• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لفظ ’’ماں ‘‘ میں جس قدر شیرینی اور حلاوت ہے۔ اتنی شاید شہد میں بھی نہیں ہوگی۔ لفظ ’’ماں ‘‘ کی زبان سے ادائیگی کے وقت دل کی جو کیفیت اور جذبات میں جو پیار شامل ہوتا ہے۔ وہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس ایک لفظ میں اللہ تعالیٰ نے دنیا جہاں کی نعمتیں اور برکتیں سمودی ہیں۔ ماں کے پائوں کے نیچے جنت کی نوید دے کر قدرت نے ماں کی عظمت کو اس درجہ بلند مرتبہ سے سرفراز کیا ہے، جس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماں کی محبت، پیار اور چاہت جن لوگوں کو نصیب ہوجاتی ہے گویا وہ دنیا میں ہی جنت پالیتے ہیں۔

ماں جیسا مقدس رشتہ ساری دنیا میں دوسرا نہیں ہے۔ ماں جب اپنی اولاد کے لیے دعا کرتی ہے تو وہ دُعا بلا روک ٹوک براہ راست اللہ تعالیٰ کے دربار میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں ماں کا رحمت بھرا سایہ حاصل ہے۔ ذیل میں درج چند باتوں پر غور کریں ،ساتھ اپنا تجزیہ بھی کریں۔

……ایک سوال ……

ذرا سوچئے کہ ماں کے ذکر پر کس کا تصور ذہن میں آتا ہے۔صرف خود اپنی ماں کا جوآپ کے گھر کا مشتر کہ محور ہے۔ سارا جوش و خروش ،ساری سرگرمیاں اس کے دم سے ہیں ،لیکن اس گھر میں اور بھی مائیں ہیں جو ’’ ماں ‘‘ ہونے کے باوجود دوسرے رشتے ناتوں کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں کہ وہ کسی کی بیوی، بھابھی ہیں اور سب سے بڑھ کر ایک ’’ بہو‘‘ ہیں ۔ ماں کے احترام کا مطلب صرف اپنی ماں کا احترام نہیں۔ بچوں کو جنم دینے والی ہر عورت ’’ماں ‘‘ ہے کیا ہم اس کی اس حیثیت کو قبول کرتے ہیں ؟ کیا اس طرح نظر انداز ہونے اور جبر کا شکار ہونے والی ’’عورت ‘‘ معاشرے کے لیے وہ بنیادی اور اہم کردار ادا کرسکتی ہے ،جو سماجی ترقی کا ضامن ہے۔ کیا ایسی ماں، بچوں کو بہتر تربیت دے سکتی ہے ۔

……اختیار اور ماں ……

عدم تحفظ اور بے یقینی کی فضاء میں پروان چڑھنے والی عورت جب ’’ با اختیار ماں ‘‘ بنتی ہے تو اس کی اوّلین ترجیح اپنے تحفظ کو یقینی بنائے رکھنا ہوتی ہے ۔ اسی لیے عملاً وہ شوہر کے مقابلے میں اپنے کمائو بیٹوں کو اہمیت دیتی ہے ۔بیش تر صورتوں میں اس کی توجہ کا مرکز وہ بیٹا ہوتا ہے، جو معاشی طور پر زیادہ مستحکم ہو۔

اس کی یہ عنایت بظاہر تو بھلی محسوس ہوتی ہے لیکن وہ بیٹے کی شادی کرکے اپنے اختیار سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ یہ سماجی مسائل کا ایک اور توجہ طلب پہلو ہے کہ جب تک مائیں اپنے بیٹوں کی شادی کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گی تو لڑکیوں کی شادی کس طرح ہوگی۔ ماؤں کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

……ممتا اور ماں ……

’’ماں ‘‘ عورت کا سب سے حسین روپ ہے ۔’ماں ‘‘ کا وجود ممتا کے بغیر ممکن نہیں ،جس میں ممتا کا جذبہ موجود ہو وہ بھلا کب سفاک ہوسکتی ہے ۔ممتا تو بر کھایا سورج کی طرح ہوتی ہے ،جس کی عنایت سب کے لیے ہوتی ہے ۔ممتا کی اپنی کوئی ترجیح نہیں ہوتی ،ممتا کبھی بھی امتیاز نہیں برتتی ۔وہ سب کے لیے ہوتی ہے، مگر جب یہ جذبہ آلودہ ہوجائے توناانصافی ،جبر اور استحصال کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جو نسل در نسل سفر کرتا ہے۔ ذرا سوچیں، غور کریں۔

……ماں اور بیٹی ……

ماں اور بیٹی کے باہمی تعلق کے حوالے سے ان کے جذبات واحساسات کم و بیش یکساں ہوتے ہیں خواہ اُن کا تعلق کسی بھی عہدسے ہو اور یہ بھی بجا ہے کہ بیٹیوں کی فطرت بھی ماں کی فطرت سے ہم آہنگ ہوتی ہے بیٹی کودل کی آنکھ سے دیکھنے والی ماں اُسے زمانے کے سردوگرم سے بچانا بھی چاہتی ہے اور اس سفاک معاشرے میں عزت و وقار سے اعتماد کےساتھ جینے کا حوصلہ بھی عطا کرتی ہے اور ایسا ہی ماں کرتی ہے ،جو اپنی ذات کی نفی کرتی ہے۔