سپریم کورٹ آ ف پاکستان نے ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواستوں پر سماعت کے دوران سیاسی جماعتوں کو آج ہی مذاکرات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 27 اپریل تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے آج بھی سماعت کا آغاز قرآنِ کریم کی آیت سے کیا اور دعا کی کہ مولا کریم لمبی حکمت دے تاکہ صحیح فیصلے کر سکیں، ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر اور ہمارے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سراج الحق صاحب تشریف لائے ہیں، آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے نیک اور اچھا کام شروع کیا، اللّٰہ تعالیٰ اس کام کو کامیاب کریں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ شاہ محمود قریشی صاحب بھی تشریف رکھتے ہیں، شاہ محمود صاحب! آپ روسٹرم پر آ جائیں۔
چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی سے استفسار کیا کہ آپ سپریم کورٹ کی تجویز سے اتفاق کرتے ہیں؟
شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ ملک کو آئین کی بالادستی سے آگے بڑھنا ہے، اس نے ہمیشہ آئین پر عمل کیا ہے، سپریم کورٹ جو بھی حکم کرے قبول ہو گا، ہمیشہ آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟
اٹارنی جنرل کمرۂ عدالت میں پہنچ گئے اور کہا کہ ہم سمجھے تھے کہ سماعت ساڑھے 11 بجے ہے، معذرت چاہتا ہوں، آنے میں تاخیر ہوئی، حکومتی شخصیات کچھ دیر میں عدالت پہنچ جائیں گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم 15 منٹ بعد سماعت کر لیتے ہیں، تب تک سب لوگ آ جائیں، حکومتی شخصیات پہنچ جائیں پھر سماعت کا آغاز کرتے ہیں، مہمانوں کے لیے ہم نے کرسیاں بھی لگوا دی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سیاسی قائدین کے آنے تک سماعت میں وقفہ کر رہے ہیں۔
جس کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کر دیا۔
وقفہ اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان کی درخواست پر کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں انتخابات ایک ساتھ کرانےکی درخواستوں پر وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار سردار کاشف کے وکیل شاہ خاور روسٹرم پر آ گئے۔
وکیل شاہ خاور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ امید ہے تمام سیاسی جماعتیں ایک نکتے پر متفق ہو جائیں گی، ایک ہی دن انتخابات سے سب مسائل حل ہوجائیں گے۔
’’صفِ اوّل کی سیاسی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے‘‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عدالت کے ذریعے احکامات جاری کریں تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی جماعتیں افہام و تفہیم سے معاملات طے کرتی ہیں تو برکت ہوتی ہے، آج رمضان کی 29 ویں رات ہے، آج اپنا نیک کام شروع کر رہے ہیں، سب سے پہلے حکومت کو سنتے ہیں، ایک ساتھ انتخابات کے ون پوائنٹ ایجنڈے کا بتائیں، انتخابات ایک ساتھ ہونے پر باری باری تمام سیاسی جماعتوں کو سنتے ہیں، سیاسی قائدین کے تشریف لانے پر مشکور ہوں، صفِ اوّل کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے۔
’’آصف زرداری کے مشکور ہیں کہ ہماری تجویز سے اتفاق کیا‘‘
قوم میں اضطراب ہے، قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا، وزارتِ دفاع نے بھی عمدہ بریفنگ دی، اٹارنی جنرل کو ایک ساتھ انتخابات کے معاملے پر دلائل دینا تھے لیکن وہ سیاست کی نذر ہو گئے، فاروق ایچ نائیک نے بھی کہا تھا کہ ایک ساتھ انتخابات ہوں، ہم نے فاروق نائیک صاحب سے کہا تھا کہ ہمارا بائیکاٹ تو نہ کریں، اخبار میں سابق صدر آصف زرداری کا بیان پڑھا، آصف زرداری کے مشکور ہیں انہوں نے ہماری تجویز سے اتفاق کیا، بڑی بات یہ ہے کہ ن لیگ نے بھی تجویز سے اتفاق کیا ہے۔
فاروق نائیک نے کہا کہ حکومتی جماعتوں کا پہلے بھی یہی مؤقف تھا کہ ایک ساتھ انتخابات ہونے چاہئیں، 90 دن کا وقت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں ایکسپائر ہو چکا، حکومتی جماعتیں ایک ہی دن انتخابات کے معاملے پر مشاورت کر رہی ہیں، بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات بھی کی، آصف زرداری بھی اتحادیوں سے مشاورت کر رہے ہیں، عید الفطر کے فوری بعد اتحادیوں سمیت پی ٹی آئی سے سیاسی ڈائیلاگ کریں گے، ایک ہی روز انتخابات سے پرُامن اور صاف شفاف انتخابات ممکن ہوں گے، سیاسی جماعتوں کو مسائل مل بیٹھ کر حل کرنے چاہئیں، پی ٹی آئی سے مذاکرات کریں گے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو، ہماری کوشش ہو گی کہ ان ڈائیلاگ سے سیاسی اتفاقِ رائے پیدا ہو۔
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق روسٹرم پر آ گئے جنہوں نے کہا کہ بہت مشکل ماحول ہے، مگر پاکستان کے عوام کی تقدیر کا مسئلہ ہے، ہم یقین رکھتے ہیں کہ مقابلے کے بجائے مکالمہ کرنا چاہیے، ہماری جماعت ایک روز انتخابات اور ڈائیلاگ کے لیے تیار ہے، ہم نے عید کے بعد اپنے رہنماؤں کا اجلاس بلایا ہے، اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر انتخابات کا حل نکالنے کے لیے تیار ہیں، ہم سیاست دانوں کی آپس میں دوستی ہے۔
’’جھگڑے دکھانے میں سوشل میڈیا کا ہاتھ ہے‘‘
چیف جسٹس نے کہا کہ جھگڑے دکھانے میں سوشل میڈیا کا بھی ہاتھ ہے۔
سردار ایاز صادق نے عدالت کے روبرو کہا کہ بی این پی مینگل والے چاغی میں ہیں، سیاست اپنی جگہ مگر سب اچھے اکٹھے لگتے ہیں، بی این پی مینگل کے لوگ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، ساتھ بیٹھیں گے تو راستہ نکل آئے گا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ قمر زمان کائرہ بات کریں گے جو حکومتی کمیٹی کا حصہ بھی ہیں۔
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں، ملک میں تلخی بہت بڑھی ہوئی ہے، ہماری جماعت نے سب سے پہلے اتحادی جماعتوں سے مشاورت کا آغاز کیا، ہمیں یقین ہے کہ سیاسی قوتیں بیٹھ کر سب تلخیاں ختم کریں گی، سپریم کورٹ کے شکر گزار ہیں جس نے مذاکرات کی تجویز دی، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ملک کی سلامتی کے لیے بات کی۔
مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ مجھے چوہدری شجاعت نے آج عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی، ہم تو پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ ایک ہی دن میں الیکشن ہو، ہر صورت ایک دن انتخابات کو سپورٹ کریں گے، چیف جسٹس صاحب! آپ نے صحیح فرمایا کہ سیاسی لوگ خود معاملہ حل کریں۔
ایم کیو ایم کے رہنما انجینئر صابر قائم خانی نے روسٹرم پر آکر کہا کہ ہماری جماعت نے ہمیشہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا احترام کیا، عدالت کے ساتھ کھڑے ہیں، جو سب مل کر فیصلہ کریں گے قبول ہو گا، عید کے بعد امید ہے کہ سب مسائل کا حل نکل آئے گا، ایک ساتھ انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے ڈائیلاگ کے حامی ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اسرار اللّٰہ ترین نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہئیں، ایک ہی دن انتخابات سے سیکیورٹی سمیت سب مسائل حل ہو جائیں گے، انتخابات ایک دن ہونا ضروری ہیں ورنہ بلوچستان چھوٹے صوبے کے طور پر متاثر ہو گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے شاہ محمود قریشی کو دوبارہ روسٹرم پر بلاتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود قریشی صاحب! آپ آ جائیں۔
شاہ محمود قریشی نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی ایک سیاسی رائے ہے اور ایک قانونی رائے ہے، قانونی رائے میں آئین کے تحت 90 دن میں انتخابات لازم ہیں، تحریکِ انصاف صرف انتخابات چاہتی ہے، میری جماعت انتخابات کے لیے تیار ہے، سیاسی معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے ساتھ دیں گے، پی ڈی ایم نے کہا تھا کہ پنجاب اسمبلی توڑیں ہم قومی اسمبلی توڑ دیں گے، پی ڈی ایم کے کہنے پر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیں، پی ڈی ایم نے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا، قانونی راستہ تو واضح ہے، اب ہمیں سیاسی راستہ بھی دیکھنا ہے، حکومت نے فنڈز سمیت کئی مسائل کا عدالت کو بتایا، مسلم لیگ ن اپنے مؤقف سے مکر گئی، تحریکِ انصاف ہمہ گیر مذاکرات کے لیے تیار ہے، آئین کے اندر رہتے ہوئے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا، عدالتی فیصلے پر عمل درآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا، تلخی کی بجائے آگے بڑھنے کے لیے آئے ہیں، سیاسی قوتوں کو مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے، مذاکرات تو کئی برس چل سکتے ہیں، جیسے کشمیر کا مسئلہ، ہمیں خدشہ ہے کہ حکومت انتخابات کو طول دینا چاہتی ہے، ہمیں ڈر ہے کہ مذاکرات طول پکڑیں گے، سپریم کورٹ کے 14 مئی کے فیصلے کو قوم نے قبول کیا ہے، حکومت ہمیں پروپوزل دے، دیکھیں گے، نیک نیتی سے راستہ نکالیں گے، موجودہ ملکی حالات کا ہمیں احساس ہے، سپریم کورٹ نے 27 اپریل تک فنڈز فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے، حکومت سپریم کورٹ کے حکم پر فنڈز فراہم نہیں کر رہی، پارلیمنٹ کی قرار داد سے ملک کو چلانا ہے تو انارکی پھیلے گی، مناسب تجاویز دی گئیں تو راستہ نکالیں گے، ہم انتشار چاہتے ہیں نہ آئین سے انکار چاہتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما سعد رفیق نے دوبارہ روسٹرم پر آ کر کہا کہ عدالت کو ڈیبیٹ کلب نہیں بنانا چاہتے، مل بیٹھیں گے تو سوال جواب کریں گے، عدلیہ اور ملک کے لیے جیلیں کاٹی ہیں، ماریں بھی کھائی ہیں، آئینی مدت سے ایک دن بھی زیادہ اقتدار میں رہنے کے طلب گار نہیں ہیں، ہم ملک بنانے والوں کی اولادیں ہیں، شاہ محمود قریشی کی کسی بات سے اتفاق نہیں کرتے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے بھی دوبارہ روسٹرم پر آ کر کہا کہ تلخ باتیں عدالت میں نہیں ہونی چاہئیں، اپنے پارلیمنٹ کے فورم پر سیاسی تقریریں کریں گے، آئین کے خلاف کوئی کام نہیں ہونے دیں گے، انتخابات کو طول دینے کی کوئی بات نہیں ہے، عدالت کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ آئینی مدت سے اوپر وقت ضائع نہیں کریں گے، ٹو پلس ٹو نہیں ہوتا، مل بیٹھ کر حل نکالنا ہوتا ہے، عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں کرنا چاہتے، ملک میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے اور مقررہ تاریخ سے آگے بھی گئے، آئین بنانے والے ہی اس کے محافظ ہیں، آئین سے باہر جانے والوں کے ہمیشہ سامنے کھڑے ہوں گے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو روسٹرم پر بلا لیا۔
شیخ رشید نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ سب سے پرانا سیاسی ورکر ہوں، ساری قوم سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے، عدالت کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہو گا، یہ نہ ہو کہ مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عید اکٹھی ہو جائے، ساری قوم آپ کو سلام پیش کرتی ہے، سیاستداں مذاکرات کا مخالف نہیں ہوتا لیکن مذاکرات بامعنی ہونے چاہئیں، جو مذاکرات کا مخالف ہے اس شخص نے آج عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل کے ٹوکنے پر شیخ رشید برہم ہو گئے اور کہا کہ میں نے کسی کا نام لے کر نہیں کہا کہ کس نے بائیکاٹ کیا ہے۔
عدالت کی اجازت سے امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان سراج الحق نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ قوم کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں، کل پاک افغان بارڈر پر تھا، پوری رات سفر کر کے عدالت پہنچا ہوں، قرآن کریم کی تلاوت سے عدالتی کارروائی کا آغاز کرنے پر بھی مشکور ہوں، اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو، یکسوئی ہو جائے تو اللّٰہ پر اعتماد کرو، مذاکرات کرنا آپشن نہیں اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہے، انتخابات صرف 2 جماعتوں کا نہیں پوری قوم کا مسئلہ ہیں، الیکشن صرف ایک لیڈر یا جماعت کے کہنے پر نہیں ہونا چاہئیں، پوری قوم کے مفاد کو دیکھتے ہوئے انتخابات کا فیصلہ ہونا چاہیے، آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے، آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے، دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے، 1977ء میں نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور احتجاج شروع ہو گیا، 1977ء میں سعودی سفیر اور امریکی سفیر نے مذاکرات کی کوشش کی تھی، مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لاء لگ گیا تھا، 90ء کی دہائی میں ن لیگ اور پی پی کی لڑائی سے مارشل لاء لگا، آج ہمیں اسی منظر نامے کا سامنا ہے، امریکا ایران اور سعودی عرب اب پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے۔
سراج الحق نے عیدالاضحیٰ کے بعد مناسب تاریخ پر انتخابات کرانے کی تجویز دے دی اور کہا کہ اپنا گھر خود سیاستدانوں کو ٹھیک کرنا ہے، نیلسن منڈیلا کے ساتھ 30 سال لڑائی کے بعد مذاکرات کیے گئے، نیلسن منڈیلا نے اپنے ایک بیٹے کا نام ڈیکلار رکھا، پاکستان جہموری جدوجہد کے نتیجے میں بنا کسی جنرل نے نہیں بنایا، آمریت نہ ہوتی تو ملک نہ ڈوبتا، خیبر پختون خوا میں کسی نے پی ٹی آئی سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر عوام حیران ہیں، خیبر پختون خوا والوں نےخلافِ روایت دوسری بارپی ٹی آئی کو ووٹ دیا، ہم نہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں نہ پی ڈی ایم کے ساتھ، میں نے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور عمران خان سے ملاقات کی، مسائل کا حل صرف الیکشن ہیں اور کوئی راستہ نہیں، عمران خان کو کہا کہ نہیں چاہتا کہ ملک میں مزید 10 سال مارشل لاء لگے، عمران خان نے کہا کہ میری عمر اس سے زیادہ نہیں، میں بھی یہ نہیں چاہتا، کسی کی ذاتی خواہش پر الیکشن نہیں ہو سکتے، 90 دن سے الیکشن 105 دن پر آ گئے، اگر 105 دن ہو سکتے ہیں تو 205 دن بھی ہو سکتے ہیں، میڈیا نے پوچھا کیا اپ کو اسٹیبلشمنٹ نے اشارہ کیا ہے، عدلیہ، افواج اور الیکشن کمیشن کو سیاست سے دور ہونا چاہیے، ہر کسی کو اپنے مؤقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا، مسائل کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن غیر سیاسی نہیں ہوئے، سیاسی جماعتیں کبھی الیکشن سے نہیں بھاگتیں، ہمارا مؤقف کبھی ایک کو اچھا لگتا ہے کبھی دوسری جماعت کو، سیاسی لڑائی کا نقصان عوام کو ہے جو ٹرکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، ایک کلو آٹے کے لیے لوگ محتاج ہیں، ایک من آٹے کی قیمت 6500 روپے ہو گئی ہے، لوگوں کے چہرے سے مسکراہٹ ختم ہو چکی ہے، پی ٹی آئی کہتی ہے نگراں حکومتوں نے ڈسا ہے تو منتخب حکومت کیسے شفاف انتخابات کرا سکتی ہے؟
سراج الحق نے چیف جسٹس سے سوال کیا کہ آپ پنجاب کے رہنے والے ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے پشتو میں جواب دیا کہ پشتو سمجھتا ہوں، ہم پر لیبل نہ لگائیں، ہم پاکستانی ہیں۔
سراج الحق نے کہا کہ گندم کی کٹائی اور حج کا سیزن گزرنے دیا جائے، بڑی عید کے بعد مناسب تاریخ پر الیکشن ہونا مناسب ہو گا، عدالت یہ معاملہ سیاست دانوں پر چھوڑے اور خود کو سرخرو کرے، عدالت پنجاب میں الیکشن کا شیڈول دے چکی ہے، سیاستدان اتنے اہل ہیں کہ ان معاملات کا حل کر سکیں۔
فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، سپریم کورٹ نے 20 اپریل تک الیکشن کمیشن کو انتخابی نشان دینے کا حکم دیا، الیکشن کمیشن کو انتخابات کا عمل اپریل میں مکمل ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے الیکشن کمیشن کو تاریخ آگے بڑھانے کی اجازت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن تاریخ نہیں بڑھا سکتا، پارٹی ٹکٹ کے لیے وقت میں اضافہ کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 13 دن کی تاخیر ہوئی تب عدالت نے حکم دیا، الیکشن کمیشن شیڈول میں تبدیلی کے لیے بااختیار ہے، پولنگ کا دن تبدیل کیے بغیر الیکشن کمیشن شیڈول تبدیل کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن رجوع کرے، عدالت مؤقف سن لے گی، ابھی تو کل کا دن بھی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ رات 11 بجے عید اور رمضان کا اعلان ہوجاتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے اپنا 14 مئی کا فیصلہ قائم رکھنا ہے، سپریم کورٹ کا 14 مئی کا فیصلہ قائم ہے اور نہیں بدلے گا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست نہیں آئی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف وزارتِ دفاع کی درخواست مذاق لگی، ہم آج بھی سب کو سننے کے لیے تیار ہیں، کل بھی عید نہ ہوئی تو سن لیں گے، سپریم کورٹ کا 14 مئی کا انتخابات کا فیصلہ واپس نہیں ہو گا، پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے، 1970ء اور 71ء کے نتائج سب کے سامنے ہیں، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سراج الحق، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے، بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے، اِن کیمرا بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی، حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی، کوئی رکنِ اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا، کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا، مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی، دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، گزارش ہو گی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں، آج بیٹھیں، جولائی میں بڑی عید ہو گی اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں، عید الاضحیٰ کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے۔
چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں کو آج ہی مذاکرات کرنے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عید کے دوران بھی مولانا فضل الرحمٰن سے بات کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ بلاول بھٹو نے اچھی کوشش کی ہے، توقع ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن بھی لچک دکھائیں گے، عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی، عدالتی فیصلے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے، عدالتی فیصلے ہٹانے کا طریقہ کار ہے، وہ 30 دن بھی گزر گئے، آج ظہر کے بعد پیش رفت سے آگاہ کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو بذریعہ چٹھی آئین کی گولڈن جوبلی پر مبارک باد دی، اسپیکر قومی اسمبلی سے معذرت کی کہ تقریب میں شرکت نہیں کی کیونکہ گوشہ نشین لوگ ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم ایک چیز واضح کر دیں کہ آپ لوگ پولنگ کی تاریخ آگے نہیں بڑھا سکتے، سپریم کورٹ پولنگ کی تاریخ آگے بڑھانے کا اختیار رکھتی ہے۔
عدالت نے سیاسی جماعتوں کو 4 بجے تک مذاکرات کا وقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 27 اپریل تک ملتوی کردی۔