سربراہ جمعیت علماء اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے بجائے نیشنل اکنامک ایکشن پلان پر کام کیا جائے۔
پارلیمنٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں، ہمیں دیکھنا ہوگا ملک میں داخلی امن کیسے ہوگا، داخلی امن کیلئے معاشی استحکام ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ دھاندلیوں کے نتیجے میں نااہل مسلط ہوجاتے ہیں، کل سے واقعات کا مشاہدہ کر رہے ہیں، اسی لیے کہا تھا ان سے مذاکرات کا فائدہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں عقل و شعور سے عاری لوگ ہیں جو مذاکرات کے قابل نہیں تھے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج ہم اپنا بجٹ خود بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ایف اے ٹی ایف کی ایماء پر قانون سازی ہوئی، ہم اس کا حصہ نہیں بنے، آئی ایم ایف کے دباؤ پر قانون سازی کی، ہم نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، پیرس گروپ ہمارے فیصلے کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریکوڈک کے معاملے پر ہم نے سودے بازی نہیں کی، صوبے کے حق کے لیے ڈٹے رہے۔
سربراہ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ جمہوریت اس لیے ہوتی ہے کہ اصلاحات پارلیمنٹ کے ذریعے کی جائیں، ہمیں طاقتور ملک بننا ہوگا، دنیا کے ساتھ چلنے کیلیے طاقتور ہونا ضروری ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری سوچ مثبت ہے، اسی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ضروری ہے آئین کو تحفظ دیا جائے، آئین سے کھلواڑ بند کرکے اسے رہنما تصور کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے آئین کا بنیادی ستون اسلام ہے، آئین کہتا ہے کہ حاکمیت اللّٰہ کی اور اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرا ستون جمہوریت ہے جو آئین بھی بنائیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ تیسرا ستون پارلیمانی نظام ہے، صدارتی نظام یا کوئی اور نظام نہیں چلے گا، ایک وفاق کے تحت اکائیوں کے اختیارات ہوں گے، اختیارات نہیں دیے جاسکے تو 18ویں ترمیم کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ 18ویں ترمیم سے اختیارات پھر واپس کرنے کی کوشش ہورہی تھی جنہیں ہم نے ناکام بنایا۔