آسیہ عمران
سب سے انوکھا احساس ماں بننا اور پہلا بچہ تو الگ ہی کائنات کا دروازہ ہوا کرتا ہے۔ دل کے نمایاں ترین مقام پر متمکن پروان چڑھتا ہے۔ سعد جب گود میں آیا تو جیسے رنگ و نور کا سیلاب اُمڈ آیا، خاندان بھر کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہ تھا۔ ایک بچے کی آمد پرہر سواُجالا بکھر جانا ،سب کا بےتحاشہ خوش ہونا، مکمل اور سرشارکر دینے والا احساس تھا ۔وہ وقت بھی خوب تھا۔ خوشیوں کے رنگ حقیقی، اظہار معصوم ہوا کرتا ، مادی پیمانوں میں تولنے کا رواج جو نہ پڑا تھا۔
کسی کا بے ساختہ قہقہہ، ایک جملہ ،گلے لگا لینا ، کھانے میں بے تکلفی سے شریک ہو جانا ہی خوشیوں میں بڑھاوے کا سبب تھا۔ میاں کو سمجھنے سمجھانے کا تصور اس کے سوا نہ تھا کہ وہ شوہر اور باپ بنتے ہی خود پر بڑی ذمہ داری محسوس کرتےاپنے کاموں میں مزید سنجیدہ ہو جاتے ۔ باقی اونچ نیچ سے دونوں کا واسطہ زندگی بھر کا تھا۔ بچہ گھر بھر کا متحرک وجود گھر میں زندگی کا سبب تھا، جس کاپل پل،لمحہ لمحہ جیا جاتا ہے ،یہ گھر کی رونق اور ممتا کی تسکین تھا۔ اس ننھے وجود نے آ کر جیسےمیری تکمیل کر دی تھی۔ وہ خاتون یہ سب بتاتے ہوئے ماضی میں جیسے کھو سی گئیں۔
بچپن کی ایک سہیلی جو پچھلی گلی میں گزشتہ دنوں شفٹ ہوئی ماشاءاللہ نو بچوں پر مشتمل پر رونق گھر کو دیکھ کر رشک آیا۔ رب کریم کی نعمتوں کا شمار نہ تھا ۔ مختلف عمر کے بچوں سے ڈیلنگ اور کھیل کود کا الگ ہی مزہ تھا۔ اس کا کہنا تھا۔ رب کریم نے ہر بچے کے ساتھ الگ رحمتیں اور برکتیں منسلک کی ہیں۔
میرے ابو جی ہم پانچ بہن بھائیوں کی پیدائش سے متعلق بات کرتے تو کئی نعمتیں گنوایا کرتے ۔ کسی کی پیدائش پر انھیں اللہ نے اپنے گھر کی زیارت نصیب کی تھی تو کسی کی پیدائش ان کی ترقی کا سبب بنی تھی کسی کی پیدائش پر بڑا گھر میسر آیا تھا۔ یہاں تک کہ جب بھابھی کو بیاہ کر لائےتو کہنے لگے میری بہو کے آنے سے پانی کی فراوانی ہو گئی، میں آج ان جملوں کا سوچتی ہوں تو لگتا ہے وہ ہمیں بتانا چاہتے تھے ہر فرد اپنا رزق، بندھن میں مضبوطی اور کئی برکتیں ساتھ لاتا ہے یہی زندگی کا اصل ہیں۔
میری ایک کولیگ جو ماشاءاللہ سات بچوں کی ماں ہیں کسی بات پر کہنے لگیں میرے رب نے جتنی زندگیوں کو مجھ سے وابستہ کرنا طے کر رکھا ہے میں انھیں زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھتی ہوں کوشش کرتی ہوں کہ ان کی بہترین تربیت کر سکوں۔ میرے پانچ بچے نہیں پانچ جہاں ہیں جن سے رب نے مجھے وابستہ کیا ہے ہر ایک دوسرے سے بالکل جدا قدرت کا الگ شاہکار ہے۔ ہر ایک کا ایسا مقام کہ کسی ایک کا اوجھل ہونا بےکل کر دیتا ہے یہی عورت پن اور ممتا ہے جو رب کی خاص عنایت نسل ِانسانی کی محافظ ہے۔
فطرت سے ہٹ جانے کا اس وقت کا رویہ، نہ جانے کیا اختتام لائے ۔زوجین کےسمجھنے سمجھا نے کا معاملہ توقابو میں ہوتا نظر نہیں آرہا کہ نباہ ہمیشہ لچک سے وابستہ ہوتا ہے۔ انا ،ضد ،ہٹ دھرمی سے پوری طاقت لگا کر بھی کوئی فرد برسوں کسی کو ایک نکتہ بھی سمجھا نہیں پاتا۔ سب کچھ مکمل کی خواہش کرنے والا لاحاصل منزل کا مسافر ہے۔ رب کریم نے حلاوت برکت فطرت سے وابستہ رہنے میں رکھی ہے۔ ممتا ایک عورت میں بچپن سے ہی دکھائی دینے لگتی ہے جب وہ چھوٹی سی گڑیا بغل میں دبائے اس کی کئیر اور حفاظت کرتی اسے کھلاتی، سلاتی ،توجہ دیتی ہے۔ اس جذبے سے بے گانگی کا رویہ یقینا ًخیر کا پیامبر نہیں ہے۔