• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگست1947ءکو وجود میں آنے والا پاکستان پہلے ہی ربعہ میں آئین سے محروم رہنے کے بعد متفقہ دستور (1956ء)کے نفاذ کے ایک سال بعد ہی انعقاد انتخاب کی بجائے مارشل لاء لگنے سے 24 سال میں ہی مختلف سیاسی المیوں کا حامل ہوتا 24سال میں ہی دولخت ہو گیا۔مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔آج پچاس سال بعد موجود باقیماندہ دستوری (1973ء)والا پاکستان بھی آئین کے ادھورے اطلاق، عشروں کے تعطل اور مختلف اشکال میں حکمرانوں کی بدسلوکی کے بعد آج لنگڑی پارلیمان اور مکمل شعوری اور مکارانہ سیاسی حربوں سے منقسم ہوئی عدلیہ کا حامل ہے، پوری قوم، آئین و قانون پرست ججز کے اکثریتی گروپ ، نامور آئینی و قانونی ماہرین اور جمہور پاکستان تحفظ آئین کی کمال قومی جہد میں مصروف عمل اور سراپا احتجاج ہیں۔ یہ پرامن فوری جہاد عظیم ایک ایسے ماحول میں گزشتہ ایک سال سے جاری ہے عوام دشمن رجیم انتہائی مہنگائی اور بنیادی حقوق کی سنگین حکومتی خلاف ورزیوں سے قوم پر عذاب بن کر مسلط ہے۔مسلط اولاگرکی (دولت راج) ٹولہ جمہوری ارتقا کے نتیجے میں متروک سیاسی ہتھکنڈے ہارس ٹریڈنگ اور سازشوں سے ادھر ادھر کی مداخلت کا ماحول بنا کر معمولی مارجن سے اچھی بھلی چلتی اکثریتی حکومت کو اس کے قیام کے ساڑھے تین سال بعد ہی اکھاڑنے میں ’’کامیاب‘‘ ہوا ۔ اس کی ہوس اقتدار اور مفاد پرستانہ سیاست یہاں ٹھہری نہیں، اسلام آباد پر ملکی تاریخ کی بدترین اور عوام کو اضطراب و تشویش میں ڈبو کر پاکستانی اقتدار و اختیار کی بیک بون، پنجاب پر حملہ ہو کر صوبہ اچکنے میں وقتی کامیابی حاصل کر سکی لیکن اکثریتی پارلیمانی طاقت کی مزاحمت لڑکھڑاتی حمزہ وزارت چند ہفتوں میں ہی ڈھیر ہو گئی ۔واضح رہے کہ مرکز کے اکثریتی پارلیمیانی قوت چمک سے اپنے پانچ سات اراکین کے ’’لوٹے‘‘ ہونے پر اقتدار سے محروم ہوتے ہی ہارس ٹریڈنگ کی بحالی سے اپنی حکومت ختم ہونے پر احتجاجاً منتخب ایوان چھوڑ کر عوام میں آ گئی ۔پنجاب میں اولاگرکی حملوں کا ہر طرح مقابلے کرتے ملک کے جمبوں سائز ضمنی انتخابات میں عوام کی بھرپور تائید سے ملک کے ہر علاقے میں پارلیمانی برتری ثابت کرنے میں بار بار کامیاب ہوئی تو اولاگرکی ٹولے کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ پنجاب پر چمک حملوں کی تیاری کرنے انہوں نے صوبے پر بھی اقتدار کی ٹھان لی۔

پاکستانیو!ہر طبقے اور عمر کے شہری اپنے ذہن میں بٹھا لو کہ پاکستان 51سال قبل وقت کے اولاگرکی ٹولے کی انتخابی عمل سے وجود میں پارلیمانی اکثریتی طاقت کے حصول اقتدار میں رکاوٹ بن جانے سے دولخت ہوا تھا اس وقت اس کی طاقت چمک اور فسطائی حربے نہیں بلکہ صوبائی اور علاقائی تعصب تھا جس نے مغربی پاکستانی پارلیمانی منتخب سول طاقت کا اقتدار سے باہر رہنا برداشت نہیں کیا اور انتہائے غیر ذمے دار ملٹری ،سول گٹھ جوڑ سے ملک توڑا ہی نہیں فوج اور عوام کے مورال کو زمین سے لگا دیا ۔ آج کی اسٹیبلشمنٹ ہوشیار رہے آج چمک والا اولاگرکی ٹولہ یہ تاثر عام کرنے میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے کہ وہ پھر اک مرتبہ جیسے ملکی منظم طاقت کی اشیر باد سے سرفراز ہے ۔سپریم کورٹ کے 90دن میں تحلیل اسمبلی کے انتخاب کرانے کے عین آئینی فیصلے کی تشریح جس طرح حکومتی ٹولے نے کرکے اس کا چیختا چنگھاڑتا پروپیگنڈہ کیا اور جس طرح پیمرا کا ٹول خلاف آئین و قانون استعمال کرکے سیاسی مخالفین کی آواز کو دبانے کی ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں اس نے آئین پاکستان کے اطلاق کو کھلا چیلنج کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ جس پر تمام جج صاحبان کا کامل اتفاق ہے کہ فیصلہ تو یہ ہی درست اور آئینی ہے انہیں بینچ کی تشکیل اور نمبروں کی شعبدہ بازی اور اختلافی نوٹ کو ’’فیصلہ‘‘ قرار دے کر جو گند گھولا گیا اس کو میڈیا پر نارواں دبائو سے قائم دائم کرنے کے مذموم حربے جاری ہیں جو فائر بیک ہو رہے ہیں ۔اولاگرکی ٹولے کی فنکاری ملاحظہ ہو کہ انہوں نے بینچ کی تشکیل اور قانون سے ماورا فیصلے کی من مانی تشریح خود کرکے منوانے کی ہی جسارت نہیں کی پوری سپریم کورٹ کے جیوڈیشل اسٹرکچر کو بھی ایک اور چودہ میں تقسیم کر دیا بقول فاضل سینئر جج جناب جسٹس فائز عیسیٰ کے انہیں چکمہ دے کر جشن آئین کی پارلیمان میں ہونے والی تقریب میں مدعو کرکے دھوکہ دیا گیاوہاں انہیں جس ڈیکورم کے ساتھ نشست دی گئی اس سے جج صاحب کو اولاگرکی جلو میں دیکھ کر رائے عامہ میں جج صاحب کی پوزیشن اورساکھ پر کتنے ہی سوال پیدا کردیئے وہ خود اس پر فکرمند ہو گئے ۔لیکن اپنے ہم خیال ساتھی جو دعوت کے باوجود حسب روایت اولاگرکی ہجوم میں جانے سے محفوظ رہے کیوں جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کو لنگڑی پارلیمان کا رخ نہ کرنے میں ان کے معاون نہ بنے؟اس سے جج صاحبان کی سیاسی محفلوں اور سایے سے محفوظ رہنے کی اعلیٰ روایت ٹوٹ گئی ۔کتنی فنکار ہماری اولاگرکی ؟اور یہ فل بینچ فل بینچ کی چیخ پکار پی ڈی ایم اور ان کے ہمرکاب ماہرین آئین نے ٹی وی اسکرینوں پر شام کی منڈیوں میں مچائی ہوئی ہے اگر ایسا بینچ دھما چوکڑی اور دبائو سے بن ہی گیا اور کوئی فیصلہ7/8سے آئین نوازوں کی حمایت میں آگیا تو پھر کیا گارنٹی ہے کہ اس فیصلے کو بھی ’’ون مین شو‘‘ قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ یہ فیصلہ بھی تو مخالف جانب ایک ہی جج کے فیصلے سے اتفاق پر بیس کرے گا ؟امر واقع یہ ہے کہ پاکستانی اولاگرکی نے پارلیمان میں جس طرح کی فقط خود کو احتساب و سزا سے بچانے کی ٹیلر میڈ قانون سازی کی جس طرح زیر سماعت مقدمات اور فیصلوں کے دوران اور آنے پر قانون ہی نہیں عدلیہ کے رول آف بزنس کا اختیار اپنی فرمائش اور مطالبوں سے جوڑ کر اس پر سرکاری وسائل سے اودھم مچایا ہوا ہے وہ اولاگرکی سیاسی و حکومتی نظام بد کی سب سے کامیاب اور کمال حربوں سے کام نکالنے کی پاکستان نہیں موجود دنیا نے سیاست و حکومت میں سب سے بڑی اور کثیرالجہت ریسرچ ایبل کیس ا سٹڈی ہوئی جو عوام دشمن اور آئین سے ٹکرانے والوں کی بدترین مثال کے طور پر حوالہ بنے گی۔

تازہ ترین