• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن تاریخ، سیاسی جماعتیں چاہیں تو گنجائش نکال سکتے ہیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد (رپورٹ، رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ میں ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانےکی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کیساتھ ہے، عسکری حکام کی بریفنگ زبردست تھی،اس سے پتہ چلا اصل صورتحال کیا ہے، نگران حکومت 90 دن سے زیادہ رہنے پر سوال اٹھتا ہے، سیاسی عمل آگے نہ بڑھا تو الیکشن میں تصادم ہوسکتا ہے، ایک ہی دن انتخابات کرانے کی شہری کی درخواست میں وزن ہے،اٹارنی جنرل عدالتی حکم عدولی کے نتائج سے متعلق حکومت کو آگاہ کریں تاکہ اسکا تدارک ہو سکے اور حکومت انتخابات کے انعقاد کیلئے 27ا پریل تک 21 ارب روپے جاری کردے، الیکشن کمیشن کوکیوں لگتا اب صورتحال بہت خراب ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا فنڈ جاری کرنے کا حکم دیا تھا پیچھے نہیں ہٹیں گے، اٹارنی جنرل نے سیاسی جماعتوں کے مذاکرات تک عدالت سے مہلت مانگ لی۔ سپریم کورٹ نے شہباز شریف، عمران خان، آصف علی زرداری، فضل الرحمٰن، خالد مقبول صدیقی، اسفندیار ولی، چوہدری شجاعت اور دیگر سیاسی قائدین آج عدالت میں طلب کرلیا، عدالت نے وزارت دفاع اور الیکشن کمیشن کی درخواستوں کو ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے نمٹادیا ہے۔ بعدازاں مقدمے کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کردیا۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ وزارت دفاع کی جانب سے ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کا آغاز قرآنی آیات کی تلاوت سے ہوا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دعا کی کہ مولا ہمیں ہمت دے کہ صحیح فیصلے کریں اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر، جب ہم چلے جائیں تو ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے صوبہ پنجاب و خیبر پختونخواء میں عام انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کو 21ارب روپے کے فنڈز کے اجراء سے متعلق 4اپریل کے حکمنامہ پر عدم عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور انکی کابینہ پر آئینی ذمہ داری ادا نہ کرنے اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر اسکے قانونی و آئینی نتائج کیلئے تیار رہنے کا عندیہ دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو دونوں صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کیلئے 21 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کیلئے ایک بار پھر 27ا پریل تک کی مہلت دیدی ہے، عدالت نے ʼ قومی اور چاروںصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی مرحلہ میں منعقد کروانے کیلئے سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات کیلئے مہلت دینے سے متعلق دائر کی گئی ایک شہری کی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پاررٹی،پارلیمنٹیرئنز، پاکستان تحریک انصاف سمیت ملک کی اہم سیاسی جماعتوں، وفاق پاکستان، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آج بروز جمعرات تک ملتو ی کردی ہے۔ عدالت نے جن دیگر جماعتوں کے سربراہان کو عدالت میں اپنے نامزد نمائندوں کے ذریعے پیش ہونے کیلئے نوٹس جاری کئے ہیں ان میں جمعیت العلمائے اسلام،متحدہ قومی مومنٹ، بلوچستان نیشنل پارٹی،عوامی نیشنل پارٹی،بلوچستان عوامی پارٹی، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (قائد اعظم) شامل ہیں، دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے، 14 مئی کا وقت قریب آ چکا ہے لہٰذا اگر سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، بدھ کے روز عدالت کی جانب سے جاری 4؍ اپریل کے حکمنامہ پر عملدرآمد سے متعلق کیس کے 7 صفحات پر مشتمل حکمنامہ میں قرار دیا ہے کہ14مئی کو انتخابات کروانے کا حکم حتمی ہو چکا ہے،جس میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو براہ راست رقم جاری کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن بل کو منظوری کیلئے پارلیمنٹ کو بھجوایا گیا جسے مسترد کردیا گیا،عدالت نے قراردیاہے کہ جمہوریت اسمبلی میں اکثریت کے اعتماد کا نام ہے، انتخابات کیلئے 21ارب روپے کی منظوری کے بل کے مسترد ہونے کے سنجیدہ نتائج ہیں، آئین کے مطابق وزیر اعظم کیلئے قومی اسمبلی میں اکثریت کا اعتماد لازمی ہے، قومی اسمبلی سے رقم کے بل کے مسترد ہونے کے سنگین آئینی نتائج ہیں اور بل مسترد ہونے کا ایک ممکنہ اثر یہ ہے کہ حکومت پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے،تاہم اسمبلی میں اکثریت کھونے کے ممکنات کو اٹارنی جنرل نے یکسر مسترد کردیاہے، اٹارنی جنرل کے مطابق وزیر اعظم اور کابینہ پر پارلیمنٹ کی اکثریت کا اعتماد ہے،تاہم ڈیمانڈ مسترد ہونے کی صورتحال کو جلد تبدیل کیا جا سکتا ہے،عدالت نے اپنے حکمنامہ میں قرار دیا ہے کہ آئین اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا حکم دیتا ہے، سیاسی مذاکرات آئین سے متصادم نہیں ہونے چاہئیں،و زارت دفاع کی جانب سے کی گئی استدعا کوعدالت قبول نہیں کر سکتی ہے، عدالت نے الیکشن کمیشن کے موقف کو بھی مسترد کر تے ہوئے قراردیاہے کہ الیکشن کمیشن عدالتی کاروائی کو دوبارہ سے نکتہ آغاز پر لانا چاہتا ہے، فنڈز کی عدم فراہمی سے متعلق وزارت خزانہ کی رپورٹ کو بھی ناقابل قبول قرا ردیتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے فنڈز کی منظوری نہ ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ،قومی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں، عدالت نے قراردیاہے کہ انتخابات کیلئے فنڈز جاری کرنا وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے جسے ادا نہ کرنے اور عدالتی احکامات کی نافرمانی کے سنگین نتائج ہونگے، فاضل عدالت نے ʼ قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی مرحلہ میں منعقد کروانے کیلئے سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات کیلئے مہلت دینے سے متعلق دائر کی گئی آئینی درخواست کی سماعت کے حوالے سے جاری 3صفحات پر مشتمل ایک اور تحریری حکمنامہ میں قراردیاہے کہ درخواست گزار سردار کاشف کے وکیل نے ایک ہی مرحلہ میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے پر امن، منصفانہ،صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد پر زور دیاہے،فاضل وکیل کے مطابق عام انتخابات میں شرکت کرنے والی سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی احترام اور مفاہمت ہونی چاہیے کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1970,1977 کے مرحلہ وار انتخابات کے نتائج کی بجائے ایک ہی مرحلہ میں منعقدہ انتخابات کے زیادہ بہتر نتائج نکلے ہیں، عدالت نے قرار دیاہے کہ بادی النظرمیں درخواست گزار کا موقف مناسب ہے،تاہم سیاسی مذاکرات کو عدالت کے 14 مئی کے حکم سے بچنے کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا ہے، عدالتی حکمنامہ میں مزید کہا گیا ہے کہ بادی النظر میں انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کی قیادت کو مذاکرات کا موقع دینے کی رائے درست ہے لیکن مذاکرات کا موقع دینے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کا پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم ختم ہو گیا ہے، درخواست گزار کے وکیل نے سیاسی جماعتوں کے مابین سیاسی ڈائیلاگ کی بات کی ہے،موجودہ سیاسی صورتحال میں ڈائیلاگ ہونا خوش آئند ہے۔

اہم خبریں سے مزید