں کام کرنے والوں کا موقف ہے کہ ایسے منصوبوں سے سماجی ناہم واری پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

ماہرینِ ماحولیات کا موقف

پاکستان میں بحیرہ عرب کی ساحلی پَٹّی دنیا کی سب سے بڑی ساحلی پَٹّی بتائی جاتی ہے۔ یہ پَٹّی سیر کوری سے مشرق میں گوادر والے حصّے کے مغرب میں900کلومیٹر طویل ہے۔ سندھ کی ساحلی پَٹّی مشرق میں تقریباً 270 کلومیٹر طویل ہے اور ڈیلٹا کی اراضی 5000 مربّع کلومیٹر ہے۔ صوبہ سندھ میں دریائے سندھ کا آخری حصّہ (Tale) بھی ہے۔ یہ دنیا میں سب سے بڑا ڈیلٹا کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 29000 مربّع کلومیٹر ہے۔

دریائے سندھ کوہِ ہمالیہ سے گنگناتا اور لہراتا ہوا نکلتا ہے اور 2880 کلومیٹر کا سفر طے کرکے پورے پاکستان سے گزرتا اور ڈیلٹا بناتا ہوا بحیرہ عرب میں جاگرتا ہے۔ اس سفر میں وہ گلگت، جام سر اور صوبہ سرحدکے پہاڑوں سے گزرتا، پنجاب کے علاقوں کو سبزہ دیتا ہوا سندھ کے ریگستانی علاقوں میں داخل ہوتا ہے۔ یہ جہاں سے گزرتا ہے، وہاں ایک پورا ماحولیاتی نظام (ایکو سِسٹم) بناتا ہے اور جب بحیرہ عرب میں گرتا ہے تو سمندر کے ماحولیاتی نظام میں اپنا حصّہ بٹاتا ہے۔

ماہرینِ ماحولیات کا موقف ہے کہ دریائے سندھ کے ڈاؤن اسٹریم میں پانی کی کمی اٹھارہویں صدی سے ہوئی، جب پنجاب کے اوپری ساحلی علاقوں میں زرعی ترقی کا آغاز ہوا۔ اس مقصد کے لیے دریائے سندھ کے پانی کا رخ موڑا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ انڈس ریور سِسٹم کے ساتھ اوپری بہاؤ (اپ اسٹریم) والے علاقے میں چھ بیراج (جناح، چشمہ، تونسہ، گدّو، سکھر اور کوٹری بیراج) اور دو ڈیم (منگلا اور تربیلا) تعمیر ہوئے۔ ان کی وجہ سے دریا کے آخری کنارے والے ڈیلٹا کے علاقے میں پانی کی کمی ہوتی گئی۔

دریائے سندھ کی تاریخ بتاتی ہے کہ 1830ء سے قبل اس کا 150 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گرتا تھا، لیکن 2002ء میں سرکاری ذرائع کے مطابق کوٹری سے نیچے سمندر میں صرف 0.725 ملین ایکڑ فیٹ دریائی پانی سمندر میں گرا تھا۔ تاہم غیر سرکاری ذرائع کہتے ہیں کہ حکومت کا موقف درست نہیں ہے اور اب تو صورت حال مزید خراب ہوچکی ہے۔ بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کے مطابق آب پاشی کے لیے درکار پانی کے علاوہ27ایم اے ایف میٹھا پانی صرف تمر کے جنگلات اور سندھ طاس کے ماحول کے تحفظ کے لیے درکار ہے۔

ماہرین ِ آبی امور کہتے ہیں کہ 1955ء میں کوٹری کے مقام پر غلام محمد بیراج کی تعمیر مسئلے کو سنگین تر بنانے کے ضمن میں نہایت اہم ثابت ہوئی۔ اس کی وجہ سے 5000مربّع میل پر پھیلا ہوا انڈس ڈیلٹا صحرا میں تبدیل ہونے لگا۔ یہ عمل سمندر میں کھلنے والے دریا کے 200 کلومیٹر طویل دہانے کے ساتھ ہوا۔ دریا میں تازہ میٹھے پانی کے بہاؤ میں شدید کمی کے باعث انڈس ڈیلٹا کا ماحولیاتی نظام بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ سرخ چاول کی کاشت ختم ہوگئی ہے۔ پَلّا مچھلی (Clupea Ilisha) کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے۔ 

تمر کے جنگلات جو کبھی 260,000 ہیکٹر پر پھیلے ہوئے تھے، 70,000 ہیکٹر رقبے سے بھی کم پر باقی رہ گئے ہیں۔ جھینگوں کی پیداوار70فی صد تک کم ہوگئی اور دریائے سندھ کے آخری کنارے (tail end) کی تقریبا تیس لاکھ ایکڑ نہایت زرخیز زرعی اراضی کیچڑ میں تبدیل ہوگئی ہے اور دھابیجی سے بھارت کی سرحد تک کے علاقے میں رہنے والے سندھ کے ساحلی علاقوں کےتقریبا سات لاکھ افراد پینے کے پانی تک کے لیے ترس رہے ہیں۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ نئی نہروں کا منصوبہ صورتِ حال مزید خراب کردے گا۔

آبی امور کے ماہرین کے بہ قول بیسویں صدی کے آغاز میں جب نہریں، ڈیم اور بیراج بننے لگے تو سندھ طاس کے باسی بدحال اور مفلسی کا شکار ہونے لگے۔ دریائے سندھ کی بنائی ہوئی کھاڑیاں خشک ہونے لگیں۔ سمندر، جسے دریا نے ساحلی علاقوں سے بہت دور روک رکھا تھا، ڈیلٹا کو کاٹ کر آگے بڑھنے لگا اور ڈیلٹا کی لاکھوں ایکڑ زرخیز اراضی نگل گیا ہے اور اب تو سمندر کا کھارا پانی دریائے سندھ کے ذریعے سجاول کا پُل بھی کراس کرچکا ہے۔ 

کہا جاتا ہے کہ اگر اب بھی اس جانب توجہ نہیں دی گئی تو ضلع ٹھٹھہ اور بدین تو کیا سمندر حیدر آباد کو بھی اسی طرح نگل جائے گا جس طرح کیٹی بندر اور شاہ بندر جیسے پُررونق شہروں کو نگل چکا ہے۔ ایک سروے کے مطابق سندھ کے عظیم ڈیلٹا کا رقبہ سکڑ کر صرف 10 فی صد رہ گیا ہے۔ سندھ کے ڈیلٹا کے علاقے میں سات لاکھ ایکڑ پر محیط تمر کے جنگلات دنیا میں اس نوعیت کے چھٹے بڑے جنگلات کہے جاتے تھے لیکن اب ان کا دو تہائی حصّہ ختم ہوچکا ہے۔

دریائے سندھ میں پانی کی کمی، تمر کے جنگلات کی تباہی اور دیگر ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے مچھلیوں اور جھینگوں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک کمی واقع ہوگئی ہے۔ کوٹری بیراج کی تعمیر سے قبل فی کشتی 200 ٹن مچھلی پکڑتی تھی۔ یہ صورتِ حال بیراج کی تعمیر کے دو سال بعد تک برقرار رہی۔ لیکن 1958ء سے 62ء تک صرف 72 ٹن رہ گئی تھی۔ 

کوٹری بیراج کی تعمیر سے قبل فی کشتی تقریباً 300ٹن جھینگا پکڑا جاتا تھا لیکن 1960ء میں یہ مقدار 120ٹن رہ گئی تھی۔ 1970ء اور 1980ء میں مچھلیوں اور جھینگوں کی تعداد میں مزید کمی کے شواہد ملے جو شاید منگلا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر کا نتیجہ ہے۔ ماہرین کے مطابق چشمہ لنک کینال، تھل کینال اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بعد یہ صورتِ حال مزید خراب ہوجائے گی۔

محکمہ محصولات (ریونیو) کی کی ایک رپورٹ کے مطابق شاہ بندر، کھارو چھان، کیٹی بندر، میر پور ساکرو کے ساحلی علاقوں کی ساری زرعی زمینیں 1924ء تک بھرپور طریقے سے آباد تھیں اور یہ علاقہ دھان کی فصل کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ ان علاقوں میں جب فصلوں کی کٹائی کا وقت آتا تو کٹائی کے لیے لوگ کم پڑجاتے، لہٰذا ملتان، دادو، سکھر اور لاڑکانہ سے لوگوں کو بلوانا پڑتا تھا۔ 

یہاں سے اناج کا بیوپار کراچی، حیدر آباد، روہڑی اور سکھر تک ہوتا تھا اور سیکڑوں چھوٹی بڑی کشتیاں دھان اور اناج سے بھر کر سندھ بھر میں جاتی تھیں۔ سرخ چاول کی کاشت کے حوالے سے یہ علاقہ بہت مشہور تھا۔ یہاں بسنے والے لوگ اتنے خوش حال تھے کہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔

زرعی، تمدّنی اور اقتصادی ترقی کا یہ دور 1935ء۔ 36ء میں اپنے عروج پر تھا، لیکن 1951ء۔ 52ء تک ترقی کا یہ سلسلہ اپنے اختتام کی طرف بڑھنے لگا۔ ماہرین کے مطابق اس معکوس ترقی کی وجہ فطری نہیں تھی بلکہ سکھر، غلام محمد اور گدّو بیراج کی تعمیر تھی۔ بیراج اور ڈیم تمدّنی ترقی کے لیے بنائے گئے تھے لیکن ان کی وجہ سے دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ متاثر ہوا اور سندھ کے ساحلی علاقے میں میٹھے پانی کی کمی ہوتی گئی۔ 

سمندری پَٹّی کی سونا اگلتی زمینیں نمک کی نذر ہوگئیں۔ اس علاقے پر بدنصیبی کی آندھی نے اس وقت شدّت اختیار کرلی، جب سمندر نے آگے بڑھنے کی ابتدا کی۔ وہ زمینیں جہاں کبھی عمدہ فصلیں اگتی تھیں اور پھلوں کے باغات تھے، اب وہاں کیچڑ اور سمندر کا کھارا پانی ہے، گاؤں کے گاؤں سمندر کی نذر ہورہے ہیں اور کئی عشروں سے نقل مکانی ہورہی ہے۔

مارچ 2001ء کی ایک رپورٹ کے مطابق سمندر کے اپنی حدود سے آگے بڑھ آنے کی وجہ سے اس وقت تک سندھ کے صرف دو ساحلی اضلاع ٹھٹھہ اور بدین کی 8 ساحلی تحصیلوں میں 12 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلی ہوئی زرعی اراضی سمندر برد ہوچکی تھی، تقریباً 25 ہزار افراد بے گھر ہوگئے تھے اور صوبے کو ایک ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا تھا۔ 

حکومتِ سندھ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سمندر برد ہونے والی اراضی 450,000 ایکڑ سے زائد تھی اور اس کا دائرہ ٹھٹھہ اور بدین کی 8 سے زائد تحصیلوں کے 72 دیہہ تک پھیلا ہوا تھا۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مذکورہ بالا تحصیلوں کے دیگر87دیہہ میں سمندری پانی نے تقریباً 501000 ایکڑ اراضی کو خاصی حد تک نقصان پہنچایا تھا اور مقامی لوگوں کو خوراک اور پینے کے پانی کی تلاش میں دوسرے مقامات کا رخ کرنے پر مجبور کردیا تھا۔

اسپیشل ایڈیشن سے مزید