ماں کے سوال، بیٹے کے جواب
اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ، میں جب رات دیر سے گھر آتا تو میری ماں اٹھ کر تازہ روٹیاں پکا کر دیتی تھی ایک دن ایسے ہی لیٹ آیا تو روٹی بناتے ہوئے انھوں نے پوچھا کہاں جاتا ہے؟میں نے کہا میں ادیب بن رہا ہوں
کہنے لگی وہ کیا ہوتا ہے؟
میں نے کہا اماں لکھنے والا (لکھاری)
انھوں نے پھر سے سوال اٹھایا، تو پھر کیا کرے گا؟
میں بولا میں کتابیں لکھا کروں گا۔
وہ بولیں اینیاں آگے پیاں جیہڑیاں کتاباں اوناں دا کی بنے گا؟
میں نے کہا نہیں نہیں وہ تو جھوٹ ہیں ،میں سچ اور حق کے لیے لڑوں گا سچی بات کروں گا میری ماں ڈر گئی بیچاری ان پڑھ گائوں کی عورت تھی ،میں نے جب کہا کہ سچ بولا کروں گا ،سچ کا پرچار کروں گا ،تو اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔"اگر تو نے یہی بننا ہے جو تو کہتا ہے اور تو نے سچ ہی بولنا ہے تو اپنے بارے میں سچ بولنا لوگوں کے بارے میں سچ بولنا نہ شروع کر دینا"۔ سچ وہ ہوتا ہے جو اپنے بارے میں بولا جائے جو دوسروں کے بارے میں بولتے ہیں وہ سچ نہیں ہوتا جب ہم بابا جی کے پاس گئے اور کبھی کبھی ان کے سامنے میرے منہ سے یہ بات نکل جاتی تھی کہ میں سچ بولا کروں گا تو وہ کہا کرتے تھے۔
"سچ بولا نہیں جاتا، سچ تو پہنا جاتا ہے، سچ ،اوڑھا جاتا ہے سچ اوڑھنے کی چیز ہے بولنے کی نہیں۔