• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میرے دو بیٹے آسٹریلیا میں رہتے ہیں، وہاں سے اپنی زکوٰۃ پاکستان بھیجتے ہیں۔ اب وہاں کسی دارالعلوم نے فتویٰ دیا ہے کہ چاروں ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ آپ جس جگہ رہ رہے ہیں، وہاں اپنی زکوٰۃ ادا کریں۔ اس صورت میں کیا میں اپنے بیٹوں سے زکوٰۃ منگوا کر یہاں پاکستان میں تقسیم کرسکتا ہوں۔(سید منور کریم ، کراچی)

جواب: زکوٰۃ وصدقات کی ادائیگی میں افضل یہ ہے کہ پہلے اپنے مستحقِ زکوٰۃ قرابت داروں کو ترجیح دیں، انھیں دینے میں دو اجر ہیں :ترجمہ:’’ حضرت ابو امامہ ؓبیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک ،قرابت داروں کو صدقہ دینے پر دو اجر ملتے ہیں، (مجمع الزوائد: 4651)‘‘۔یعنی ایک اجر توصدقے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا ہے اور دوسرا صلۂ رحمی یعنی حق قرابت ادا کرنے کا، مگر شرط یہ ہے کہ شرعی فقیر ہویعنی صاحبِ نصاب نہ ہو۔

قرابت داروں کو محروم رکھنا اُخروی محرومی کا سبب بنے گا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’ اے اُمّتِ محمد ! قسم ہے، اُس کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا، اللہ تعالیٰ اس شخص کے صدقے کو قبول نہیں فرماتا ،جس کے رشتے دار اس کی صلۂ رحمی کے محتاج ہوں اوریہ غیروں کو دے ،قسم ہے اس کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر نہ فرمائے گا ،(مجمع الزوائد)‘‘۔

امام اہلسنّت امام احمد رضاقادری ؒ لکھتے ہیں: ’’ خدائے کریم عزوجلّ کی مہربانی دیکھیے ، اس نے یہ حکم نہ دیا کہ غیروں ہی کو دیجیے بلکہ اپنوں کو دینے میں دُونا ثواب رکھا ہے، ایک تصدُّق کا ، ایک صلۂ رحم کا ۔ تو جو اپنے گھر سے پیارے، دل کے عزیز ہوں جیسے بھائی ،بھتیجے ، بھانجے ، انھیں دے دیجیے کہ اُنہیں دینا چنداں ناگوار نہ ہوگا ،بس اتنا لحاظ کرلیجیے کہ نہ وہ غنی ہوں نہ غنی باپ زندہ کے نابالغ بچے، نہ اُن سے علاقہ زوجیت یاولادت ہو یعنی نہ وہ آپ کی اولاد میں ہوں اور نہ آپ اُن کی اولاد میں ہوں،(فتاویٰ رضویہ، جلد10،ص:183)‘‘۔

پس اگر رشتے دار اور اقارب دوسرے شہر یا آپ کے آبائی وطن میں ہوں، تو آپ کے فرزند اپنی زکوٰۃ انھیں بھیج سکتے ہیں۔ علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ایک شہر سے دوسرے شہر زکوٰۃ بھیجنا مکروہ ہے ، مگر جب کہ وہاں اس زکوٰۃ بھیجنے والے کے رشتے دار ہوں (تواُن کے لیے بھیج سکتاہے) یا وہاں ایسے لوگ ہیں جو اُن کے وطن اقامت یا قرب وجوار میں رہنے والوں کی بہ نسبت زیادہ محتاج ہیں ،(پس اگر اس سبب سے دوسرے شہر منتقل کی تو جائز ہے )، لیکن اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں اور اس کے باوجود منتقل کرے تو اگرچہ یہ مکروہ ہوگا، لیکن زکوٰۃ اداہوجائے گی ، زکوٰۃ کا مال اس وقت منتقل کرنا مکروہ ہے، جب زکوٰۃ کی ادائیگی کا وقت آگیا اور سال پورا ہوگیا ،لیکن اگر وقت سے پہلے منتقل کرلے تو کوئی حرج نہیں ، (ان تمام صورتوں میں دوسرے شہر بھیجنا بلاکراہت جائز ہے)۔

زکوٰۃ ، صدقۂ فطر اور نذر میں افضل یہ ہے کہ اول اپنے بھائی اور بہنوں کو دے، پھر اُن کی اولاد کو، پھر چچاؤں اور پھوپھیوں کو دے ، پھر اُن کی اولاد کو ، پھر ماموؤں اور خالاؤں کو ،پھر اُن کی اولاد کو ، پھر ذوی الارحام، پھر پڑوسی، پھر اپنے ہم پیشہ لوگوں کو ،پھر اپنے شہر یا گاؤں کے رہنے والوں کو ، ’’سراج الوہاج ‘‘ میں اسی طرح سے ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ، جلد1، ص:190)‘‘۔

لیکن جیساکہ پہلے واضح کیاجاچکاہے ، ان اقارب اوردیگر طبقات کو زکوٰۃ ، فطرہ ،فدیہ ، نذر اورکفّارات (یعنی صدقاتِ واجبہ) کی رقوم دینا اُس وقت جائز اور افضل ہوگا، جب یہ شرعی معیار پر اُن کے مستحق ہوں ، یعنی کم ازکم نصاب کے مالک نہ ہوں۔ آپ کے بیٹے بیرونِ ملک ملازمت کے سلسلے میں مقیم ہیں، اُن کا وطنِ اصلی تو پاکستان ہے، آپ بحیثیت والد اپنے بیٹوں کی زکوٰۃ پاکستان میں موجود اپنے غیر سید مستحق قرابت داروں کے لیے منگواسکتے ہیں ۔

علامہ حسن بن منصور اوزجندی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ کسی دوسرے شہر کے فقراء کو زکوٰۃ دینا مکروہ ہے ،البتہ (وہاں رہنے والے) اپنے قریبی رشتے داروں کودے (تومکروہ نہیں ہے)، ابوسلیمان رحمہ اللہ تعالیٰ نے بواسطہ عبداللہ بن مبارک ، امام اعظم ابوحنیفہ رحمہم اللہ تعالیٰ اسی طرح روایت کیا ہے اور حضرت حسن رحمہ اللہ تعالیٰ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں: ایک شخص نے اپنے مال کی زکوٰۃ اپنے شہرِ اقامت کے بجائے کسی دوسرے شہر کے فقراء کی طرف بھیجی اور ابھی اُس مال پر سال نہ گزرا تھا، اگر سال اُس شہر میں مکمل نہیں ہوا تھا، جس میں وہ بھیجا گیا تو یہ جائز ہے، (فتاویٰ قاضی خان ، جلد1،ص:128)‘‘۔