سولہ دسمبر کا دن گزر چکا ہے اسے ہماری قومی تاریخ میں سیاہ ترین دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس دن پاکستان دولخت ہو گیا تھا۔ برسوں پہلے 16دسمبر کے بعد جو شام آئی تھی اس کے آنگن میں غم اور اداسی تھی۔ اس شام چراغ بجھ گئے تھے۔ ہمارے دشمن بھارت نے ایک خطرناک کھیل کے ذریعے ہمارے وجود کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا تھا۔ صاحبو! آج میں صرف دو تین باتوں پر بات کروں گا۔ اس میں 1971ء سے پہلے والی پاکستانی سیاست پر بات ہوگی، پھر جو سیاست آج ہو رہی ہے، کچھ اس پر لکھوں گا اور چند باتیں دفتر خارجہ کی نئی ترجمان تسنیم اسلم کے بارے میں ہوں گی کہ وہ دوسری مرتبہ دفتر خارجہ کی ترجمان بنی ہیں۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان کے خلاف سازشوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ پہلی سازش کا شاخسانہ مائونٹ بیٹن کی بھارت نوازیوں کے باعث ہوا۔ پاکستان کو وہ بہت سے علاقے نہ مل سکے جہاں مسلم اکثریت تھی۔ کشمیر بھی ایک سازش کے تحت بھارتی قبضے میں دیا گیا۔ یہ بھی بدقسمتی تھی کہ قائداعظمؒ کی وفات ایک سال بعد ہو گئی۔ ان کی موت کے پس پردہ بھی کئی سازشیں تھیں۔ سازشوں کا ایک جال قیام پاکستان کے ساتھ ہی بنگال میں بچھ گیا تھا۔ وہاں کے پروگریسو لوگوں نے 1948ء میں یہ مطالبہ کر دیا تھا کہ بنگالی کو ریاست کی زبان بنایا جائے۔ اس تحریک کو عروج 21 فروری 1952ء کو اس وقت ملا جب پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کچھ لوگ مارے گئے۔ وہ مسلم لیگ جو بنگال میں بہت مضبوط ہوا کرتی تھی، 1954ء میں کمزور ہو گئی۔ وہاں دوسری جماعتیں طاقت پکڑنے لگیں۔ 1963ء میں حسین شہید سہروردی کی وفات کے بعد عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمن کے ہتھے چڑھ گئی اور مجیب الرحمن بھارت کے ہتھے چڑھ گیا، یہیں سے کام خراب ہوا۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات نے ملک کو دولخت کر دیا حالانکہ 1970ء کے انتخابات کے بعد 11جنوری 1971ء کو یحییٰ خان، بھٹو سے ملنے کیلئے لاڑکانہ بھی گئے لیکن اس وقت کیا ہو سکتا ہے جب سیاست میں سازش شامل ہو۔ اس کی ایک مثال اس طرح ہے کہ شیخ مجیب الرحمن، ایک ماہر تعلیم محمد علی رضا کے ساتھ مشرقی بھارت کے شہر اگرتلہ میں کیا لینے گیا تھا۔ اگرتلہ، تری پورہ کی سیر کرنے کو جب آئی ایس آئی کے کرنل شمس العالم نے بے نقاب کیا تو بنگال رجمنٹ کے رئوف الرحمن نے کرنل عالم کی زندگی چھیننے کی کوشش کی، مگر بہادری سے دفاع کرنے والا کرنل بچ گیا اور پھر اسے ستارۂ بسالت دیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے 1966ء میں چھ نکات لاہور میں پیش کئے تھے۔ جب کبھی بھی پاکستان کے دولخت ہونے کی بات ہو گی تو مکتی باہنی کا ذکر ضرور آئے گا، جس کے سربراہ پاک فوج کے ایک سابق آفیسر کرنل ایم اے جی عثمانی تھے۔ مکتی باہنی علیحدگی پسندوں کی وہ فورس تھی جس میں ایک لاکھ افراد شامل تھے اور پاکستان کی فوج وہاں اس کے نصف سے بھی کم تھی پھر بھارت مغربی بنگال، آسام اور تری پورہ سے مکتی باہنی کی پوری مدد کر رہا تھا۔ مکتی باہنی کے بارے میں حقائق جاننے کیلئے شرمیلا بوسے کی کتاب پڑھی جا سکتی ہے یا پھر بنگلہ دیش تحریک کے ایک رہنما ڈاکٹر ایم عبدالمعنیم چوہدری کی کتاب میں بھی کافی کڑوے سچ ہیں، جو انہوں نے 1996ء میں بولے ہیں۔ ایک اور صاحب نے بھی سچ سے گریز نہیں کیا۔ ان کا نام کرنل اختر حسین ہے جو بنگلہ دیش میں پہلے ضیاء الرحمن کی کابینہ میں وزیر تھے، پھر خالدہ ضیاء کی کابینہ کا حصہ تھے۔ ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج تو وہاں بالکل ظالم نہ تھی چونکہ جب فوج نے آپریشن شروع کیا تو مکتی باہنی کے ایک لاکھ مسلح افراد کے علاوہ مشرقی بنگال رجمنٹ، مشرقی بنگال رائفلز، پولیس اور دیگر فورسز کے علاوہ طالب علموں اور دیگر سرگرم کارکنوں نے پاکستانی فوج کی مخالفت شروع کر دی اور یہ مخالفت عملی جدوجہد کے روپ میں تھی۔ آپ پاکستانی فوج کی تعداد کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ بیانوے ہزار جنگی قیدیوں میں سے چالیس ہزار فوج کے تھے، باقی سویلینز تھے۔ ان میں ریلوے، ڈاک، پی آئی اے اور دیگر محکموں کے لوگ شامل تھے، بعض کاروباری افراد بھی تھے۔
مکتی باہنی کو بھارت کی مدد سے کامیابی مل گئی اور جب بنگلہ دیش کی فارمیشن ہوئی تو مکتی باہنی کے سربراہ کرنل ایم اے جی عثمانی کو بنگلہ دیش کی تمام فورسز کا کمانڈر انچیف بنایا گیا اور انہیں جرنیل بنا دیا گیا۔ آج بنگلہ دیش ایک الگ ملک ہے اور ہم مغربی پاکستان، پورے پاکستان کے طور پر ایک ملک ہیں۔ پاکستان سے محبت کرنا پتہ نہیں کہاں کہاں جرم بن جاتا ہے۔ آج بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں، تو آج ہمارے پیارے پاکستان میں وطن کی مخالفت کرنا فیشن بن چکا ہے۔ اگرچہ یہ فیشن بہت کم لوگوں میں ہے۔ آج بھی ہمارا دشمن بھارت ہمارے ہاں زندگی کے مختلف شعبوں کے افراد کے ذریعے بہت کچھ کر رہا ہے۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے اور تاریخ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ 1970ء سے پہلے پاکستانی سیاست میں دولت کا کھیل نہیں تھا، کرپشن نہیں تھی، مگر آج کی سیاست کرپشن کا گڑھ بن چکی ہے۔ اسی طرح تاریخ کا سبق ہے کہ اپنی صفوں میں سے دشمنوں کی پہچان ضرور رکھو بلکہ ان پر نگاہ رکھو اگر ہو سکے تو ان کی افزائش سے پہلے ہی انہیں ختم کر دو کہ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔
سیاست کی بے رحمی ایک مرتبہ پھر مخدوم جاوید ہاشمی پر وار کرنے والی ہے۔ یہ 2010ء کا واقعہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے کہنے پر میں ہاشمی صاحب کے پاس حاضر ہوا کہ آپ مسلم لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں کیونکہ ن لیگ آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گی۔ ہاشمی صاحب نے سوچنے کیلئے وقت لیا اور پھر جواب دے دیا کہ ’’نہیں، مجھ سے بڑھاپے میں یہ ظلم نہ کرائو‘‘۔ میں نے کہا ’’اوکے‘‘ پھر پتہ نہیں ن لیگ نے ان کے ساتھ کیا کیا کہ وہ تحریک انصاف کی نذر ہو گئے۔ آج ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن کے کچھ افراد جاوید ہاشمی پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ ن لیگ میں واپس آ جائیں۔ سنا ہے کہ ہاشمی صاحب کے دل میں بھی کچھ محبت ن لیگ کی جاگ اٹھی ہے۔ میں اس مرحلے پر بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ روز روز پارٹیاں بدلنا اچھی بات نہیں ہے۔
آخر میں کچھ بات دفتر خارجہ کی نئی ترجمان کے بارے میں ہو جائے۔ راولا کوٹ کشمیر کی رہنے والی تسنیم اسلم، قائداعظمؒ یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہیں۔ تسنیم اسلم، جنرل مشرف کے دور میں بھی دفتر خارجہ کی ترجمان تھیں۔ یہ خوبرو خاتون روحانیت پر بہت یقین رکھتی ہیں۔ وہ صاحبہ مرشد ہیں۔ موسیقی پر انہیں دسترس حاصل ہے۔ نفاست ان کے ہاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ چند ماہ پیشتر ہی وہ مختلف ملکوں میں سفارت کاری نباہ کر آئی ہیں۔ وہ جہاں بھی گئیں، پاکستان کا نام بلند کرنے کی کوشش کی۔ مطالعہ تسنیم اسلم کی زندگی کا خاصا ہے۔ آکر میں معروف شاعرہ ڈاکٹر صغریٰ صدف کا خوبصورت شعر آپ کی نذر
میرے لئے تو زندگی جنگل کی رات تھی
پر اس کی یاد نے مجھے ڈرنے نہیں دیا