بسا اوقات سماجی ذرائع ابلاغ یعنی سوشل میڈیا پر ایسی تحریریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ چلیے ہمیں اس پر کوئی اعتراض یوں نہیں ہے کہ ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا حق ہے، چاہے وہ بات بے سروپا ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن سماجی ذرائع ابلاغ پر بعض اوقات بڑے علمی دعوے بغیر کسی سند کے کیے جاتے ہیں، اگرچہ علمی معاملات میں حوالوں اور سند کے بغیر بات کرنا کار ِ لاحاصل سمجھا جاتا ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ بے بنیاد دعوے کرنے والوں کی بعض تحریروں کو بغیر تحقیق کے درست مان لیا جاتا ہے بلکہ انھیں آگے بھی بڑھا یا جاتا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تحریر کے بارے میں کسی نے بتایا کہ اس میں بڑے وثوق سے لیکن بغیر کسی سند یا حوالے کے کہا گیا ہے کہ لفظ’’ جناب ‘‘بر عظیم پاک و ہند کے کچھ طالب علموں نے انگریزوں سے نفرت کے اظہار کے لیے ’’بنایا‘‘ تھا اور(بقول ان علامہ صاحب کے) ’’جناب ‘‘مخفف ہے جاہل(ج)، نالائق(ن)، احمق (الف)اور بے وقوف(ب) کا۔لیکن یہ بات سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔
اول تو لفظ اس طرح ’’بنا ‘‘ نہیں کرتے اور جو چند نئے لفظ گھڑے جاتے ہیں وہ بھی اس طرح سے فوراً مقبول ہوکر رائج نہیں ہوجاتے۔ دوسرے یہ کہ لفظ ’’جناب ‘‘ عربی زبان کا ہے اور عربی لغات میں صدیوں سے موجود ہے۔عربی لغات کے مطابق اس کا مادہــ’’ ج۔ن۔ب ‘‘ ہے۔ اس صدیوں پرانے لفظ کے برعظیم کے طالب علموں کے ہاتھوں انگریزوں کے دور میں’’بنائے ‘‘ جانے کی بے سروپا بات کی کوئی سند یا حوالہ بھی نہیں دیا گیا۔ یہ محض من گھڑت بات ہے۔
اردو میں دیکھیں تو اردو لغت بورڈ نے اردو زبان میں لفظ جناب کے استعمال کی قدیم ترین سند باغ و بہار سے دی ہے جو میر امن کے اپنے بیان کے مطابق ۱۸۰۲ء میں مکمل ہوئی(اگرچہ چھپی ۱۸۰۴ء میں )۔ باغ و بہار میں ایک جملہ ہے: ’’خدا کی جناب سے نا امید ہونا ہرگز مناسب نہیں ‘‘۔ یہاں جناب کا لفظ بارگاہ یا دربار کے مفہوم میں ہے۔جن صاحب نے لفظ جناب کے انگریزی دور میں گھڑے جانے کا عظیم انکشاف فرمایا ہے انھوں نے اس ’’حادثے‘‘ کا سال نہیں بتایا۔ بہرحال یہ لفظ اردو میں کم از کم دو سوسال سے رائج ہے اور عربی میں اس سے بھی بہت پہلے سے۔
لفظ ’’جناب ‘‘ کے عربی اور اردو میں متعدد معنی ہیں اور ان میں سے ایک معنی ہیں: گوشہ، کنارہ، جانب۔دوسرے معنی ہیں: صحن ، درگاہ، بارگاہ، آستانہ۔ اسٹین گاس کے مطابق یہ جائے پناہ کے مفہوم میں بھی ہے نیز چوکھٹ کے معنی میں بھی آتا ہے۔ لفظ ’’ جناب ‘‘ تعظیم اور احترام کے اظہار کے لیے کسی کے نام سے پہلے لکھتے اور بولتے ہیں ۔ بے خودؔ دہلوی کا شعر یاد آگیا:
نہ سر چڑھائو بہت ہم سے خاکساروں کو
ہمارے نام سے لفظ ِ جناب کم کر دو
اردو میں کسی مجتہد ، فقیہ اور عالم ِ دین کو بھی جناب کہتے ہیں (بالخصوص بعض علاقوں کے اہل تشیّع ُ میں یہ اصطلاح رائج ہے) ۔ اگرچہ لغت بورڈ نے جناب کے یہ معنی (مجتہد یا عالم ِ دین ) درج نہیں کیے لیکن اس کی سند میں جون ایلیا کا شعر حاضر ہے:
خوب گاؤ ، بجاؤ اور پیو
ان دنو ں شہر میں جناب نہیں
جناب کا لفظ طنزیہ بھی آتا ہے اور اس وقت یہ تعظیمی نہیں رہتا۔ اردو لغت بورڈ نے جناب کے طنزیہ استعمال کی سند میں نسیم دہلوی کا یہ شعر دیا ہے:
بس ہو چکی امید ِ وفا آپ سے ہمیں
بدلے ہوئے ہیں ڈھنگ ابھی سے جناب کے
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جناب کی مونث’’ جنابہ ‘‘ہرگز نہیں ہے ، اس لیے خواتین کے نام سے پہلے جو لوگ جنابہ لکھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ بلکہ جنابہ بُرے معنوں میں ہے۔ جس طرح محترم خواتین کے نام سے قبل تعظیماً ’’حضرت‘‘ کا لفظ لکھا جاتا ہے(جیسے حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ اور حضرت عائشہ وغیرہ) اسی طرح خواتین کے نام سے پہلے تعظیماً ’’جناب ‘‘کا لفظ بھی لکھ سکتے ہیں اور اس کی سند میر انیس جیسے مستند اہل ِ زباں کے ہاں بھی ملتی ہے جو کہتے ہیں:
دادی جناب ِ فاطمہؓ زہرا سی ذی شَرَف
عمّو حسین ؓ ، صاحب ِ لولاک کا خَلَف
ایک اور ضروری بات: پہلے مصرعے میں لفظ شرف آیا ہے ،اس کا درست تلفظ شَرَ ف ہے یعنی شین (ش)اور رے(ر) دونوں پر زبر ہے، اگرچہ عام طور پر لوگ شرف میں رے(ر) کو ساکن پڑھتے ہیں لیکن وہ غلط ہے اور طرح شرف میں رے (ر)کو ساکن پڑھنے سے مصرع بھی بحر سے خارج ہوجاتا ہے۔ لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیا جائے کہ خلف میں بھی لام پر زبر ہے اور اس کے معنی ہیں سعادت مند بیٹا ، نیک فرزند، یہ قائم مقام یا جانشین کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔