ڈاکٹر آسی خرم جہانگیری
ارشادِ ربّانی ہے: اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو، بےشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو اور (اِن تمام معاملات میں) اللہ سے ڈرو،بےشک اللہ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے(سورۃ الحجرات،۱۲)
آج ہمارے معاشرے میں متعدد اقسام کی بیماریاں سرایت کرگئی ہیں، ان بیماریوں میں سے ایک اہم بیماری غیبت ہے ۔ یہ ایسی بیماری ہے جو عوام ہی نہیں، بلکہ سماج کے بااثر ذی شعور طبقے کو بھی لاحق ہوگئی ہے اور اس با ت کا انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ان سے کوئی مذموم حرکت سرزد ہورہی ہے۔
سب سے پہلے تو یہ جان لیا جائے کہ غیبت کسے کہتے ہیں ،تاکہ اس سے بچنا ممکن ہو سکے؟ غیبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے کے سامنے کسی کی ذاتی برائیوں اور کوتاہیوں کا اس طور پر تذکرہ کیا جائے ،جب وہ اسے سنے تو برا جانے، جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
حضرت ابوہریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا ’’تم جانتے ہو کہ غیبت کیاہے ؟‘‘ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’اپنے مسلمان بھائی کاذکر اس طرح کرناکہ وہ اسے ناگوار گزرے‘‘، لوگوں نے کہا: اگر وہ برائی اس میں موجود ہوتو؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اگراس کے اندر وہ برائی موجود ہوتو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ برائی اس کے اندر موجود نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان باندھا۔(صحیح مسلم)
غیبت ایک بھیانک جرم ہے ،کیونکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی کے عیوب کی تشہیر کرکے اس کی آبروریزی کی جائے ،حالانکہ یہ سراسر حرام ہے،لیکن اگر کسی شخص میں کوئی ایسی برائی موجود ہو جس سے دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں لوگوں کو اس شخص کی برائی سے مطلع کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔
مثلاً کسی نے اپنے گھر سے کسی خانساماں یا ڈرائیور کو چوری یا غیر اخلاقی سرگرمیوں کی وجہ سے نکال دیا ہے اور اسے یہ پتا چل چکا ہے کہ اس خانساماں یا ڈرائیور کو اس کے کسی پڑوسی یا رشتے دار نے اپنے پاس ملازم رکھ لیا ہے تو ایسی صورت میں اس پر اپنے پڑوسی یا رشتے دار کو اس کی عادت سے مطلع کرنا ضروری ہے۔
یہاں جس غیبت کی ممانعت کی بات ہو رہی ہے ،وہ کسی مسلمان کی ذاتی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی تشہر کر کے اس کی آبروریزی کرنا ہے۔جسے اللہ تعالیٰ نے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیت میں موجود ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں غیبت کو مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر اس فعل کی کراہیت کا احساس دلایا ہے، مردار کا گوشت کھانا بجائے خود نفرت کے قابل ہے ،اور وہ گوشت بھی کسی جانور کا نہیں ،بلکہ انسان کا ہو اور انسان بھی کوئی اور نہیں خوداپنا بھائی ہو۔ قرآن کریم نے غیبت سے منع کیا اور ہمارے سامنے ایک ایسی چیز کا تصور پیش کیا جس کے تصور سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسے بھائی کا تصور پیش کیا جو اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے۔
غیبت کے بے شمار اسباب ہو سکتے ہیں، غصے کی حالت میں ایک انسان دوسرے انسان کی غیبت کرتا ہے۔ لوگوں کی دیکھا دیکھی اور دوستوں کی حمایت میں غیبت کی جاتی ہے۔ انسان کو خطرہ ہو کہ کوئی دوسرا آدمی میری برائی بیان کرے گا، تو اسے لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لئے اس کی غیبت کی جاتی ہے۔
کسی جرم میں دوسرے کو شامل کر لینا حالانکہ وہ شامل نہ تھا، یہ بھی غیبت کی ایک صورت ہے۔بہر حال ہر شخص کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس حرام فعل سے توبہ و استغفار کرتے ہوئے رک جائے ،پھر اگر وہ آدمی موجود ہو جس کی غیبت کی گئی ہے تو اس سے معافی مانگے ،ورنہ اس کے حق میں کثرت سے دعائے مغفرت کرے۔