• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر سفارتی مجبوریوں اور نزاکتوں سے نابلد لوگ شور مچائیں اور اعتراض کریں تو پھر بھی سمجھ آتی ہے لیکن افسوس تب ہوتا ہے کہ سیاسی یا صحافتی مخاصمت کی بنیاد پر خارجہ پالیسی کے معاملات پر بھی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب یہ المیہ اور قیامت کی نشانی نہیں کہ جنرل محمد عمر(جو سانحہ مشرقی پاکستان کے مرکزی کردار تھے) کے بیٹے اسد عمر سیاست کی خاطر بلاول بھٹو زرداری کو طعنہ دے رہے ہیں کہ وہ انڈیا سے بے عزت ہوکر واپس لوٹے۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ کانفرنس بھارتی سرزمین پر ضرور تھی لیکن شنگھائی کوآپریشن کونسل چین کی بنائی ہوئی علاقائی تنظیم ہے جس کے بانی اراکین میں چین، روس اور مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک شامل تھے، اس کے اجلاس مختلف ممالک میں بائی روٹیشن منعقد ہوتے ہیں اور انڈیا کے بعد پاکستان کی باری ہے۔ یوں کسی بھی جماعت کی حکومت ہوتی تو عقل کا تقاضایہ تھا کہ وزیرخارجہ اس میں شریک ہوتے اور میرا تو مشورہ ہے کہ اس کے بعد جب سربراہی کانفرنس انڈیا میں ہی ہوگی تو اس میں بھی پاکستانی وزیراعظم کو شریک ہونا چاہئے۔

اگر کوئی حکومتی عہدیدار کسی ملک میں جاتا ہے تو وہ یا تو دوطرفہ ہوتا ہے یا پھر ملٹی نیشنل فورم کے اجلاس کیلئے ہوتا ہے۔ مثلاً اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل کا اجلاس نیویارک میں ہوتا ہے۔ وہاں ایرانی صدر یا وزیر خارجہ ہر سال جاتا ہے۔ امریکی حکام ان کا استقبال کرتے ہیں اور نہ ان سے ملاقاتیں ہوتی ہیں تو کیا اس سے ایران کی سبکی ہوتی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں بلکہ ایران ہر سال اس فورم کو اپنی بات پہنچانے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح اگر امریکی چاہتے تو ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو کبھی امریکہ آنے نہ دیتے لیکن چونکہ اقوام متحدہ ایک عالمی فورم ہے اس لئے وہ انہیں وہاں آنے سے نہیں روک سکتے اور ان ممالک کے نمائندوں کو نیویارک میں وہی پروٹوکول ملتا ہے جو دوسرے ممبر ممالک کو ملتا ہے۔

اگر اسد عمر وغیرہ کی طرح کے انداز میں بات کی جائے تو پھر تو یہ بھارت کیلئےشرم کا مقام تھا کہ اس نے اپنی سرزمین پر ایسے فورم کا اجلاس منعقد کیا جو چین کا بنایا ہوا فورم ہے۔ ابھی ماضی قریب میں چین اور بھارتی افواج کی جھڑپیں ہوئیں اور انڈیا اس خطے میں چین کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے ۔ پھر تویہ کہا جاسکتا تھا کہ اس چین کے بنائے ہوئے فورم کے اجلاس کو اپنی سرزمین پر منعقد کرکے انڈیا نے اپنی سبکی کا سامان کیا لیکن بھارت چونکہ شاطر حکمرانوں کا ملک ہے اس لئے نہ صرف شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کا ممبر بننے کیلئے کوششیں کیں بلکہ اب اس میں فعال کردار کیلئے بھی سرگرم عمل ہے ۔پھر تو انڈیا کیلئے بڑا شرم کا مقام تھا کہ اس نے چینی اور پاکستانی وزیرخارجہ کو اپنی سرزمین پر بلالیا لیکن حقیقتاً انڈین حکومت پر اپنے مخالفین کا یہ اعتراض بھی بلاجواز تھا۔ کیونکہ سفارت کاری اور مخاصمتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔

ایس سی او وزرائے خارجہ کے اجلاس اور بلاول بھٹو کے انڈیا جانے پر زیادہ شور اپنی حکومت کے خلاف انڈین میڈیا اور انتہاپسندوں نے مچایا۔ وہ بے وقوف اعتراض کررہے تھے کہ ان کی حکومت نے اس چین کے وزیرخارجہ کو کیوں بلایا جس نے حال ہی میں بھارتی فوجیوں کی ٹھکائی کی۔ اسی طرح بلاول بھٹو نے کچھ عرصہ قبل نریندر مودی کو بھارت کا قصائی کہا تھا۔ تب بھی اس خطاب پر انڈیا میں بہت شور مچا تھا اور اب بھی وہاں یہ غلغلہ تھا کہ ایسے فرد کو کیوں بلایا جارہا ہے جس نے انڈین وزیراعظم کو گجرات کا قصائی کہا۔ وہاں کی حکومت کا جواب یہ تھا کہ پاکستان سے متعلق ان کی حکومت کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور کوئی دو طرفہ ملاقات نہیں ہورہی ۔ اسی طرح دورے سے پہلے بلاول بھٹو اور حنا ربانی کھر نے واضح کیا تھا کہ کوئی دوطرفہ سرگرمی نہیں ہوگی۔ صرف ایس سی او کے فورم پر اپنا موقف پیش کیا جائے گا اور یہ کہ دو طرفہ انگیج منٹ کیلئے پاکستان کی یہ شرط برقرار ہے کہ عمران خان دور میں کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کا فیصلہ واپس ہوگا تو دو طرفہ انگیج منٹ کا آغاز ہوسکتا ہے۔ یوں بلاول بھٹو ایس سی او کے اجلاس میں گئے۔ انڈین کے ساتھ کوئی دو طرفہ انگیج منٹ نہیں ہوئی۔ اجلاس کے دوران بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے اپنی حکومت کا روایتی موقف پیش کیا اور بلاول بھٹو نے پاکستان کا موقف پیش کیا۔ اگر جے شنکر کا رویہ جارحانہ تھا تو بلاول کا بھی مدافعانہ نہیں تھا۔ بعدازاں جب جے شنکر نے پریس کانفرنس میں (جو ایس سی او کانفرنس کا حصہ نہیں تھا) میں اگر پاکستان اور بلاول کے بارے میں بچگانہ اور جارحانہ لہجہ استعمال کیا تو اس سے انہوں نے اپنے قد کو چھوٹا اور بلاول کے قد کو بڑا کیا۔ جواب میں یہاں بلاول نے پریس کانفرنس کی اور جے شنکر کی باتوں کا ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔ اب اس میں پاکستان یا بلاول کی بے عزتی کا سوال کہاں سے اٹھتا ہے؟۔

بعض احمق یہ سوال اٹھاتے رہے کہ سارک کانفرنس، جو پاکستان میں منعقد ہونا تھی، میں شرکت سے انکار کرکے بھارت نے اسے منعقد نہیں ہونے دیا تو اسی طرح اب پاکستان کو بھی کرنا چاہئے تھا، حالانکہ سارک اور ایس سی او کے چارٹر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سارک میں ہر ممبر ملک کے پاس ویٹو پاور ہے اور اس کا استعمال کرتے ہوئے اس وقت انڈیا اور اشرف غنی کی حکومت نے اس کا انعقاد نہیں ہونے دیا تھا۔ یوں بھی عملا ًسارک پاکستان اور انڈیا کے تنازعے کا یرغمال ہوچکا ہے اور اس کی سرگرمیاں ان دو ممالک کے گرد گھومتی ہیں لیکن شنگھائی کوآپریشن کانفرنس کے چارٹر میں کسی ملک کے پاس ویٹو کا حق نہیں۔ اگر چین اور روس بھی عدم شرکت کریں تب بھی اجلاس منعقد ہوگا۔ اس میں یہ دونوں ممالک اور وسط ایشیا کے ممالک ممبران ہیں۔ پاکستان توکیا تین چار ممالک بھی مل کر اسے نہیں رکوا سکتے تھے ۔ یوں اگر بلاول نہ جاتے تو کانفرنس پھر بھی منعقد ہونا تھی اور وہاں پر روسی اور وسط ایشیائی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقاتیں بھی نہ ہوتیں۔ ایک اور عامل یہ ہے کہ افغانستان اس کا ممبر ہے لیکن طالبان کی وجہ سے اسے دعوت نہیں دی گئی تھی۔ افغانستان کا سارا ملبہ اس وقت پاکستان کے سر ہے۔ اس تناظر میں بھی ان کا ہاں جانا ضروری تھا کہ اگر افغانستان زیربحث آتا تو اس حوالے سے پاکستان کا موقف پیش کیا جا سکتا۔

تازہ ترین